دینی صحافت کس حال میں ہے؟

958

پشاور میں منعقدہ میڈیا ورکشاپ کا احوال

پاکستان کے ہمہ رنگ معاشرے میں آج بھی بلا تفریق مذاہب و مسالک باشندگان وطن کی اکثریت ایسی  ہے جو اجتماعی شعور کی سطح پر عصر حاضر میں ملک کے لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر سیاسی احوال اس کے مفاسد و مضرات، مسائل و عزائم اور دور رس نتائج کو لے کر فکر مند ہے اس مسلسل کشمکش کو بنیاد بنا کر اپنے مذموم سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے اگرچہ اقلیت میں ہیں۔ تاہم وسائل کی کثرت کے سبب بہر حال کسی نہ کسی طورپر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔یہ دینی حمیت ملی غیرت اور حب وطن کا تقاضا بھی ہے کہ مذہبی، مسلکی، تہذیبی اور لسانی اختلافات کو فکر و نظر کے اختلاف کے دائرے میں محدود رکھا جائے تاکہ ان اختلافات کو آڑ بنا کر مذموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے والوں کی سوچ و عمل پر قد غن لگ سکے ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک کلمہ پر ایمان رکھنے والے بہرحال اُمت ہیں ظاہر ہے کہ اتنی مضبوط اقدار کے بعد فقہی و مسلکی اختلافات کو فکر و نظر کے اختلاف تک محدود رکھنا دور حاضر کا بھی تقاضا ہے اور دانشمندی کا مطالبہ بھی ہے۔

حال ہی میں ہونے والی مذہبی میڈیا ورکشاپ اس کی جلی مثال ہے جو ۱۱/اگست بروز جمعرات کو پشاور کے مقامی ہوٹل میں منعقد  ہوئی۔ جس میں رسائل و جرائد کے مدیران حضرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ جس کی تعداد 25تھی۔          ڈاکٹر سعیدرحمان نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا یہ ایک حقیقت ہے کہ دور حاضر کا سب سے طاقت و ر و موثر وسیلہ اور ہتھیار میڈیا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرے کے ہر فرد پر کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہوتا ہے کسی معاشرے کی بناﺅ اور بگاڑ میں میڈیا کی اہمیت اور اثر انگیزی مسلمہ ہے۔

(۲)   مجلات مطبوعہ صحافت کی اہم ترین ذرائع میں سے ہیں جن کو ممدوح و مذموم دونوں مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تاہم ان کے افادی پہلوﺅں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

(۳)   دینی مدارس، اداروں، تنظیموں اور اشخاص کا قلم و قرطاس سے بہت پرانا اور گہرا ربط ہے دینی مجلاتی صحافت زیادہ ان ہی کی مرہون منت ہے۔

(۴)   بعض مکاتب فکر کے دینی جرائد کے آپس میں محدود مذہبی وفقہی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن قومی و بین الاقوامی معاملات پر ان کے نقطہ نظر میں عموماً یکسانیت پائی جاتی ہے۔

(۵)   مثبت، موثر اور مفید اسلامی جرائد کے ساتھ ساتھ بعض مذہبی جرائد مناظرانہ اور تعاقبانہ منہج کے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ جن سے مسلکیت، فرقہ واریت اور عصبیت کو تقویت ملنے کا خدشہ ہوتا ہے جو موجودہ نازک ترین اور پر فتن دور میں وحدت امت وملت میں دراڑ پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں یہ امر باعث تشویش بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔

(۶)   اسلامی دنیا کے سربراہان کو اپنا خود مختار ”متحدہ میڈیا فورم“ قائم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔

ڈاکٹر سعید الرحمان کے بعد پروگرام کے محرک مولانا اسرار مدنی کو دعوت دی گئی انہوں نے فرمایا کہ ہمارے معاشرے میں رسائل و جرائد اپنی سفر کامیابی سے کیوں جاری نہیں رکھ سکتی۔ اس پر بہت زیادہ ریسرچ کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے ہاں رسائل و جرائد کا معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری ایک محدود طبقہ کی ذہنی چھاپ کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے جو پانا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ یہاں جو رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں ان میں 70%فیصد مسئلک کی تبلیغ و ترویج پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جبکہ 30%فیصد ایک دوسرے کے خلاف انتہائی نفرت آمیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں۔

باالفاظ دیگر ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اہل تشیع سنیوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ دیو بند کے ایک مخصوص طبقہ۔ ان کو کافر کافر کے نعرہ کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے رسائل میں یہ باتیں شد ومد کے ساتھ ہوتی ہیں کہ ہم شاہ عبداللہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے یمن پر حملہ کر کے ارض حرمین کو دہشت گردوں سے پاک کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔میرا یہ ہر گز مقصود نہیں کہ اختلاف نہ ہو بلکہ اختلاف رائے کا حق تو ہر کسی کو تو حاصل ہے۔ مگر اختلاف تو فکر و نظر تک محدود رکھا جائے۔ درس نظامی کی ابتدائی فقہہ کی مشہور کتاب مختصر القدوری میں کتنے احسن طریقے اور خوبصورت انداز سے امام ابو یوسف ؒ اور امام محمدؒ اپنے استاد امام اعظم ابو حنیفہؒ کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں یہی اسلوب اگر ہم بھی اختیار کر لیں تو نفرت فرقہ واریت کی بجائے اتفاق اور یکجہتی کا پہلو سامنے آکر اتحاد کی فضاءپیدا ہو سکتی ہیں۔

ریڈر ڈائجسٹ کے قارئین ایک کروڑ ۰۸ لاکھ اور دی ٹائم ایک کروڑ کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے رسائل عبقری کی تعداد ایک لاکھ طاہر القادری کی ۵۴ہزار اور ترجمان ۵۳ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے اور باقی رسائل تو ہزار دو ہزار زیادہ سے زیادہ ۵ ہزار تک ہوتی ہے جو یقینا افسوس کی بات ہے؟

اسی طرح اگر ہم اپنے رسائل میں اختلاف رائے کو احسن طریقے سے پیش کرینگے تو افہام و تفہیم سے مقصود بھی حاصل ہو گا اور اپنے افکار دوسروں تک منتقل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام محمد صادق نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ مجھے مدیران رسائل و جرائد کے مسائل اور اُنکے حل کے موضوع پر کچھ کہنے کی دعوت دی گئی ہیں۔ غیر منصوص احکام زمانے کی تغیر کی وجہ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ زمانہ حاضرہ میں مختلف سوچوں اور طریقوں سے ابلاغ و تبلیغ ہو رہی ہیں منبر و محراب، درس و تدریس وعظ و تقریر، تصنیف و تالیف اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد بھی ذرائع ابلاغ کے موثر ترین ذرائع میں سے ہیں کیونکہ ان ہی کے ذریعے ہم  نئی نسل کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

روزنامہ آج میگزین کے ایڈیٹر آصف نثار غیاثی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کتب بیزاری ہیں۔ ہم خود سوچیں کہ ہم مہمان کو اعلیٰ ہوٹل میں لے جا کر ۵ ہزار کا کھانا تو کھلا سکتے ہیں مگر ۰۰۳ روپے کی کتاب نہیں خرید تے۔ ہم اپنے دوست کو ۲ ہزار کا جوتا تو تحفہ کے طور پر بھجوا سکتے ہیں مگر بک سٹال پر کتاب کی قیمت ۰۰۲ روپے دیکھ کر اس خیال سے چھوڑ دیتے ہیں یار یہ تو بہت مہنگی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو سیر و تفریح اور قسم قسم کے مشروبات تو پلا سکتے ہیں مگر کبھی بھی کتاب ہاتھ میں دیکھ کر مطالعہ کیلئے نہیں کہا۔ یہ ہمارا المیہ ہے ۔ ہندوستان میں ایک لڑکی کو انعام ۰۲ کتابیں ملیں وہ روزانہ ایک جگہ ۰۲ لڑکوں کو اکٹھا کر کے ان میں بیسوں کتابیں تقسیم کر کے مطالعہ کیلئے دیتی اور وقت پورا ہونے کے بعد کتابوں کو واپس جمع کر کے گھر لے جاتی ہے اور کل پھر اسی وقت آتی اور بچوں کو مطالعہ کیلئے کتابیں دیتی ۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ آیاز کے خطاب پر اس میڈیا ورکشاپ کا اختتام ہوا انہوں نے فرمایا ذرائع ابلاغ کو ہم رسائل و جرائد، اخبار، ٹیلی ویژن اور نیٹ تک محدود رکھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تاریخ بہت پرانی اوروسیع ہے۔ حضرت یوسف نے بادشاہ مصر کو یہ دو جملے بولے انی حفیظ علیم کہ میں امانت دار اور ماہر فی الفن ہو قرآن حکیم کی اس آدھے جملے پر ایک انسائیکلو پیڈیا لکھ سکتے ہیں کہ کسی حکومت کو چلانے کیلئے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔

نمبر ایک امات داری اور دوسری تجربہ کاری۔ بہر حال اس طرح کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن میں ہمارے لئے بہترین زندگی کے اصول بلیغ انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی ہمارے لئے ترقی کا راستہ موجود ہیں۔

اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف میں تکالیف کا پیش آنا اور جسم سے خون تک بہہ جانا جب اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ اجازت دے تو ان لوگوں کو پہاڑوں کے درمیان کچل کر ختم کر دوں گا یا طوفان سے ہلاک کروں گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اتنا انمول تھا کہ یہ ناداں مجھے جانتے نہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے آنے والی نسلوں میں دین کے داعی پیدا ہو جائیں۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ تھا۔ کہ دشمنوں کو کم اور دوستوں کو زیادہ کیا جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو میدان جنگ میں بھی انسانی جانوں کی حفاظت کا خواہش مند تھا۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے مستقبل کی فکر تھیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج انکی امت دشمنوں کی بجائے اپنوں کے ساتھ کتنی نفرت اور بے دلی سے پیش آتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دوستی کی فضا قائم کریں۔ اخوت اور بھائی چارے کی روایت کو دوام دیجئے اور یہ سب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...