خلیج کا بحران ایک نئی شکل میں

1,205

 

مشرق وسطی میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ یہ سلسلہ اب کہاں جا کر تھمے گا،حالیہ قطر کی جی سی سی کی رکنیت کا تنازع ابھی تک برقرار ہے اور اگر ایک طرف سے مصالحت کی کوششوں اور پھر برف پگھلنے کی خبر آتی ہے تو ساتھ ہی ایسی خبروں کی بھی بھرمار ہوتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہے بلکہ مزید ابتری کا شکار ہے۔

خلیجی ممالک  یہ نہیں چاہتے کہ قطر جیسا چھوٹا ملک آزادانہ فیصلے کرے اور خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں خودمختار ہو اور ایران جیسے ملک کے لیے نرم گوشہ رکھے جو کہ خلیج تعاون کونسل کی روح کے ہی خلاف ہے۔مصر جو کہ خلیج تعاون کونسل کا حصہ بھی نہیں ہے وہ قطر کو سبق سکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے جس کی سب سے بڑی دلیل ہفتہ کے دن مصری صدر کا مصر کے شہر الحمام میں مشرق وسطی اور افریقہ کےسب سے بڑے فوجی اڈے کا افتتاح اور اس موقع پر ان کی جارحانہ تقریر ہے۔

  مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ہفتے کے روز اسکندریہ سے مغرب میں واقع شہر الحمام میں خطے کے سب سے بڑےفوجی اڈے کا افتتاح کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے قطر کا نام لیے بغیر السیسی نے کہا  کہ ایک ملک ایک جانب دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے اور دوسری جانب بھائی چارے کی باتیں بھی کرتا ہے۔

مصری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق محمد نجیب ملٹری بیس مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ اس کو مصر کے سابق صدر مرحوم محمد نجیب کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں مختلف عرب ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود نے شرکت کی  جسے صدر عبدالفتاح السیسی نے  عرب اتحاد کی مظہر قرار دیا اور عرب قوم کو درپیش چیلنجز سے  نمٹنے کے لیے تعمیری تعاون کی ضرورت پر زوردیا ہے۔

انھوں نے اپنی تقریر میں سپاہیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ  وہ ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہیں کیونکہ  ملک کی سلامتی ، استحکام اور وقار کے لیے قربانی دینا قوم کے ان توانافرزندوں کی ذمے داری ہے اور وہ ایک تاریخی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مصریوں نے ہمیشہ اپنی فوج پر مکمل اعتماد کیا ہے۔

صدر السیسی نے مصر کے داخلی امور میں مداخلت کرنے والے ممالک کے بارے میں کہا کہ وہ کبھی ان کے ملک یا خطے کے ممالک کونقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔

انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ دوسرے ممالک کو تباہ کرنے کے لیے اربوں ڈالرز صرف کیے جارہے ہیں۔ ان کے بہ قول اب جنگ کے حربے تبدیل ہوچکے ہیں اور دشمن براہ راست محاذ آرائی کے بجائے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا رہا ہے۔

قطر کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ہمارے لوگوں کو قتل کرنے کے لیے دہشت گردی کی حمایت میں اربوں ڈالرز صرف کرنے والوں کو ہم کبھی معاف نہیں کرسکتے۔یہ پھر بھائی چارے اور ہمسائیگی کی بات بھی کرتے ہیں ۔

مصری صدر نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے  اسپانسر سن لیں کہ بے گناہ لوگوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔مصر ایک امن پسند ملک رہے گا اور وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں اور اس کے پیچھے کارفرما عناصر کے آگے کبھی نہیں جھکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے ملک میں اقتصادی اصلاحات اور ترقی کے عمل کو روکا نہیں جاسکے گا بلکہ اس کے مقابلے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جائیں گی۔انھوں نے مصری عوام پر بھی زور دیا کہ وہ جامع اقتصادی ترقی کے لیے اپنے اپنے حصے کا بوجھ بٹائیں۔

مصری صدر کی اس جارحانہ تقریر نے فوری اثر دکھایا اور  قطر کے امیر کا یہ بیان سامنے آیا کہ  کہ ہم پرامن لوگ ہیں اور  مل جل کر بھائی چارے سے رہنا چاہتے ہیں۔

اسی ہفتے میں کویت نے بھی ایران کا سفارتی عملہ کم کرنے کا اعلان کیا اور ایرانی سفارتکاروں کو کویت میں ماضی میں ہونے والی دہشتگردی کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کی ایران نے شدید الفاظ میں مذمت کی اور کویت کو دھمکی دیتے ہوئے کہ کہ اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ ابھی نہ صرف قطر  اور خلیجی ممالک کا معاملہ حل طلب ہے بلکہ کویت ایران تناو سے خلیج کے منظرنامے نے ایک اور کروٹ لی ہےاور اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو موجودہ تنازعات ختم ہونے سے قبل مزید تنازعات جنم لیں گے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جس دانائی،حکمت عملی اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم عوام سے تو کب کی رخصت ہو چکی اب ہماری قیادت نے بھی اسے دیس نکالا دے دیا ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...