نلتر نامہ

گلگت کی ایک نہایت مشہو ر ،پہاڑوں اور جنگلوں میں گِھری وادی ،نلتر کاسفر نامہ

4,861

نومل سے گزرتے ہوئے تقریباََ آخر میں راستہ ایک دم بائیں طرف مڑا۔یہ نلتر کی طرف جاتی سڑک تھی ۔
سورج بالکل ہمارے سر کے اوپر تھا۔دھوپ مچل رہی تھی اور گاڑی کی کھڑکیوں سے اندر لپک رہی تھی۔ساتھ ہی اوپر بلندیوں سے اترتی دبی دبی ہوا تھی۔جس میں ٹھنڈک ابھی زیادہ نہیں تھی۔ہاں اس ہو ا میں چیڑ،دیودار اور fir spruce(صنوبر کا درخت)کی خوشبو گھلی ملی تھی۔
راستے کے دائیں طرف ،اوپر بلندی سے گرتا پتھروں سے ٹکراتا ،نالے کا پانی تھا۔جس سے اٹھتا شور سرودِجاں فزا بنا ہوا تھا۔نالے سے آتی ہوا کی ٹھنڈک اندر ہمیں چوم رہی تھی۔ساتھ ہی روڈ کے ساتھ بائیں جانب خشک چٹیَل پہاڑ تھے۔جن سے اٹھتی دھوپ کی حدّت طمانچے بھی مار رہی تھی۔
نلتر کی طرف جاتی وہ سڑک کہیں پکی تھی،کہیں کچی تھی۔ایک جگہ چائنیزمزدور اور انجینئرز روڈ کی کشادگی کا کام بھی کرتے ہوئے نظر آئے۔بعد میں پتا چلا یہ دراصل نلتر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر اور مرمت کے لئے مشینری پہنچانے کے سلسلے میں کیا جا رہا تھا۔
ہم اس کچے پکے ،بل کھاتے اور تنگ درے کے درمیان سے بلندی کی طرف اٹھتے اس راستے پہ آگے بڑھ رہے تھے۔
معروف محقق ،مؤرّخ ،مترجم اور کتاب دوست شخصیت ،شیر باز علی برچہ صاحب،شاعرِ درد جناب جمشید دکھی صاحب اور یہ ناچیز صبح دس بجے گلگت سے روانہ ہوئے تھے۔ شیرباز برچہ صاحب اگلی سیٹ پہ بیٹھے ہوئے تھے۔جسمانی لحاظ سے دھان پان سے ہیں۔پبلک لائبریری گلگت سے بہ حیثیت سینئر لائبریرین سبک دوش ہوئے دو سال سے زیادہ ہوئے ہیں۔بڑے ہی نفیس اور مہربان انسان ہیں۔یہاں کی تہذیب وتمدن ،تاریخ اور سماجی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

اس تنگ درّے کے پہاڑوں کے اوپر سے ،نلتر کی بلندیوں پہ چمکتی چوٹیاں نظر آنے لگی تھیں۔اور اتنی دور سے یوں جھلک دکھلا رہی تھیں جیسے کوئی محبوب چلمن کے پیچھے ،صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں…..
یہ نلتر پائین کا علاقہ تھا۔لمبائی میں نسبتاََ زیادہ پھیلا ہوا۔شہتوت ،خوبانی ،اخروٹ ،چیری اور پاپلر کے درختوں میں گھری یہ وادی ،طویل خشک پہاڑوں کے بعد آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ ان مناظر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھے تو کچھ ہی دیر بعد …ہمارے بائیں جانب نالے کے اس پار ،اوپر بلندیوں پہ برف پوش چوٹیاں کھل کر جلوہ نمائی کرنے لگیں۔ساتھ ہی چیڑ اور دیو دار کے درخت دکھائی دیے۔یہ نلتر بالا کے آثار تھے۔اور ہم اسی طلسمی ماحول میں جا رہے تھے۔ذرا ہی دیر بعد اس کے قریب پہنچ گئے۔نیچے نومل سے یہاں تک ،نالا جس طرح بپھرا ہو اتھا ،تیزی سے پتھروں سے ٹکرا کر اپنا غصہ ظاہر کرتا رہاتھا۔اب یہاں ایسا نہیں تھا۔اس میں تیزی اب بھی تھی مگر ایک سرکش ندی جیسی…پہلے نالے کے دونوں جانب بے جان پہاڑ تھے،اب ہریالی تھی،چیڑ اورصنوبرکے درخت تھے۔ان سے ذرا اوپر دونوں طرف کی ڈھلوانی زمین تھی۔دائیں طرف بڑی تعداد میں مکان پھیلے ہوئے تھے۔کہیں پاس پاس ،کہیں ایک دوسرے سے دور…
نالے کے دوسری طرف مکان کم تھے۔لیکن سبزہ تھا،چیڑ ،دیودار اور صنوبر کے درخت ہی درخت تھے۔ان سے اوپر ہریالی اور تازگی سے بھرپور پہاڑ تھے۔جن کی چوٹیوں پہ ابھی برف آخری سانسیں لیتی ہوئی چمک رہی تھی۔

 وہ سارا منظر بڑا دلفریب تھا۔نیچے نومل سے یہاں تک ،خشک پہاڑ اور ویران مناظر نے نگاہوں کو تھکا دیا تھا۔لیکن اب اچانک ہی جیسے زمین کی گود ہری بھری ہو گئی تھی،اورجمالِ فطرت انگڑائیاں لیتی ہوئی بیدار ہو گئی تھی۔میں گاڑی کے شیشوں سے باہر کسی ندیدے کی طرح آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ایک ایک منظر نگاہوں کے راستے میرے اند ر اتر رہا تھا۔میرے ہم سفر بھی ایک بے خودی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہے تھے۔
اچانک برچہ صاحب بولے۔’’میں کئی برسوں کے بعد آیا ہوں ۔مگر ہر ہر منظر مانوس مانوس سا لگتا ہے۔کیوں کہ اسے بھولا ہی نہیں تھا۔اب پھر دیکھ کر دل یہی کہہ رہا ۔۔۔ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔
دکھی صاحب بولے۔’’شہرِ گلگت کی زندگی نے ہماری حسِ جمال کو سلادیا ہے۔شاید اسی لیے ہم میں سے اکثر کی شاعری غمِ دوراں کے ریگ زار میں بھٹک رہی ہے۔حسن ،عشق اور جذبہ شاعری سے نکلتے جا رہے ہیں ۔اگر ایسے ماحول میں بار بار آئیں تو ہو سکتا ہے یہ صفات پھر سے ہماری شاعری کو گلزار بنا دیں۔‘‘
میں نے عرض کیا۔’’سر ! ہم اندر سے مفلس ہو تے جا رہے ہیں ۔جمالیاتی احساسات گھٹتے جا رہے ہیں۔وقت ایسا مشینی آیا ہے ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں ۔گھر اور دفتر ہی کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں ۔ذرا باہر جھانک کر بھی دیکھیں ،زندگی میں کتنا حسن ہے؟فطرت میں کیسی کشش ہے؟یہ ہمارا گلگت بلتستان کتنا دل کش ہے؟اس کی ہر ہر ادا ہمیں بلا رہی ہے۔یہ ہم ہی ہیں جو کفرانِ نعمت کر رہے ہیں۔ورنہ اس کائنات کو تو اللہ پاک نے ہمارے لیے ہی اور ہماری وجہ سے ہی زینت بخشی ہے۔‘‘

 ہم گاڑی کے اندر ہی تھے۔ابھی وہاں کا حسنِ فطرت مکمل دیکھنے سے قاصر تھے۔نالے کی دوسری طرف جہاں مکانات کم کم تھے،ہمارا پڑاؤ ادھر تھا۔اب وہاں پہنچ کر ہی نگاہوں کی پیاس بجھ سکتی تھی۔
گاڑی گھوم کر نیچے نالے پہ بنے پُل سے ہوتے ہوئے دوسری طرف آئی۔اس کچی سڑک کے ساتھ ،بے طرح سر سبزڈھلوانی زمین پر بہت سے سرکاری اداروں کے ریسٹ ہاؤسز بنے ہوئے تھے۔افسروں اور ان کے طفیلیوں کے لیے گرمیوں میں یہ بڑی خوب صورت تفریح گاہ تھی۔
وہاں سے آگے بڑھے تو ایک جلی ہوئی اور چھت اڑی ہوئی عمارت دکھائی دی۔ دکھی صاحب کے ڈرائیور نے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پاک فو ج کا ہیلی کاپٹر کریش ہوا تھا۔مجھے ایک دم یاد آیا ۔۸مئی ۲۰۱۵ کو نلتر میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ایک بڑا پروگرام منعقد ہو رہا تھا۔بہت سے دوست ممالک کے سفیر اور ان کے اہلِ خانہ بھی مدعو تھے۔وزیر اعظم صاحب خود بھی آنے والے تھے اور چیئر لفٹ کا افتتاح کرنے والے تھے ۔
اس حادثے کی جگہ سے تھوڑا آگے اوپر پہاڑوں کی طرف سے ایک اور نالہ بہہ رہا تھا۔نلتر کے مختلف پہاڑوں سے ایسے بے شمار چھوٹے چھوٹے ندی نالے بہتے ہوئے مرکزی نالے میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اس چھوٹے نالے کے ساتھ ہی فاریسٹ نرسری تھی لوہے کا بوسیدہ گیٹ کھول کر ہم نرسری کے اندر داخل ہوئے۔ہر طرف ہریالی تھی۔چیڑ ،دیودار اور صنوبر کے اونچے اونچے درخت تھے۔اور پاس ہی بہتے نالے کا شور تھا۔

 ہم گاڑی سے نیچے اترے۔درختوں سے اترتی خوشبو نے ہمارا استقبال کیا۔ نرسری، زمین کے مختلف قطعوں کی شکل میں بنی تھی۔ڈھلوانی زمین کو بڑے اچھے انداز میں ہموار قطعوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ درمیان سے پتھریلی روِش گزرتی تھی۔دکھی صاحب کی معیّت میں ہم اس پتھریلی روِش پہ چلتے ہوئے فاریسٹ ہٹ کی طرف آئے۔چیڑ اور دیودار کے اونچے اونچے درختوں کے بیچ ،فاریسٹ کی وہ قیام گاہ نگاہوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔
مگر چودہ پندرہ کنال وسیع وہ زمین کسی بھی لحاظ سے نرسری نہیں لگ رہی تھی۔ہر طرف لمبی لمبی گھاس تھی،اطراف میں اور نیچے قیام گاہ کے پاس اونچے اونچے درخت تھے۔زراعت کے محکمے کے پاس محض زمین کا قبضہ تھا،باقی سب کچھ قدرت ہی کی کارکردگی تھی۔
برچہ صاحب نے جیب سے ایک کاغذ نکالا۔وہاں موجود عملے میں ایک فاریسٹ گارڈ ،چچا مست علی تھا ۔ان کا تعلق نلتر پائین سے تھا۔دوسرا ریسٹ ہاؤس کا نگران ،شمشادتھا۔اس کا تعلق نلتر بالا سے ہی تھا۔برچہ صاحب ان دونوں سے نلتر کے حالات،وہاں کی آبادی،وہاں صحت اور تعلیم کی سہولتوں اور جنگلی حیات کے بارے میں پوچھنے لگا۔وہ ایک قلمکار ہیں ۔Anthropology(علم البشر) اورSociologyکی فہم رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اپنے علم میں مزید اضافہ کے لیے وہ اس طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے۔اس بہانے ہم بھی مستفید ہو رہے تھے۔
ان کے بہ قول ،نلتر بالا میں آبادی تین ہزار سے زیاد ہ ہے۔زیادہ تر لوگ گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔مال مویشی پالتے ہیں،کھیتی باڑی کرتے ہیں،زیادہ تر آلو کاشت کرتے ہیں۔بہت سے لوگ گلگت اور آس پاس کے علاقوں میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں۔لڑکو ں کے لیے ہائی سکول اور لڑکیوں کے لیے مڈل سکو ل تک تعلیم کی سہولت موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ تیس کے قریب یہاں کی لڑکیاں قراقرم یونیورسٹی میں پڑھتی بھی ہیں ۔
وہاں زندگی اتنی آسان نہیں تھی۔سردیوں میں برف کی وجہ سے پانچ مہینوں تک باقی دنیا سے وہ کٹ جاتے تھے۔ہیلی کاپٹروں کے ذریعے محدود سی آمد و رفت رہتی تھی۔وہا ں skiingکے بین الاقوامی مقابلے ہوتے ہیں ۔اسی بہانے نلتر کے لوگوں کو کسی ناگہانی صورت حال میں باقی دنیا سے کچھ مدد مل جاتی تھی۔


ہم نالے کے ساتھ چلتے چلتے ذرا اوپر آئے۔وہاں شمالاََ جنوباََ ایک کچی سڑک تھی۔کبھی کبھار کوئی گاڑی وہاں سے گزرتی ہوئی نظر آتی تھی۔ہم اس کچے راستے پہ چلتے ہوئے اپنے بائیں جانب شمال کی طرف بڑھے۔چند گز ہی چلے تھے دائیں جانب اوپر پہاڑ سے بہتے نالے کے ساتھ بند چیئر لفٹ کھائی دی۔اوپر دور بہت دور سے ، کہیں نالے کے ساتھ اور کہیں نالے کے اوپر سے گزرتی ہوئی نیچے سڑک تک آگئی تھیں۔

ذرا ہی دیر چلے تھے کہ سڑک ہموار ہو گئی اوروہاں ہماری نظر کے سامنے ایک ایسا landscape پھیلا ہوا تھاجو کسی بھی آرٹ گیلیری کی جان ہوسکتا ہے۔وہاں سرسبز اونچے اونچے ٹیلے تھے اور دائیں طرف ذرا نشیب میں ہموار وسیع زمین تھی۔جو اٹھتی ہوئی پہاڑ کے دامن سے ملتی تھی۔پھر وہاں سے چیڑ اور دیودار کا جنگل شروع ہوتا تھا۔اور ان کے پیچھے بلند بلند پہاڑ تھے جن کی چوٹی پہ آخری دموں کی برف تھی۔نشیب کی ہموار زمین پہ آلو کے کھیت بنے تھے جو اس بلندی سے بہت دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ذرا دور چند ایک مکانات تھے۔یہ نگرے کا علاقہ تھا۔
سڑک کو چھوڑ کے ہم بائیں طرف ایک ٹیلے کے اوپر آئے ۔وہاں سے دوسری طرف نیچے دور دور تک نلتر کا جادوئی حسن تھا۔پورا نلتر جیسے ہتھیلی پہ دھرا ہوا نظر آرہا تھا۔جمالِ فطرت کا ایک ایسا مظہر جس کا ایک ایک منظر جادو اثر تھا۔
رات گزرتی جا رہی تھی۔چاند کی روشنی کھڑکی کے باہر نرسری کے درختوں سے سر گوشیاں کر رہی تھی۔اور ہم بھی اس بھیگتی رات میں محوِکلام تھے۔برچہ صاحب اور دکھی صاحب اپنی زندگی کے یادگار واقعات سنا رہے تھے۔علمی و ادبی رویے،سیاسی ، سماجی اور مذہبی رجحانات ،دفاتر اور بازاروں میں بددیانتی کے معاملات…
صبح ساڑھے نو بجے کے قریب میری آنکھ کھل گئی ۔کانوں میں برچہ صاحب اور دکھی صاحب کی آوازیں پڑیں ۔وہ باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔میں باہر آیا تو بولے۔’’سلیمی!آپ جلدی کریں۔دھوپ تیز ہونے سے پہلے آگے جھیلوں کی طرف جانا ہے۔‘‘
ہاتھ منہ ہی تو دھونا تھا۔ذرا ہی دیر بعد ہم نے سامان اکٹھا کیا ،گاڑی میں رکھنے میں مدد کی پھر فاریسٹ ریسٹ ہاؤس پہ الودائی نظر ڈال کے گاڑی میں بیٹھ گئے۔اب ہمارا سفر نلتر کے شمال کی طرف تھا۔جہاں جھیلیں تھیں ،جہاں گلیشئرز تھے۔
ہم نالہ پار کر کے دوسری طرف آئے۔وہ علاقہ کھیو ٹ کہلاتا ہے۔وہاں چند دکانیں تھیں،کچھ ہوٹل تھے ایک بڑا سا باقی چھوٹے چھوٹے ….ٹین کی چھتوں والے مکان تھے۔ہم شمال کی طرف ،نالے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ ایک جگہ میں بائیں طرف چِمرسَے نامی چراگاہ کے اوپر پہاڑ سے بہتے آبشار میں کھویا ہو ا تھا۔اچانک گاڑی زور سے اچھلی ۔اور میرا سر جاکے چھت سے ٹکرایا۔ منہ سے بے ساختہ چیخ بلند ہوئی ۔ آنکھوں کے آگے دن میں ہی تارے جھلملائے۔دکھی صاحب ڈرائیورپر غصہ ہونے لگے۔سیاحتی لحاظ سے اتنا معروف مقام ،اور اندر سے ایسی ٹوٹ پھوٹ..؟محکمہ سیاحت ،محکمہ تعمیرات اور محکمہ ماحولیات و منصوبہ بندی نام کے ادارے شاید آلو بیچتے ہوں گے۔‘‘
برچہ صاحب بولے۔’’یہ ملک خدا کے نام پر بنا ہے وہی اس کو چلا رہا ہے۔ورنہ اربابِ اقتدار نے اس کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔دوسرے ممالک ایسی جگہوں پر اتنی توجہ دیتے ہیں کہ ایک کثیر آمدنی محض سیاحت سے حاصل کرتے ہیں ۔ایک ہم ہیں قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں کا کفران کرتے ہیں۔‘‘


دکھی صاحب نے ایک نرالی منطق نکالی۔’’ ویسے جہاں تک اس روڑ کی شکستگی کی بات ہے ،میں اس کی بہتری کاقائل نہیں۔یہ جنگل جو بچا ہوا ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ خراب روڈبھی ہے۔ورنہ ٹمبر مافیا اس جنگل کو بھی کاٹ کاٹ کے اجاڑ دے گی۔‘‘
نلتر کے لوگ اکثر محنت کش ہیں ۔تھوڑی بہت زمینیں ،مال مویشی اور پھر جنگل….بس یہی ان کی زندگی گزارنے کے ذرائع ہیں۔بہت کم لوگ کسی دفتر میں ملازم لگے ہوئے ہیں۔ پورے ایک گھنٹے کا،جوڑ جوڑ ہلا دینے والا یہ سفر آخر کار ختم ہوا ۔ایک موڑ مڑ کے ذرا سا بلند ٹیلا تھا۔اس کے اوپر آئے تو ڈرائیور نے بلند آواز میں کہا ۔’’سر ! ہم جھیل کے پاس پہنچ گئے۔وہ دیکھئے سامنے بِش گری جھیل …‘‘
تیز دھوپ چاروں اور پھیلی ہوئی تھی۔ہم جھیل کے پاس آگئے۔ذرا غور سے دیکھا تو اس کا پانی سبز نہیں تھا۔بلکہ اس کے نیچے کائی جمی ہوئی تھی۔جس سے پوری جھیل سبز ہوگئی تھی۔جھیل بھی اُتھلے پانی کی تھی ۔یعنی کم گہری ۔
میں نے بہت سی جھیلیں دیکھی ہیں ۔دیو سائی سے لے کر شندور تک،سد پارہ سے لے کر گیٹی داس تک…..مگر یہ جھیل ان سے ہٹ کے تھی۔اس میں پانی کم تھا۔جھیل کے آس پاس کا منظر بھی کوئی اتنا خوبصورت نہیں تھا۔ ہریالی کم تھی۔بھوج پتر کے درخت تھے،لیکن کہیں کہیں…کائی کی وجہ سے اس کی گہرائی بھی چھپ گئی تھی۔ایسا لگتا تھا ہم کسی تالاب کے کنارے کھڑے ہیں۔خد الگتی کہوں ایک جھیل کا جو رعب ہوتا ہے،ایک طلسماتی اثر ہوتا ہے وہ بالکل نہیں تھا۔اس طرح کا تاثر صرف میرا ہی نہیں تھا۔ برچہ صاحب اور دکھی صاحب بھی کچھ خاص متاثر نہ ہوئے تھے۔
گرمی بڑھنے لگی تھی ۔پیاس بھی محسوس ہورہی تھی۔وہاں اوپر پہاڑوں کے بیچ ایک اور بھی جھیل تھی۔مگر وہاں تک پیدل ہی جانا ممکن تھا۔ اس لئے واپسی کا فیصلہ ہوا۔ہم پھر سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔دو دنوں کا یہ یادگار اور دلکش سفر اختتام پزیر ہو ا تھا۔ ہم اسی تکلیف دہ راستے سے ہوتے ہوئے واپس روانہ ہوئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...