سی پیک کے خلاف عالمی سازشیں کہاں سے ہو رہی ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن نے درست تجزیہ کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی کشمکش کے ڈانڈے سی پیک منصوبہ کی تعمیر سے ملتے ہیں اور مغربی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم کر کے مشرقی ممالک کے معاشی مفادات کو زک پہنچانا چاہتی ہیں
موجودہ سیاسی بحران میں مولانا فضل الرحمٰن،جاوید ہاشمی،محمود اچکزئی اور بعدازاں حاصل بزنجو نے اصولی پوزیشن لیکر قومی سیاست میں توازن پیدا کر دیا،جس سے سیاسی بحران کی شدت قدرے کم ہو گئی،اس پورے تناظر میں یہی وہ نقطہ تھا جو متضاد قوتوں کے مابین توازن قائم کر کے اجتماعی حیات کی روانی کو ہموار رکھ سکتا تھا،اس سے قبل پانامہ گیٹ سیکنڈل میں پھنسی مسلم لیگی قیادت کی تنہا مزاحمت عدم توازن کو بڑھا رہی تھی۔خوش قسمتی سے پچھلے تیس سالوں میں قومی سیاست میں ایک ایسا مربوط زاویہ نگاہ پروان چڑھا جو آئین کی بالادستی کے تصورات پہ محیط اور تقسیم اختیارات کی از سر نو تشریح کا متقاضی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدان زیادہ دیر تک اپنی حقیر حیثیت پہ قانع نہیں رہ سکتے تھے،وہ دن گئے جب اہل سیاست بزدل کنواری بڑھیا کی مانند آمریت کے آلام سے خو ف زدہ ہو کر کنج عافیت میں پناہ تلاش کرتے تھے،اب ان کی تابناک آنکھیں دن کی روشنی سے خائف نہیں اور وہ خطرات سے الجھنے اور جمہوریت کے غلبہ کی طویل جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو چکے ہیں۔اس ابدی اصول کے مطابق کہ سیاست میں ہر دلیل اپنا تضاد خود پیدا کرتی ہے،قومی سیاست میں فطری طور پہ بدعنوانی کے تراشیدہ الزامات کی اُن سحرانگیزیوں کے خلاف جوابی ردعمل ابھر رہا ہے،جنہوں نے ستر سالوں سے قومی قیادت کو پاباجولاں رکھا ہوا ہے۔جے آئی ٹی رپوٹ کے بعد میڈیا نے جس سرعت کے ساتھ نواز حکومت کی تنزلی کا تاثر بنایا،منتخب قیادت نے جوابی بیانیہ کے ذریعے اسی تیزی کے ساتھ اس کیفیت کو تحلیل کر دیا،تھوڑا سا وقت ملنے کے بعد حکمراں جماعت نے جے آئی ٹی رپوٹ کے مخالف ایک توانا بیانیہ مرتب کر لیا،جس کے بعد ہدف کو سامنے رکھ کے جلدی میں بنائی گئی رپوٹ کے مساموں سے سیاسی عزائم صاف نظر آنے لگے ہیں۔بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش کا سینٹر آف گریوٹی طاقت کا حصول ہے اور اس جدلیات میں الجھے گروہ ،رائے عامہ کو اپنی پشت پر جمع کرنے کی خاطر بدعنوانی کے خاتمہ کی myth کو بروکار لا رہے ہیں تاکہ طاقت کے حصول کی جنگ کو اخلاقی جواز کے لبادے پہنائے جا سکیں لیکن اس ہمہ جہت سیاسی بحران میں عالمی قوتوں کے مابین معاشی مفادات کی جنگ کے محرکات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ایشیا ٹائمز نے اپنی حالیہ رپوٹ بعنوان The New silk Road Will Go Through Syriaمیں لکھا ہے کہ شام میں غم و اندوہ کی داستانوں اور تقدیر کی ستم ظریفیوں کے درمیان خوش قسمتی کے اشارے ملتے ہیں،گزشتہ ہفتے، بیجنگ میں، چائنہ عرب ایکسچینج ایسویسی ایشن اور شامی سفارت خانہ نے،سیرین ڈے ایکسپو، کا اہتمام کیا جس میں شام کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کرنے والے سینکڑوں چینی ماہرین نے شرکت کی،یہ ایشین انفراسٹریکچر انوسٹمنٹ بنک کا ایک چھوٹا سا اجتماع تھا ۔اگلے ماہ شام میں منعقد ہونے والے 59 ویں دمشق بین الاقوامی میلہ میں 30 سے زائد عرب اور غیرملکی کمپنیاں شریک ہوں گی، اے آئی آئی بنک دو ارب ڈالر کی خطیر رقم سے دمشق میں انڈسٹریل پارک بنائے گا اور چینی حکومت ایک نئی شاہرہ ریشم کے ذریعے شام کے راستے براعظم یورپ اور افریقہ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرے گی،اخبار نے لکھا ہے کہ چین اس بات کو فراموش نہیں کر سکتا کہ پرانے وقتوں میں شام ہی براعظم یورپ اور افریقہ کی تجارت کو کنٹرول کرنے والی پرانی شاہراہ ریشم پر تصرف رکھتا تھا اور یہیں سے بحیرہ روم کے ذریعے یوروپ اور افریقہ کے عشرت کدوں کو اشیائے تعیش پہنچائی جاتی تھیں،سترویں صدی عیسوی میں اٹلی کو جب بحیرہ روم کی تجارتی گزرگاہوں پہ کنٹرول حاصل ہوا تو وہ دنیا کی سپر طاقت بن کے ابھرا،اخبار نے لکھا ہے کہ چین ہمیشہ آنے والے کئی سالوں کی پیش بندی کرتا ہے اس لئے شامی سفیر کی چین کے ساتھ ہم آغوش ہونے کی رسم کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھی،بلاشبہ ایک بڑی معاشی سکیم کے تحت شام کی تعمیر نو میں روس،چین اور ایران کو فوقیت ملے گی۔اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ چین کی طرح امریکہ بھی اگلے پچاس سالوں کی منصوبہ بندی کے تحت عالمی بساط پہ اپنے مہروں کو حرکت دیتا ہے اور یہ بھی کوئی حادثہ نہیں کہ گزشتہ پچیس سالوں کے دوران سی پیک اور پرانی شاہراہ ریشم کے حامل ملک شام اور پاکستان میں خونخوار دہشتگردی اور بدامنی کی لہر کے پیچھے عالمی طاقتوں کی پیکار شامل ہو گی،اگر شام کی تباہی کے پیچھے کارفرما عوامل کو سمجھنا ہو تو عالمی طاقتوں کے معاشی مفادات کی ٹریل کو دیکھنا پڑے گا،شام میں بھی اپوزیشن کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت خاتمہ کرنے کی کوشش میں داخلی انتشار کا ایسا وبال پیدا ہوا جو بالآخر وہاں عالمی طاقتوں کی فوجی مداخلت کا جواز بن گیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے درست تجزیہ کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی کشمکش کے ڈانڈے سی پیک منصوبہ کی تعمیر سے ملتے ہیں اور مغربی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم کر کے مشرقی ممالک کے معاشی مفادات کو زک پہنچانا چاہتی ہیں،انہوں نے کہا کہ دنیا ایک بار پھر دو قطبی نظام میں منظم ہو رہی ہے، اس وقت چین ،روس،ترکی اور پاکستان ایک طرف جبکہ امریکہ،انڈیا اور یورپ دوسری طرف کھڑے نظرآتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پہ دہشتگردی کے فروغ کے الزامات لگا کے سویلین اور فوجی امداد میں بتدریج کمی کا رجحان اور اس پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کی پراسرار خاموشی اس امر کی غماز ہے کہ دونوں ممالک میں اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے،بلاشبہ،پالیسی شفٹ کے اس عمل میں مملکت کے سفینہ کو کئی جھٹکے محسوس کرنے پڑیں گے اور اس پس منظر میں یہی وہ محرکات ہیں جو سیاسی عدم استحکام کو بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں، اس لئے حکمران اشرافیہ اور اپوزیشن کو حوصلہ سے کام لینا ہو گا،ملکی استحکام کو گزند پہنچانے سے اس خطہ میں معاشی ارتقاء کے امکانات معدوم ہو سکتے ہیں۔ادھر اسی پرہنگام جدلیات کے سایہ میں سی پیک منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مراحل سر کر رہا ہے،مغربی روٹ پر کام کرنے والی کمپنی کی پراگریس روپوٹ کے مطابق 142 ارب روپے کی لاگت سے ہکلہ یارک سکشن 2018 ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔خیبر پختون خواہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی سیکورٹی کے لئے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے فنڈز جاری کر دیئے،صوبائی حکومت نے سی پیک کی سیکورٹی کیلئے 3 ارب 12 کروڑ روپے مختص کئے، محکمہ خزانہ نے پی سی ون کی تیاری کے لئے ایک ارب 57 کروڑ روپے جاری کئے،سیکورٹی مقصد کے حصول کی خاطر پولیس میں 3807 نئی پوسٹوں کی تخلیق کے لئے ایک ارب گیارہ کروڑ 15 لاکھ روپے مختص ہوئے،نئی بھرتی کے لئے پہلے مرحلہ میں 478 ملین روپے جبکہ دوسرے مرحلہ کیلئے پولیس کو 633 ملین روپے جاری کئے جائیں گے، 429 ایس پی او عہدوں کے لئے مختص چار کروڑ 59 لاکھ روپے کی پہلی قسط جاری کی گئی ہے،سیکورٹی فورسزکی گاڑیوں کی خریداری کیلئے مختص 95 کروڑ 10 لاکھ روپے میں سے 47 کروڑ 55 لاکھ روپے اگلے مرحلہ میں ریلیز ہوں گے، محکمہ پولیس نے حساس آلات کی خریداری کے لئے مختص تین کروڑ 51 لاکھ روپے اور اسلحہ کی خریداری کے لئے مختص نو کروڑ روپے میں سے45 کروڑ بارہ لاکھ روپے وصول کر لئے ہیں،انہیں 45 کروڑ بارہ لاکھ روپے دوسری مرحلہ میں جاری کر دیئے جائیں گے،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سی پیک فورس کی وردی کے لئے مختص ساٹھ کروڑ 54 لاکھ روپے ریلیز ہو گئے ہیں،واضح رہے کہ سی پیک پولیس فورس کو پاک آرمی کے ہمراہ سیکورٹی امور سر انجام دینے کا پابند بنایا گیا،اسی لئے سی پیک سیکورٹی فورس میں بھرتی کیلئے ریٹائرڈ فوجیوں کو ترجیح دی جا رہی ہے اور حکومتی ذرائع کے مطابق سی پیک سیکورٹی فورس بھرتی کا ہزارہ ڈویژن سے آغاز کیا جائیگا۔
فیس بک پر تبصرے