سپریم کورٹ جاوید ہاشمی کو طلب کیوں نہیں کرتی ؟

2,710

جاوید ہاشمی نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جہاں آئین کی توہین کی جائے گی وہ ہمشیہ سازشوں کو بے نقاب کریں گے ،  وہ اس لئے مسلسل سچ سامنے لا رہے ہیں اور لاتے رہیں گے لیکن سپریم کورٹ انہیں نہیں بلا رہی ، وہ سپریم کورٹ کو آگاہ کر سکتے ہیں لیکن اس کی دیواروں کے ساتھ سر نہیں ٹکرا سکتے ۔

وزیراعظم نواز شریف نااہل ہو چکے اور نئے وزیراعظم ، شاہد خاقان عباسی منتخب ہو کر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بطور نئے وزیراعظم حلف اٹھا چکے  ۔ ملکی سیاسی صورتحال ویسے تو 2013ء کی حکومت بننے کے بعد ہی مشکلات کا شکار رہی لیکن گزشتہ چند ماہ میں پانامہ کی شکل میں لائے جانے والے سیاسی بھونچال نے میاں نواز شریف سے وزارت اعظمیٰ چھین کر دم لیا ۔

اس سارے عمل میں ، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے پرانے سیاسی ساتھی جاوید ہاشمی پر مسلسل الزامات عائد کئے گئے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں رہ کر بھی نواز شریف سے وفاداری نبھاتے رہے اور پاکستان تحریک انصاف میں ان کی شمولیت ہمیشہ مشکوک رہی ، بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ جاوید ہاشمی نے پاکستان تحریک انصاف میں نون لیگی ایجنٹ کے طور پر کام کیا ، راز سمیٹے اور واپس ہو لئے ، واپسی سے قبل اور بعد میں انہوں نے ہمشیہ سے ہی نواز شریف کی حمایت کی اور ان کی حکومت بچانے کے لئے ، جاوید ہاشمی نے پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی صدر کی حثیثیت سے یکم ستمبر 2014ء کو ایک ایسی پریس کانفرنس کی جس سے عمران خان کا دھرنا اپنی موت آپ مر گیا ، اگلے روز انہوں نے پارلیمنٹ میں آ کر استعفی دیا اور اسپیکر قومی اسمبلی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی استعفیٰ دے چکے لیکن آپ نے کسی کا استعفیٰ نہیں دیکھا ، تو میرا استعفی دیکھ لیں اور قومی اسمبلی کی رکنیت یہ کہہ کر چھوڑ دی ، کہ میں آئین ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف کئے جانے والے کسی اقدام کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ ان کے اس بیان سے یہ واضح ہوا کہ جاوید ہاشمی نے گزشتہ ادوار میں جو غلطیاں کیں ان سے انہوں نے واقعی سبق حاصل کیا ہے ۔

پاکستان کی سیاست میں کوئی سیاست دان ایسا نہیں جس نے آمریت سے جنم نہ لیا ہو ، تاہم گزشتہ ، چند سالوں میں مختلف سیاسی جماعتوں میں ، اتنا شعور ضرور پیدا ہوا کہ اب منتخب حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنی چاہیے جس پر سیاسی جماعتوں میں اتحاد دیکھا گیا ، جس کے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف کو مسلسل دھرنوں اور جلسوں کی صورت میں سڑکوں اورمیدانوںمیں رکھا گیا ۔ بہرحال ، دسمبر 2016ء میں جاوید ہاشمی نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے ایک بیان دیا ، جس میں انہوں نے کہا دوران دھرنا عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ طے ہو چکا ہے  نواز شریف کی حکومت سپریم کورٹ کے ذریعے ختم کی جائے گی اور یہ کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے جانے کے بعد آنے والے ججز کریں گے (سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس ناصر الملک تھے جن کی مدت ملازمت 7 جولائی 2014ء تا 16 آگست 2015ء تھی ، اور عمران خان کا دھرنا 14 آگست 2014ء کو شروع ہوا تھا ) جاوید ہاشمی نے اپنے بیان میں بھی سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام لیا تھا ، بعد میں ان کا یہ بیان بڑی خبر کے طور پر سامنے آیا ، اس موضوع پر انہوں نے کئی پریس کانفرنسز کیں ، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور الزام عائد کیا گیا کہ جاوید ہاشمی سیاسی یتیم ہیں اور چاہتے ہیں کہ نون لیگ انہیں گود لے  ۔

جاوید ہاشمی کے الزامات کی تردید کبھی عمران خان نے نہیں کی ، نہ ہی ان کے الزامات کا کبھی کوئی جواب دیا حالانکہ عمران خان کی سیاست الزامات پر ہی منحصر ہے ۔ جاوید ہاشمی کے الزامات ، اور اب واقعی سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی ، الزامات کوانکشافات ثابت کر رہی ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ معاملہ تو چیف جسٹس ناصر الملک کے ساتھ طے پایا تھا پھر کیوں انہوں نے جوڈیشل مارشل لاء لگانے کا ٹاسک پورا نہ کیا اور 90 روز کے لئے ٹینکوکریٹ حکومت بنا کر الیکشن نہ کروائے اور نئے وزیراعظم عمران خان کی بجائے پرانے وزیراعظم  ہی اپنے عہدے پر براجمان رہے ۔ جوڈیشل مارشل لاء کی لگانے کی بات جاوید ہاشمی نے گزشتہ برس نہیں کہی ، جن افراد کی یاداشت بہتر ہے انہیں یاد ہو گا یہ بیان انہوں نے عمران خان کے ساتھ دھرنا کنٹینر پر موجود ہوتے ہوئے دیا تھا جب دوران دھرنا وہ طبعیت خرابی کا بہانہ بنا کر واپس ملتان آ گئے تھے اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء عارف علوی ناراض رہنماء کو منا کر ملتان سے واپس عمران خان کے کنٹینر پر لے گئے ، جس کے بعد جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ عمران خان کے ٹیکنوکریٹ کی حکومت بننے کے بیان کی حمایت نہیں کرتا ۔عمران خان نے بھی اپنا یہ بیان واپس لیا تھا یہی وہی ڈیل تھی جس پر جاوید ہاشمی ایک بار پھر کنٹینر پر واپس پہنچ گئے لیکن پارلیمنٹ پر حملہ ، جاوید ہاشمی کو وعدہ خلافی لگا ۔

جاوید ہاشمی واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ  جب پارلیمنٹ پر حملہ کیا جا رہا تھا تو پارٹی کی کور کمیٹی کے 10 ارکان نے عمران خان سے سوال کیا کہ پارلیمنٹ پر حملہ طے نہیں کیا گیا تھا بات صرف ڈی چوک پر احتجاج کرنے کی تھی ، آپ کو کون ایسی ہدایت  دے رہا ہے تو عمران خان نے اپنے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ یہاں سے اشارے مل رہے ہیں ۔  سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو قومی اسمبلی میں جاوید ہاشمی کے آخری خطاب کے ایک جملے سے یہ پیغام مل چکا تھا کہ ٹینکو کریٹ کی گورنمنٹ سپریم کورٹ بنانے کا ارادہ کر چکی اور سپریم کورٹ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ۔ پارلیمنٹ سے سپریم کوئی ادارہ نہیں ، اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے  ۔ وہ جان چکے تھے کہ جاوید ہاشمی جو کہہ رہے ہیں ، فہم رکھنے والوں کو سازش کا اندازہ ہو چکا ہے ، جس پر سابق چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت داغ دار کئے بغیر رخصت ہو گئے ۔ ان کے بعد آنے والے دو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ اور انور ظہیر جمالی کی مدت ملازمت ایک ماہ سے کم تھی ، لہٰذا انہوں نے بھی اپنی ملازمت کی آخری عمر خراب کئے بغیر جانا مناسب سمجھا ۔انتخابات میں 4 حلقوں میں دھاندلی پر دھرنوں اور احتجاجی جلسوں سمیت تمام داؤپیچ ناکام ہو چکے تھے ، ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات بھی عمران خان کو مطلوبہ ہدف نہ دلوا سکے لہٰذا ، آف شور کمپنیز کی صورت میں نئے ایشوز انہی افراد کو سامنے لانے کا کہا گیا جن پر خود ایسی کمپنیز بنانے کا الزام ہے  ۔ بالاخر معاملہ تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کے بعد اس قابل ہوا کہ نواز شریف پر پانامہ کیس سے شروع ہونے والا کرپشن کا الزام اقامہ پر جا کر ٹھہرا اور وہ نااہل قرار پائے ۔ جاوید ہاشمی تین سال سے کہہ رہے ہیں اور اب بیان حلفی دے رہے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس پر انہیں سپریم کورٹ طلب کرے ، اگر سپریم کورٹ نہیں تو ملٹری کورٹ ہی طلب کرے لیکن کوئی ان کے بیانات کی نہ تو تردید کر رہا ہے اور طلب کرنا تو دور ، از خود نوٹس تک نہیں لیا جا رہا جس سے واضح ہوتا ہے کہ جن کا نام وہ لے رہے ہیں وہ شامل سازش ہیں ۔بس سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف ونگ سے تعلق رکھنے والے نوجوان ،باغی سے انہیں داغی اور پھر دماغی کا لقب دینے میں مصروف ہیں ۔

اس کا دوسرا حل جاوید ہاشمی یوں نکالتے ،  وہ خود درخواست دیتے کہ اس معاملہ پر عدالت انہیں بلائے تاہم جاوید ہاشمی کی اس وقت مالی حالت قدرے مستحکم نہیں ۔

اس بات کا اندازہ ان کی گزشتہ پریس کانفرنسز سے لگایا جا سکتا ہے جہاں کلب کی فیس ادا نہ کر پانے پر انہیں پریس کانفرنس کلب کے دروازے کے باہر کرنا پڑتی ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن شائد رقم کی کمی کے باعث وہ الیکشن نہ لڑ پائیں اور جہاں تک بات ہے جاوید ہاشمی کی نون لیگ میں شمولیت کی تو جاوید ہاشمی کہتے ہیں  نواز شریف نہیں چاہتے کہ میں اس پارٹی میں شامل ہوں ۔

جاوید ہاشمی کے مستعفی ہونے کے بعد دوبارہ این ۔ اے 149 ، کی نشست پر 12 اکتوبر 2014ء کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں ملتان کے پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقامی کارکنوں نے بھرپور حمایت کا اعلان ضرور کیا لیکن انتخاب کے روز ان کے مخالف آزاد لیکن پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ملک عامر ڈوگر کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنوں نے ووٹ دلوا کرکامیاب کروایا اور ملک عامر ڈوگر نے کامیابی کی رات ہی اپنی پارٹی وابستگی کا اعلان پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کیا ۔ جاوید ہاشمی نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ان کی یہ آخری پریس کانفرنس ہے لیکن ان کا مکمل جملہ کسی نے نہ سنا انہوں نے کہا کہ پانامہ کے حوالے سے یہ میری آخری پریس کانفرنس ہے ۔ بہرحال نہ نظر آنے والے محرکات جمہوریت پر مستقل الزام لگا کر ایک بار پھر سے کامیاب ہو گئے ہیں لیکن عمران خان کا خواب اب تک سچ نہ ہو سکا اور نئے عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہی موجودہ حکومت کی مدت پوری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ نواز شریف کے نااہل ہونے سے جو نشست خالی ہوئی اب امید ہے وہاں وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنی وزارت اعلی ٰچھوڑ کر الیکشن نہیں لڑیں گے اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کا گراونڈ کمزور نہیں کیا جائے گا بلکہ اس نشست پر کسی اور امیدوار کو الیکشن لڑوانے کا فیصلہ سامنے آئے گا ۔

جاوید ہاشمی نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جہاں آئین کی توہین کی جائے گی وہ ہمشیہ سازشوں کو بے نقاب کریں گے ،  وہ اس لئے مسلسل سچ سامنے لا رہے ہیں اور لاتے رہیں گے لیکن سپریم کورٹ انہیں نہیں بلا رہی ، وہ سپریم کورٹ کو آگاہ کر سکتے ہیں لیکن اس کی دیواروں کے ساتھ سر نہیں ٹکرا سکتے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...