مذہبی فکر اور تنازعات کا حل
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک روزہ فکری ورکشاپ کی سرگزشت
20 مارچ 2017ء کو پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں “مذہبی فکر اور تنازعات کا حل” کے عنوان سے ایک ورکشاپ منعقد کی جو کہ تین سیشنز پر پھیلی ہوئی تھی،ورکشاپ کی صدارت ڈاکٹر خالد مسعود سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کی جبکہ افتتاحی کلمات پپس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہے۔ورکشاپ کا کلیدی خطبہ ممتاز کالم نگار اور دانشور خورشید احمد ندیم نے پیش کیا۔شرکا میں سابق وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور ڈاکٹر قبلہ ایاز ، پاکستان سٹڈی سینٹر کراچی یونیورسٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر سید جعفر احمد ، خورشید ندیم ، ڈاکٹر مفتی راغب نعیمی ، علامہ سید احمد یوسف بنوری ، قاری یٰسین ظفر ، قاضی جاوید ، عمار خان ناصر ، ڈاکڑ حسن الامین ، ثاقب اکبر، صاحبزادہ امانت رسول اور مولانا عبد الحق ہاشمی شامل تھے
ورکشاپ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد پپس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اپنے استقبالی خطبہ میں کہا کہ انسداد شدت پسندی کے حوالے سے مذہبی بیانیے سے متعلق پپس سمیت مختلف اداروں کی جانب سے ایک ہی طرح کی تجاویز آ رہی ہیں لیکن ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طریقہ کارا ور میکانزم طے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے،اس وقت پورا منظر نامہ ہمارے سامنے ہے اور ان دس ورکشاپس کو منعقد کرنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے کہ ہم ان تجاویز کے لیے ایک میکانزم طے کریں اور انہیں عملی شکل دے سکیں۔
ممتاز دانشور خورشید احمد ندیم نے اپنے خطبے میں مذہبی بیانیے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
” کوئی شک نہیں کہ شدت پسندی کی طرف لے جانے والے مسائل سماجی بھی ہیں اور معاشی بھی، بنیادی سوالات دو ہیں اور انہیں کے گرد تمام باتیں گھومتیں ہیں ،اور وہ یہ کہ :غلطی نصب العین کے تعین میں ہے یا حکمت عملی کے تعین میں؟ ہم عموماً کہتے ہیں کہ طالبان کی سوچ درست ہے لیکن اختلاف ان کی حکمت عملی سے ہے،لہذا جماعت اسلامی،اخوان اور داعش وغیرہ یہ سب مقصد کے تعین میں تو متفق الخیال ہیں ،اگر اختلاف ہے تو وہ حکمت عملی میں ہے۔کیا یہ مقدمہ درست ہے؟
دوسرا بنیادی اہم سوال یہ ہے کیا یہ افغان جہاد کی پیداوار ہے؟ کیا اس کی مسلم تاریخ میں مثالیں نہیں ہیں؟یہ تو ایک مسلسل تاریخی عمل ہے جس کے نتیجہ میں دہشتگردی نے جنم لیا ہے۔لہذاجب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ عصری بیانیہ ہے تو ہم اپنے عہد کے سیاق میں مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں۔ ان دو باتوں کو سمجھے بغیر متبادل بیانیے کی طرف بڑھنا ناممکن ہے۔
میرے مطابق اصل مسئلہ حکمت عملی کا نہیں نصب العین کا ہے۔کیا اسلام چاہتا ہے کہ اسے سیاسی غلبہ حاصل ہو؟ اگر یہی مقدمہ ہے تو حکمت عملی کے تعین میں تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے آئیں چاہے وہ مرسی یا ظواہری کا طریقہ ہو یا سراج الحق اور طالبان کا،یہی فکر ہے جس نے ایرانی انقلاب برپا کیا۔ طالبان یا بغدادی کی حمایت یا مخالفت فروعی مسائل ہیں۔جب تک یہ مقدمہ برقرار رہے گا مذہبی تنازعات برپا ہوتے رہیں گے۔
میرے مطابق اسلام سیاسی غلبہ کے لیے نہیں آیا،مسلمان امت کا منصب “شھادت علی الناس” یعنی دعوت ہے۔مسلمانوں کے درمیان ابتدائی تمام تنازعات سیاسی تھے، پہلا تنازعہ ہی سیاسی جانشینی کا تھا،مذہبی جانشینی کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا کیونکہ آپﷺ خاتم المرسلین ہیں،اب آسمان کو زمین سے ہمکلام نہیں ہونا اس لیے رسالت مآبﷺ کے بعد یہ یقینی ہے کہ مسئلہ سیاسی تھا،اسی لیے جو خطبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا اس میں کوئی مذہبی دلائل نہیں تھے،خلافت انصار کو یا مہاجرین کو یا پھر اہل بیت کو کیوں ملنی چاہیے؟ سب سیاسی دلائل تھے۔دوسرا بڑا واقعہ حضرت عثمانؓ کے خلاف چارج شیٹ تھی،اس میں بھی کوئی مذہبی سوال نہیں اٹھایا گیا،اقرباپروری وغیرہ کی سب باتیں سیاسی تھیں۔
اسی طرح حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت ظاہر ہونے والا اختلاف بھی سیاسی ہی تھا کہ پہلے نظم اجتماعی قائم ہو یا خلیفہ کے قاتلین سے انتقام لیا جائے؟خوارج کے معاملے نے بھی اسی سے جنم لیا اور ” ان الحکم الا للہ کا نعرہ بلند ہوا، خوارج نے دونوں کو ہی قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ایک میں تو وہ کامیاب ہوئے اور حضرت علیؓ کو شہید کر دیا گیا جبکہ دوسرے میں وہ ناکام رہے۔
بعد میں سانحہ کربلا کے بعد سیاسی گروہوں نے اپنے سیاسی موقف کے لیے مذہبی دلائل تراشنا شروع کر دیے اور امامت کا تصور اہل تشیع نے پیش کیا،خلافت کے تصور کی دینی تشریح بھی عباسیوں نے پیش کی،حضرت ابوبکر کو خلیفۃ رسول اللہ کہا جاتا تھا جبکہ حضرت عمر نے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ خلافت یا خلیفہ کہلوانا کوئی ضروری نہیں تھا۔
اس طرح خوارج، سنیوں اور شیعوں ، تینوں کے درمیان اختلاف مذہبی نہیں تھا لیکن اس سیاسی اختلاف کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنی مختصر کتاب “مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ” میں اس بات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے،ان کا ایک جملہ ہے ” سیاست ہی اسلام ہے،یہ وہ دروازہ ہے جس کے کھلنے کے بعد فتنے کبھی بند نہیں ہو سکے” شروع میں “معرفۃ الامام و اداء الامانۃ” کا تصور تھا جو بعد میں صرف معرفۃ الامام تک محدود ہو گیا۔
تاریخ میں مختلف ادوار میں مختلف انداز سے اس کا ظہور ہوا،دور جدید میں نوآبادیاتی دور کے خاتمہ کے وقت اس کا ظہور ہوا اور مصر کے رشید رضا نے مسلم بیانیہ کی تشکیل میں خلافت کا بیانیہ سب سے پہلے پیش کیا،اسی کو مولانا مودودی نے پیش کیا،اسی کو داعش وغیرہ نے اختیار کیا اور اسی سے ہی جہاد افغانستان نے جنم لیا۔
صدارتی خطبہ:۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنے صدارتی خطبہ میں خورشید ندیم سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ : اگر ہم روسول اللہ ﷺ کی آخری زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب آخری دنوں میں آپ کے بعد کا سوال ہوتا تو آپ اس کے جواب سے گریز کرتے،آپ کی خواہش تھی کہ یہ معاملہ امت طے کرے کہ آپ کے نائب کا حضور ﷺ سے رشتہ خاندانی ہو ،دینی ہو یا سماجی ہو؟
صدر مجلس نے کہا کہ تنہا پسندی ہی انتہا پسندی پر منتج ہوتی ہے، جو یہ سوچ رکھے کہ میرا ہی غلبہ ہو اور میں کسی کی نہ مانوں یہ انتہا پسندی ہے۔
برصغیر کی دو بڑی شخصیات گزری ہیں،ایک جمال الدین افغانی اور دوسری سرسید،سرسید نے قوم کے لیے جس علمی راستے کا انتخاب کیا تھا قوم اس کو چھوڑ کر افغانی کے پیچھے چل پڑی۔اور علم مدرسہ و یونیورسٹی سے نکل گیا، ہمیں سرسید کی طرف لوٹنا ہو گا۔ تاریخ میں تجدید کا ایک تصور ہے جس کے مطابق ہر سو سال بعد تقریباً ہر علم و فن میں تجدید ہوتی رہی۔ اور روایت آگے بڑھی،اٹھارہویں صدی میں پورے عالم اسلام میں خود احتسابی کی تحریک شروع ہوئی ،آئین اور ترجیح کے مسائل طے کیے گئے۔لیکن یہ کہا گیا کہ چونکہ ہمارے پاس اقتدار نہیں ہے اس لیے ہم میں علمی اور اخلاقی کمزوریاں ہیں حالانکہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ہم نے خود احتسابی کو چھوڑ دیا اور اور وقتی و عارضی بحثوں میں پڑ گئے۔
دوسری نشست میں ادارہ اقبال برائے تحقیق و مکالمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: بیانیہ حالات خود بنا لیتے ہیں،چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں،جو لوگ دیہاتوں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف جا تے ہیں یا دوسرے ملکوں کا رخ اختیار کرتے ہیں تو انہیں مذہبی لوگ ہی کمیونٹی دیتے ہیں،کوئی اور کلچرل یا سپورٹس وغیرہ کی کمیونٹی نہیں ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے بعض شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی بھی راستہ طے کریں گے تو اس کا مذہبی حوالہ ضروری ہے۔مسلم معاشرے کے لیے کوئی بھی بیانیہ مذہب سے الگ کر کے نہیں تشکیل دیا جا سکتا لیکن مذہبی اکاموڈیشن لازمی ہے اسے بنیاد نہ بنایا جائے۔انہوں نے انڈونیشیا کے حوالے سے اسلامک سیکولر ازم کی بھی بات کی اور کہا کہ ہم مذہب کی روشنی میں سماج کو دیکھتے ہیں جبکہ سماج کی روشنی میں مذہب کو دیکھنا چاہیے۔آئیڈیلز نہیں ملتے اس لیے ہمیں حقائق پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔
انہوں نے مولانا مودودی اور آیت اللہ خمینی کی جانب سے مہدی کے تصور کی نئی تشریح کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح وہ مجبور ہوئے کہ مہدی کے تصور کی اپنے دور کے مطابق غلط یا صحیح تشریح کریں۔مولانا مودودی نے مہدی سے مراد ایک ماڈل لیڈر لیا ہے کہ کرنے کا کام یہ ہے بھلے کوئی بھی کر جائے اور ہو سکتا ہے وہ اپنا کام کر کے چلا بھی جائے اور اسے پتا بھی نہ ہو کہ وہ مہدی ہے ،حالانکہ حدیث میں صراحت ہے کہ وہ ایک خاص شخص ہو گااسی طرح خمینی صاحب نے بھی مہدی کے تصور کو متعلق بنانے کے لیے ولایت فقیہ کا تصور پیش کیا۔اگر آپ نے اس دنیا میں جینا ہے تو سماج کو بنیاد بنا کر مذہب کی تفہیم نو کا عمل کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے بیانیہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ساری قومی ریاستوں میں آئیڈیالوجی اور بیانیے ہوتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ بیانیہ معاشرے کی ضرورتوں کو بھی پورا کر رہا ہے ی صرف ریاست کی ضرورت کو؟ وہ بیانیہ متعلق ہوتا ہے جو اوپر سے نہ ہو بلکہ نیچے سے ہو،اس لیے پاکستان میں واقع ہونے والی سماجی تبدیلیاں ہمارا بنیادی نکتہ ہونا چاہئیں۔
جس معاشرے کے 80 فیصد ذرائع آمدن 10 فیصد لوگوں کے پاس ہوں تو یہ خلا اسی طرح پر ہو گا کہ محروم طبقہ کو بنیاد پرست بلائے تو اس کی طرف جائے اور شدت پسند بلائے تو اس کی طرف۔
عامر رانا کے اسلامی سیکولر ازم سے متعلق استفسار پر خورشید ندیم نے کہا کہ : انڈونیشیا میں بھی اس سطح تک بات ارتقاء سے ہی پہنچی ہے،سب سے پہلے وہ سیاست سے الگ ہوئے کہ ہم نے سماج میں کام کرنا ہےانہوں نے کہا کہ مجھے اصطلاح سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،انڈونیشیا کا ذکر میں نے صرف بطور مثال کے کیا ہے ،مجھے جوہر سے غرض ہے آپ اسے کوئی بھی نام دے دیجیے۔
آخری نشست اس پوری ورکشاپ کا نچوڑ تھی جس میں سابقہ تجاویز کے ساتھ ساتھ نئی تجاویز بھی سامنے آئیں،بعض سابقہ تجاویز میں ضروری ترمیم کی گئی اور عملی طریقہ کار سے متعلق درج ذیل امور اتفاق سے طے پائے۔
- 1۔اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق 2۔غیر مسلموں کے شہری و سیاسی حقوق 3۔دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے دستور کی شقوں کی عام فہم اور مدلل تشریح و توضیح لکھی جائے اور اس کی ہر سطح پر تشہیر کی جائے ۔
- مذہب کی تشریح اور تعبیر کا حق لوگوں کو حاصل ہے لیکن کسی ایسی تعبیر اور تشریح کو قبول نہیں کیا جا سکتا جو دستور پاکستان اور مملکت کے قانون کی روشنی میں نقض امن اور دوسری شہریوں کی دلآزاری کا باعث بنتے ہوں ۔
- عسکریت پسندوں کی جانب سے تشدد کو جائز قرار دینے کے لئے پھیلائے جانے والے تصورات ،شرعی جواز،روایات اور اسلامی تاریخ ، بشمول تکفیر و خروج کے بارے میں تفصیلی جواب مرتب کیا جائے ۔
- انتہا پسندی کا ایک سبب مشرق و مغرب کی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں بھی ہیں ان کے تدارک کے لئے پاکستان کی جامعات اور مدارس میں مطالعاتی مراکز اور کورسز شروع کئے جائیں
- قومی اور صوبائی سطح پر ڈائیلاگ فورم قائم کیا جائے ،جوبین المذاہب اور بین المسالک مکالمے کے لئے کردار ادا کرے
- مذہبی مفکرین اور سماجی علوم کے ماہرین مل کر ایک مثبت بیانیہ مرتب کریں جو جدید تقاضوں اور ضروریات کے ادراک کا مظہر ہو
- سماجی اور سیاسی اور قانونی حقوق کے دائرے میں صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے
- ان موضوعات پر مضامین اور کتب مذہبی اور غیر مذہبی تعلیمی اداروں میں رائج کی جائیں۔نصاب میں شامل جدید شہریت کی کتابوں میں برداشت ہم آہنگی اور عدل و انصاف کی اقدار پر زور دیا جائے ۔
- مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کی جائے
- ۔ حساس مذہبی مسائل پر طلبا میں شعور پیدا کرنے کے لئے کتابیں مرتب کر کے شامل نصاب کی جائیں ۔
- پاکستانی معاشرہ مختلف اور متنوع معاشرہ ہے جس میں مختلف ثقافتیں پائی جاتی ہیں ان تمام ثقافتوں کے بارے میں قبولیت کے احساسات کو فروغ دینا چاہئے ۔
- ثقافت کے نام پر ایسے منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو ۔
- علما سماج میں شعور پیدا کریں اوررائے عامہ کی تربیت کریں۔
فیس بک پر تبصرے