وزیراعظم کے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں
نوازشریف نے قانونی فیصلہ قبول کرتے ہوئے سیاسی مقابلہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔ اب وہ خود ایک طرح سے کنارہ کریں گے۔ بلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ ان کاگروپ اب ان کے نام پرحکمرانی کرنے کا سوچ رہاہے۔
سپریم کورٹ نے نوازشریف خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقات کرنےوالی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر پانچ روزہ سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔ فیصلہ کی تاریخ کااعلان جلد متوقع ہے۔ تین رکنی بنچ کے فیصلہ کا ملکی سیاست، ریاستی ستونوں اوراداروں کے درمیان اختیارات کے توازن اورملک میں جاری جمہوریت کے تسلسل اورکرپشن اوراحتساب جیسے امورپرگہرے اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
نوازشریف کے پاس دوآپشن ہیں۔ اوّل یہ کہ اسمبلی توڑکرنئے انتخابات کرانے کافیصلہ کرے۔ اس طرح نوازشریف عدالت پردباوبڑھاسکتاہے۔ اس سے یہ ظاہرہوگاکہ وزیراعظم عوامی عدالت سے رجوع کرنے کوفوقیت دیتے ہیں۔ دوسراآپشن یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے کاانتظارکرے۔ اورخبروں سے تویہی ظاہرہورہاہےکہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہی کوئِی فیصلہ کیاجائے گا۔
پانچ روزہ سماعت سے وزیراعظم اوراس کے خاندان کے خلاف فیصلہ آنے کے امکانات قوی نظرآتےہیں۔ میڈیا رپورٹوں سے ایسا ظاہرہوتاہے کہ سیاسی وعدالتی توازن دونوں وزیراعظم کے حق میں نظرنہیں آتے۔ جنگ کے مطابق وزیرداخلہ چوہدری نثارنے وزیراعظم سے علیحدگی کافیصلہ کرلیاہے۔ خبرکے مطابق اس طرح چوہدری نثارنوازشریف سے 35سالہ سیاسی رفاقت ختم کرلیں گے۔ نوازلیگ نے نوازشریف کی نااہلی کی صورت میں نیا وزیراعظم لانے کافیصلہ کیاہے۔ اس منصوبہ کے تحت ابتداء میں ایک مختصرعرصہ کے لئے عبوری وزیراعظم لایاجائے گا اوراس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کوقومی اسمبلی کے حلقے سے منتخب کرواکروزیراعظم بنایاجائے گا۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ اسمبلی کوتوڑنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ عبوری وزیراعظم کے طورپرخواجہ آصف کے علاوہ ایازصادق کے نام لئے جارہے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے قانونی فیصلہ قبول کرتے ہوئے سیاسی مقابلہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔ اب وہ خود ایک طرح سے کنارہ کریں گے۔ بلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ ان کاگروپ اب ان کے نام پرحکمرانی کرنے کا سوچ رہاہے۔
وزیراعظم نے لواری ٹنل کے افتتاح کے موقع پر کہاکہ ’’مجھے کہاجارہاہے کہ استعفیٰ دو، کیا نواز شریف تمہارے ووٹوں سے وزیر اعظم بنا ہے جو تمہارے کہنے پر استعفیٰ دے‘یہ کھیل تماشے اب بہت ہو چکے‘ میرے صبرکا امتحان مت لو‘‘۔ ظاہرہے اس کے مخاطب سیاسی مخالفین اوراسٹبلشمنٹ دونوں ہیں۔ کہاجارہاہے کہ فوج کے کچھ جرنیل اب بھی نوازحکومت کے خاتمے پربضد ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے گروپ کواگرچہ پیچھے کرکے جنرل باجوہ اوراس کے جمہوریت پسند افسران کوآگے لایاگیاہے۔ لیکن حالات حکومت کے لئے کچھ اچھے نظرنہیں آتے۔ اس سے پہلے 2014کے دھرنے کے وقت بھی کچھ جرنیل نوازحکومت کے خاتمے پربضد تھے۔ مگراس وقت فوج تختہ الٹنے سے تودوررہی مگرمسلسل سیاسی مخالفت نے فوج کوآگے آنے دیا اورجنرل راحیل شریف عملی طورپروزیراعظم کے ہم نشینی کرنے لگے۔
نوازشریف تیزی سے حکمرانوں کے لئے ناکارہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں مندی اورپاکستان کے ٹیکسٹائل کے سرمایہ داروں نے بھی گلہ کیاہے کہ ان کومراعات اور ٹیکس میں رعایتیں نہیں دی گئیں ۔ سی پیک پربھی پنجاب کے تین اہم صنعتی زونزکے سربراہوں نے تحفظات کااظہارکیا۔ حال ہی میں سی پیک کے منصوبے پرشکوک وشہبات میں مزیداضافہ ہواہے۔ پھروزیراعظم کے خاندان پرکرپشن، کاغذات کے اندرردوبدل جیسے الزامات لگائے گئے۔ اس طرح مریم نوازکے نوازشریف کے جانشینی کے امکانات فی الحال تقریبامعدوم ہوگئے ہیں۔ جانشینی پرپہلے سےجاری جنگ میں اب شہبازشریف اوپرآگئے ہیں۔ پانامہ اسیکنڈل نے وزیراعظم ہی نہیں پورے حکمرانوں کے کرپشن کوطشت ازبام کردیاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوازلیگ اوراس سے باہرحزب اختلاف دونوں اب نوازشریف سے چھٹکارے پرتیزی سے متفق ہوتے جارہے ہیں۔ سینٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے وزیراعظم نوازشریف سے استعفی کامطالبہ کیاہے۔ لبرل اورجمہوریت پسند اراکین سنیٹ تاج حیدراورفرحت اللہ بابرنے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کامطالبہ کیا۔ بی بی سی کے مطابق جمعرات کو سینیٹ میں سینیٹر تاج حیدر نے پاناما کیس پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور قومی اداروں بشمول سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور بد نیتی پر مبنی حملے کی تحاریک پیش کیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مسلم لیگ ن کے سینٹرز کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’میں اپنی ذاتی حیثیت میں مشورہ دے رہا ہوں کہ وزیرِ اعظم نواز شریف پر سنگین الزامات لگ گئے ہیں اور وہ اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ ان کاخیال ہے کہ اس سے جمہوریت کوخطرہ نہیں بلکہ ایک طریقے سے جمہوریت بچانے کی جدوجہد ہوگی۔
فیس بک پر تبصرے