گھر میں لگی آگ کو خود ہی بجھانا ہو گا
پڑوسی ہوتے ہوئے بھی حالیہ دوریوں کو کم کرنے کے لیے کابل اور اسلام آباد ثالث کی تلاش کرتے رہے لیکن اب دونوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ راستہ براہ راست بات چیت ہی سے نکل سکتا ہے۔
خیبر ایجنسی کی دور افتادہ اور دشوار گزار وادی راجگال میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے ’خیبر فور‘ کے نام سے ایک بڑی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
لگ بھگ 250 مربع کلو میٹر پر پھیلی وادی راجگال کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں، جن کے خاتمے کے لیے فوج کے ’اسپیشل سروسز گروپ‘ کے اہلکار مختلف اطراف سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کارروائی کا ایک مقصد تو علاقے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ ہے جب کہ اس کے بعد دوسرا ہدف وہاں سکیورٹی فورسز کی مزید چوکیاں بنا کر سرحد پار افغانستان سے ممکنہ طور پر شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے جنگجوؤں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔
افغانستان طویل عرصے سے پاکستان سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے، لیکن جب فوج نے وادی راجگال میں کارروائی کا آغاز کیا تو افغان وزارت دفاع نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ’خیبر فور‘ کے آغاز سے قبل کابل کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے پاکستان سے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ایسی کسی بھی کارروائی کی نگرانی امریکہ یا چین کو کرنی چاہیئے۔
بلکہ بعض افغان حکام نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس آپریشن کی بجائے پاکستان مبینہ طور شہری علاقوں میں چھپے اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے جو افغانستان کے لیے خطرہ ہیں۔
پاکستانی فوج نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نا صرف افغان سکیورٹی فورسز بلکہ وہاں تعینات بین الاقوامی افواج کو بھی اس آپریشن سے متعلق زبانی اور تحریراً آگاہ کر دیا گیا تھا۔
یہ بات تو اب پرانی ہو چلی ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی صورت میں جب دہشت گرد مزاحمت نہیں کر سکتے تو افغانستان فرار ہو جاتے ہیں لیکن اُن کو روکنے کا سب سے موذوں راستہ سرحد پار بھی فوجیوں کی تعیناتی ہی ہے۔
دہشت گردوں کی اس طرح کی آمد و رفت کو روکنا ہے تو پھر الزام تراشی کو ترک کر کے تعاون کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
رواں ماہ امریکی اراکین کانگریس کے حالیہ دورہ پاکستان اور افغانستان کے بعد کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردوں کے خلاف مربوط کارروائیوں پر متفق ہو گئے ہیں، لیکن ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی تاحال ایسے تعاون کے امکانات نظر نہیں آتے۔
سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر پڑوسی ملک کی جانب سے اعتراض اس لیے کیا جا رہا ہے کہ کابل کی یہ کوشش ہے کہ اُسے یہ بتایا جائے کہ آپریشن جن شدت پسندوں کے خلاف کیا جا رہا ہے وہ کون ہیں، کیوں اُس کا مطالبہ پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کا نہیں بلکہ اُن عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا ہے جو افغانستان کے لیے خطرہ ہیں۔
اگر فریق صرف اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہیں گے جن سے اُن کی سلامتی کو خطرہ ہے تو اس مسئلے سے جلد نمٹنے کا خواب، شاید پورا نا ہو۔
پاکستان اور افغانستان کو جہاں اس خطے میں پہلے سے موجود دہشت گرد تنظمیوں سے خطرہ ہے وہیں اب ’داعش‘ بھی افغانستان کے بعض مشرقی علاقوں میں قدم جما چکی ہے اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
اگرچہ بہت کھل کر اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ زیادہ نہیں کہا گیا لیکن اس خطرے کا ادارک پاکستان کو بھی ہے کیوں کہ ’داعش‘ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے کئی واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
اس تمام تر صورت حال میں اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہو گا تو وہ پاکستان اور افغانستان ہی ہوں گے، اس لیے عناد کی بجائے تعاون کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔
پڑوسی ہوتے ہوئے بھی حالیہ دوریوں کو کم کرنے کے لیے کابل اور اسلام آباد ثالث کی تلاش کرتے رہے لیکن اب دونوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ راستہ براہ راست بات چیت ہی سے نکل سکتا ہے۔
جس سے دل کی بات، یا کوئی گلہ شکوہ کرنا ہو تو اس کے روبرو ہی بیٹھنا ہو گا۔
کیوں کہ جب بد اعتمادی اس قدر بڑھ چکی ہو تو کوئی اور آپ کا پیغام کیسے کسی تک پہنچا سکتا ہے۔ خوشحالی اور استحکام کی صورت میں بھی پڑوسیوں کے درمیان دوریاں بہت نقصان دہ ہوتی ہیں اور ایک ایسے وقت جب دنیا کی نظریں خطے کو درپیش انتہا پسندی و دہشت گردی کے خطرے کی جانب لگی ہوں تو یہاں کے بسنے والوں اور حکومت کو خود ہی یہ آگ بجھانا ہو گی۔
فیس بک پر تبصرے