دارالعلوم حقانیہ کی امداد اور صوبائی حکومت کی ترجیحات
نوٹ : آپ کی رائے جامع، واضح ، با مقصد اور مختصر ہونی چاہئے۔اپنی رائے اور الفاظ کے استعمال میں انتہائی احتیاط کیجئےتاکہ کسی بھی فرد کے جذبات مجروح ہونے کا خدشہ نہ ہو ۔
دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی طرف سے 30 کروڑ روپے کی خطیر امداد آج کل زیر بحث ہے اور بیشتر سیاسی سماجی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے سامنے آرہی ہے کہ یہ امداد سیاسی رشوت کے سوا کچھ نہیں جس سے صوبائی حکومت نے کئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں سب سے اہم جولائی میں متوقع حکومت مخالف تحریک میں پاکستان دفاع کونسل کی طرف سے دباؤ ڈالنا بھی ہو سکتاہے جس میں مولانا سمیع الحق کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔جمیعت علماء اسلام فضل الرحمٰن سے تحریک انصاف کی مخالفت بھی ڈھکی چُھپی بات نہیں ۔بلکہ بے باک تبصرہ نگار تو اس امداد کو طالبان اور ان کے ہمدرد حلقوں کی حمایت جیتنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اس کے بر عکس تحریک انصاف کے سربراہ کا موقف ہے کہ ان کی یہ کاوش مدارس کے نظام کو مرکزی دھارے میں لانے کی کاوشوں کا حصہ ہے اور یہ کہ دارالعلوم حقانیہ نے پولیو کے خلاف مہم میں بھرپور حصہ لیا تھا ۔ان کے اس موقف پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں ،لیکن اس بحث کا تعلق سیاست سے ہٹ کر صوبوں کی ترجیحات کا بھی ہے ۔صوبے نے یہ پیسے اوقاف کے ترقیاتی بجٹ سے دیئے ہیں اور معلوم نہیں دارلعلوم میں کس مد میں خرچ ہونگے،البتہ صوبائی حکومت مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کی کاؤش تو درکنار ،ان کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی موضوع ہے اور مدارس نظام تعلیم کا حصہ ہیں لیکن بیشتر صوبوں بشمول خیبر پختونخوا نے مدارس کے ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا ہے بلکہ خواہش نظر آتی ہے کہ وفاق پورے تعلیمی نظام کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے جائے۔
المیہ یہ ہے کہ کوئی تعلیم اور صحت کے نظام کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ۔صرف اور صرف پیداواری اداروں کا کنٹرول صوبوں کی ترجیحات ہیں اور ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ طاقت اور وسائل کا ارتکاز بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبے مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں،بلدیاتی انتخابات کے باوجود مقامی حکومتیں بے اختیار ہیں۔ صوبے تعلیم اور مدارس کی ذمہ داری کو تو وفاق کو تو منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن ضلعی حکومتوں کو نہیں ،کیونکہ ان شعبوں کی نیچے منتقلی کا معاشی دباؤ صوبائی حکومتوں پر آئے گا۔
اس تناظرمیں کسی مخصوص عسکریت پسند شناخت رکھنے والے مدرسے کی امدا د کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ ہی اس سے مدارس مرکزی دھارے میں آئینگے ۔نہ ہی نظام تعلیم کی اصلاح ہوگی ۔البتہ قومی وسائل کے ایسے استعمال پر سوال ضرور اٹھائے جاتے رہنگے۔
فیس بک پر تبصرے