حضرت مصعب بن عمیر ؓ جنہیں اپنی فقیری پر ناز تھا

3,067

دورِ حاضر میں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جن کی اسلام سے وابستگی جذبات و کم عملی کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل و علم پہ مبنی ہو

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ ایک خوبرو نوجوا ن تھے۔ آپ کا تعلق مکہ المکرمۃ کے ایک متمول اور امیر خاندان سے تھا۔ امیر زادے ہمیشہ لباس سواری رہائش اور خوراک کے بارے میں حساس اور Selective Choiceرکھتے ہیں۔مصعب بن عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ اعلیٰ معیار کالباس زیب تن کرتے، جب کھانا تناول کرتے تو انواع واقسام کے کھانے دستر خوان پہ سجائے جاتے ، اس طرح رہائش اور سواری میں بھی بہت عمدہ مذاق کے مالک تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے جب دارارقم کو تعلیم اوردعوت کا مرکز بنایا، مصعب بن عمیر دیگر اصحاب کی طرح دارِ ارقم حاضر ہوتے اور دین سیکھتے ، قرآن مجید پڑھتے اورصحبتِ رسولﷺ سے فیض یاب ہوتے۔ ابھی تلک آپ کے خاندان کو ان سرگرمیوں کا علم نہیں تھا۔خاص طور پر ،جب آپ کے ایمان اور ان سرگرمیوں کا علم آپ کی والدہ کو ہوا تو انہوں نے آپ پربے انتہا سختی کی ، تشدد کے علاوہ آپ کو گھر کے ایک کونے میں قید کر دیا۔ مصعب کی والدہ نے انہیں اپنی ہر شے او رملکیت سے بے دخل کر دیا اور آپ نے بھی اس بے دخلی کو ہنسی خوشی قبول کیا کیونکہ آپ اپنے ایمان وروح کا سودا دنیا کے مال وعیش کے عوض کرنے پہ راضی نہ ہوئے تھے۔
مکہ والوں کی طرف سے ملنے والی اذیت اور تکلیف کے باعث ،آپ نے دیگرمسلمانوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی۔ حبشہ کی طرف کی جانے والی پہلی ہجرت زیادہ عرصہ کے لئے نہیں تھی، مسلمان واپس مکہ المکرمہ لوٹ آئے۔ رسول اللہ کی اجازت سے ،صحابہ کرام نے دوسری بار بھی ہجرت کی لیکن مصعب بن عمیر دوسری ہجرت میں شامل نہیں تھے۔ کچھ عرصہ بعد، رسول اللہﷺ نے آپ کو اپنا نمائندہ بنا کر مدینۃ المنورہ بھیجا۔ آپ نے وہاں لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کی۔ سیرت نگار بیان کرتے ہیں ، حضرت مصعب بن عمیر اپنی شخصیت اور اخلاق میں اتنے خوبصورت اور اعلیٰ تھے کہ لوگ آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مدینۃ المنورہ میں لوگوں کی ایک تعدادنے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرماکر مدینۃ المنورہ آئے تومصعب بن عمیر اہل صفہ میں شامل ہو گئے۔ دین سیکھنے کا جو معمول دارارقم میں تھا، اسی معمول کو صفہ پہ بھی جاری رکھا۔ حضرت مصعب نے جب ایمان و حق کا راستہ اختیار کیا تھا اس وقت آپ نوجوان تھے۔ آپ کی شخصیت کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ آپ جس پہ ایمان لائے، جس نظریہ سے Convincedہوئے اس کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا اوایک لمحے کے لئے بھی دنیاوی نقصان کا خیال نہ کیا۔
مدینۃ المنورہ میں آپ مہاجر بھی تھے اور صاحب صفہ بھی۔۔۔ اصحاب صفہ میں شامل افراد نے خود کو دین اسلام کی تعلیم کے لئے وقف کر دیا تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے امیر کبیر خاندان سے تعلق اورپرآسائش زندگی گزارنے کے باوجود کبھی بھی اپنے ماضی کو یاد کیا اورنہ ہی اس کا ذکر کیا۔ آپ اپنی’’فقیری‘‘ میں اتنے خوش تھے کہ جیسے
؂سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہلِ دل
خوش ہیں کہ جیسے دولتِ کونین پا گئے
حقیقت بھی یہی تھی کہ مصعب بن عمیر’’ دولتِ کو نین‘‘پا گئے تھے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں ، میں بارگاہِ رسالت میں موجود تھا کہ مصعب بن عمیر پیوندلگی چادر اوڑھ کر آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مصعب بن عمیر کو دیکھا تو آپ کی چشمانِ مبارک سے آنسو رواں ہوگئے ۔ رسول اللہ ﷺکو ان کا نازونعم کا دور یاد آ گیا فرمایا’’ مصعب مکہ میں دو سو درہم کا لباس پہنا کرتا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ بھی بیان کرتے ہیں ، ایک موقع پر حضرت مصعب نے دبنے کی کھال پہنی ہوئی تھی رسول اللہﷺ نے دیکھ کر فرمایا’’ ذرا اس آدمی کو دیکھو جس کے دل کواللہ نے نورانی بنا دیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کا یہ حال کر دیا ہے‘‘ اور پھر رسول اللہﷺ نے مصعب کے آسودہ حال زمانے کو یاد کیا۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں ایک بار مصعب آئے تو ان کے تن پہ فقط اتنی چادرتھی کہ جس سے سترمشکل سے چھپتی تھی ۔ رسول اللہﷺ نے مصعب کی خوب تعریف کی۔ یہ تعریف مصعب بن عمیر کے لئے دنیا و آخرت میں تمغہ اوراعزازہے۔ درحقیقت یہ تعریف مصعب بن عمیر کے فقر،غناء، زہد، استقلال، ثابت قدمی اور غیر مشروط وفاداری کی تعریف تھی۔
حضرت مصعب بن عمیر غزوہ احد میں شہید ہوتے ہیں۔ غزوہ احد میں آپ رسول اللہﷺ کے محافظ بن کر دشمنانِ اسلام کے خلاف لڑ رہے تھے کہ آپ کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ حضرت مصعب بن عمیر کی مشابہت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھی۔ کفار نے خیال کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو شہید کر دیا ہے۔ اس افواہ سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے لیکن کچھ دیر بعدوہ سنبھل گئے۔ غزوہ احد میں 70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا ،رسول اللہ ﷺ شہداء کے نفوس کا مشاہدہ فرماتے ہوئے جب حضرت مصعب بن عمیر کے پاس پہنچے ، کچھ دیرتوقف فرمایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
حضرت مصعب بن عمیر نوجوان نسل کے لئے ایک متاثر کن شخصیت ہیں، آپ نے عنفوانِ شباب اور دورِ امیری میں اسلام قبول کیا ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد، فہمِ دین کے لئے خود کو وقف کر دیا۔اگر ایک امیرزادہ اپنے نظریے پہ سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ گویا حقیقتِ حق اس کے دل و جاں میں اترتی ہے۔ اس پہ حق آشکار اہوتا ہے۔ وہ عملی طور پر مطمئن اورقائل ہوتا ہے تو جرات و بہادری سے قدم اٹھاتا ہے۔ دورِ حاضر میں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جن کی اسلام سے وابستگی جذبات و کم عملی کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل و علم پہ مبنی ہو ،جب اللہ تعالیٰ انہیں ’’شرح صدر‘‘ عطا فرمائے تو پھر وہ اسلام کے داعی اور معلّم بن کردنیا میں دین کی ترویج و اشاعت کے لئے پھیل جائیں۔ حضرت مصعب بن عمیر کی طرح زندگی صعوبت واذیت میں گزرے لیکن قلبی اطمینان رہے کہ میں یہ سب کچھ اپنے رب کی رضا اور اسلام کی دعوت کے لئے کر رہا ہوں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...