یہ کریم کون ہے؟
ایک وفا شعار بیوی کا یہ درد ناک سوال آج تک کانوں میں گونجتا ہے۔ بے چاری اتنی دیر سے دفتر سے آنے کا سبب پوچھ رہی تھیں اور حضرت مکمل بے اعتنائی سے کسی کریم کا نام لے رہے تھے۔ وفا شعار کو شک تو تھا لیکن یقین نہیں تھا کہ کریم مرد ہے یا عورت۔ جھنجلاہٹ میں محتاط خفگی کی وجہ سے سوال دھیما ہوتا ہوتا صرف گلہ بن کر رہ گیا تھا۔ یہ کریم کون ہے؟
معلوم نہیں اس سوال جواب کا نتیجہ کیا نکلا ہوگا۔ افسوس یہ ہے کہ ایک لیموزین سروس نے اپنا کاروبار چمکانے کے لئے ایک خاتون کی وفا شعاری کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنا دیا۔ ہم لوگ بھی کالوں کو گورا بنانے والی کریم کا اشتہار سمجھ کر خاموش رہے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہے ؟ اب وفاداری صرف گاڈ فادر کے لئے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ باقی ہر رشتے میں غیر ضروری بلکہ مذاق ہوگئی ہے۔
اصل میں کاروباری لوگ ہر چیز کو کاروبار کی طرح دیکھتے ہیں۔ حتی کہ خدمت کو بھی۔ اب اسی لیموزین سروس کو لے لیجئے۔ ہے تو خدمت کی سروس لیکن تیور دیکھیے کہ اشتہار میں بھی رشتوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اسی پر بس نہیں۔ اسی اشتہار سے شہ پاکر اب لیموزین نے رشتہ آنٹی سروس بھی لانچ کردی ہے۔ وہ جو تھوڑا بہت رشتوں کا پردہ تھا وہ بھی چاک ہو گیا۔ اب رشتے بھی کاروبار کی طرح سفر میں طے ہوں گے۔ کہتے ہیں صرف کاروباری لوگ رشتوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ رشتوں کو کاروبار اور کاروبار کو رشتوں میں بدلنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ رشتوں میں اس لئے مار کھا جاتے ہیں کہ وہ کاروباری لوگ نہیں ہوتے اور رشتوں کو کاروبار نہیں سمجھتے۔ ہم ابھی یہ گتھی نہیں سلجھا پائے تھے کہ سیاست کو کاروبارسے الگ کیوں رکھا جاتا ہے۔ سیاست دان بھی کاروبار کی نہیں خدمت کی بات کرتے ہیں ۔بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ خدمت کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ اب خدمت کاروبار بننے لگی ہے تو سوال تو بنتا ہے کہ سیاست کاروبار ہے یا کاروبار سیاست۔ اور اگر سیاست خدمت بلکہ عبادت ہےتو اس کے لئے الجبرے اور اقلیدس میں مہارت کی ضرورت نہیں کہ یہ سیدھی سادی مساوات ہی سمجھ میں نہ آئے کہ اگر خدمت کاروبار ہے اورسیاست خدمت بلکہ عبادت ہے تو سیاست بلکہ سیاسی عبادت عین کاروبار ہے۔
ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں لیکن رشتے بھی کاروبار بن جائیں تو وفا داری کے رشتے کا کیا ہوگا؟
سیاست اگر کاروبار ہے تو اس میں وفاداری کیسی؟ شاید ہم الٹا سوچ رہے ہیں۔ کہیں سیاست میں وفاداری کا دعوی اور توقع بھی کاروبار تو نہیں؟
رہے شادی بیاہ اور نکاح، ہو سکتا ہے ہم ہی غلط فہمی کا شکار ہیں جو انہیں رشتے سمجھ رہے ہیں۔ ایسے رشتے جوعمربھر وفا کے عہد، باہمی وفاداری کی توقع ،اور وفا شعاری کے دعوے پر استوار ہوتے ہیں۔ غلط فہمی اس لئے کہ رشتے کی جانچ پڑتال کے وقت خدمت مفروضے کے طورپر ذہنوں میں موجود تو ہوتی ہے لیکن اس کا بھاؤ تاؤ نہیں ہوتا۔ صرف طلاق کے وقت خدمت کی ناکامیاں گنا ئی جاتی ہیں جن میں بیوی کا بانجھ پن، اولاد نرینہ کی صلاحیت سے محرومی، یا میکے جا کر واپس نہ آنا وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ خاوند کی طرف سے شکایت میں بھی زن شوئی کی خدمت اور حقوق کا کھل کر ذکر ہوتا ہے۔ ورنہ رشتہ طے کرتے ہوے تو تنخواہ، بینک بیلنس وغیرہ کا یوں پوچھا جاتا ہے جیسے ملازمت کے لئے انٹرویو ہو رہا ہے۔ والدین بھی شادی کر کے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے اب عمر بھر کی خوشحالی کی ضمانت مل گئی ہو۔
لڑکے والے جہیز وغیرہ کے بارے میں پوچھ تاچھ ضرور کرتے ہیں، حتی کہ کار اور مکان وغیرہ کے بارے میں بھی تسلی کرتے ہیں۔ لیکن یہ کاروبار کے نقطہ نظر سے نہیں ہوتا۔
اب لگتا ہے یہ سب بدل جانے کو ہے۔ اب تو میاں بیوی دونوں کو نہ صرف منی ٹریل کی حفاظت کرنا ضروری ہوگی۔ کسی وقت بھی مانگی جا سکتی ہے۔ بلکہ دونوں کو الگ الگ ایک اکاؤنٹنٹ رکھنا ہوگا جو ہیر پھیر بھلے نہ کرے لیکن اس کا ماہر ہو تا کہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔
وکیل کی بھی ضرورت پڑے گی جو آف شور معاملات میں تجربہ رکھتا ہو۔ یہ سب اس لئے کہ اب شادی بیاہ کو کاروبار کی طرح نبھانا ہوگا۔ صرف وفاداری سے کام نہیں چلے گا ورنہ۔۔۔۔
آپ کریم رشتہ آنٹی کے بارے میں سوال ہی کرتے رہیں گےاور جواب محفوظ رہے گا۔
فیس بک پر تبصرے