اس بحران سے کیا نکلنے کو ہے ؟

902

 نواز شریف برطرفی فیصلہ  نے مقبول سیاستدانوں اور مقتدرہ کے درمیان تفاوت کو بڑھا دیا جس سے قومی سلامتی پالیسی پہ اتفاق رائے کے امکانات مزید دور ہو گئے

   بلآخر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کو قابل الوصول اثاثہ ظاہر نہ کرنے  کے جرم  میں  نا اہل قرار دیکر عدالتی تاریخ کی اس روایت کو دوام بخشا جس کی اساس فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر  نے مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت پر رکھی تھی،تازہ عدالتی آرڈر  نے ماضی کے زخموں کو تازہ کر کے سیاسی کشمکش کو پہلے سے زیادہ تند و تیز کر دیا،اس فیصلہ پہ ہمارا اجتماعی ردعمل مایوس کن تقسیم کی صورت میں سامنے آیا۔الیکٹرانک میڈیا نے گزری ہوئی تاریخ کی خوابیدہ داستانوں کو جگا کہ ہماری بد نصیب نسل کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر خواجہ ناظم الدین،سہروردی،فروز خان نون، محمد علی بوگرہ ،چوہدری محمد علی،ذولفقار علی بھٹو،محمد خان جونیجو اور بے نظیر سمیت انیس وزراء اعظم کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی یاد دلائی۔بہرحال !آئینی ماہرین مدتوں نواز شریف نااہلی فیصلہ کی اثابت اور قانونی پہلووں کا جائزہ لیتے رہیں گے لیکن قانونی موشگافیوں سے قطع نظر اس فیصلہ کے قومی مستقبل پہ پڑنے والے اثرات زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔

 اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف برطرفی فیصلہ  نے مقبول سیاستدانوں اور مقتدرہ کے درمیان تفاوت کو بڑھا دیا جس سے قومی سلامتی پالیسی پہ اتفاق رائے کے امکانات مزید دور ہو گئے اور یہی اس سارے تنازعہ کا سب سے خطرناک پہلو ہے،کشمیر اور گلگت بلستستان کی منتخب قیادت کا ردعمل ایک نئی کشمکش کی خبر دینے لگا ہے،یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ منتخب سیاستدان خارجہ پالیسی اور ملک کے داخلی سیاسی نظام  بارے اپنا الگ زاویہ نگاہ رکھتے ہیں جو مقتدرہ کے روایتی تصورات سے میل نہیں کھاتا۔

نواز شریف جسے 80   ء کی دھائی میں مذہبی جماعتوں کے جلو میں پیپلز پارٹی کے سیاسی ایجنڈا کے خلاف مزاحمت کیلئے میدان میں اتارا گیا تھا وہ خار زار سیاست کے تلخ تجربات کے بعد خود سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے علمبردار بن کے ابھرے ہیں،اب وہ ملک کو سیکورٹی سٹیٹ کے تصور سے نکال کر ماڈریٹ فلاحی ریاست بنانے کی خاطر زندگی کی بازی لگانے پہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔نواز شریف کا وزارت اعظمی سے معزولی کے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے پہلا خطاب اسی آخری نصب العین کا اظہار دیکھائی دیتا تھا۔ عدالتی فیصلہ اپوزیشن جماعتوں سمیت  نواز شریف کے ابدی مخالفین کو وقتی خوشی دینے کا سبب تو ضرور بنا  لیکن اپنے آخری نتیجہ کے اعتبار سے نااہلی فیصلہ،نوازشریف کی سیاسی قوت میں اضافہ اور ادارہ جاتی کشمکش کو بڑھانے کا وسیلہ بن گیا۔لیکن اس غیر معمولی ماحول میں ہمارے سماجی طرز فکر کے کئی دلچسپ پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے،جن میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے خیالات زیادہ دلچسپ ہیں،جنہوں نے عدالتی فیصلہ پہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے،وزیر اعظم برطرفی،کو ہمارے نظام عدل کی طاقتور وں کے احتساب کی اہلیت پا لینے کی نوید قرار دیا۔عمران خان اور سراج الحق کے فرمودات سے قطع نظر سوشل میڈیا کے اس عہد میں پیدا ہونے والی نئی نسل اس حقیقت سے پوری طرح  واقف ہے کہ اس ملک  میں منتخب وزرائے اعظم اور سیاستدان کبھی طاقتور نہیں ہوا کرتے اور ادنیٰ عدالتیں بھی وزراء اعلیٰ، وزیروں اور سیاستدانوں کے خلاف فیصلے دینے  میں بیباکی رہی ہیں،سانحہ ماڈل ٹاون کیس اس کی کلاسیکی مثال ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ  حسین شہید سہروردی سے لیکر سید عابد حسین ،ایوب کھوڑو،ممتاز دولتانہ اور ذولفقار علی بھٹو جیسے مقبول لیڈروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہوئے اور مدتوں انہیں  بے رحم عدالتی عمل سے گزارا گیا،حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ سوائے سابق زیراعظم ذولفقار علی بھٹو کے اس ملک کا کوئی لاوارث اور غریب ترین شہری بھی اعانت قتل جرم  میں سزا موت نہیں ہوا، حسین شہید سہروردی کو، عدالت نے، بحیثیت وزیراعظم  اپنے ایک دوست کو چائے کی پتی کا پرمٹ دینے کے الزام میں سزا سنائی،اعلی ہذالقیاس ،اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانہ میں مبینہ بد عنوانی کے الزامات کا سامنا تو اس ملک کے ہر سیاستدان،منتخب وزیر اعظم  اور  وزراء کا مقدر ٹھہرا ہے، اس لئے  وزرائے اعظم اور وزراء کو طاقتور کہنا تاریخ کا سب سے بڑا مذاق اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ جمہوری نظام کا تختہ الٹ کے اقتدار پر قابض ہونے والے طاقتور آمروں کے سامنے قانونی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوا،ہمارے ذیشان ججز  نے مقدس آمروں کے خلاف فیصلے دیئے نہ خود آئین کے تحفظ کا فرض نبھا سکے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ظفرعلی شاہ کیس میں عدالت نے جنرل مشرف کو بن مانگے،سات نکاتی  ایجنڈا کی تکمیل کے لئے،تین سال کی حکومت اور آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی عطا کیاجو خود عدالت کو بھی میسر نہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ڈی ایچ اے سیکنڈل میں اربوں کی کرپشن کے الزام کے باوجود قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔جنرل مشرف نے بغاوت کیس کی سماعت کرنے والی عدالتوں کا بازو مروڑ کر ای سی ایل سے نام نکلوا  لیا،ملک سے با ہر بیٹھ کر وہ اب نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے نام ای سی ایل پہ ڈالنے کے مطالبے کر رہے ہیں۔

تاریخ کے طالب علموں کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ 1988ء میں جنرل ضیاء نے قومی اسملبی توڑ کر جونیجو حکومت تحلیل کی تو اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ درخواست دائر کی گئی،عدالتی فیصلہ آنے سے قبل 17 اگست 1988ء کو ضیاء الحق طیارہ حادثہ کا شکار ہو کے جہان فانی سے چل بسے تو عدالت، پس مرگ،جونیجو حکومت کو بحال کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتی تھی لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے سانحہ کی شدت اور حالات کی نزاکتوں کے پیش نظر عدالت کو اسمبلی بحالی کا فیصلہ دینے روک دیا،ریٹائرمنٹ کے بعد  جب جنرل بیگ نے  جب انکشاف کیا کہ عدالت اعظمیٰ جونیجو حکومت کو بحال کرنے والی تھی لیکن میں نے وسیم سجاد کی وساطت سے  پیغام بھیجوا کر فیصلہ  رکوا لیا تھا تو سابق آرمی چیف کے بیان کے بعد ملک میں بحث چھڑ گئی کہ سپریم کورٹ نے عدل و انصاف کے تقاضوں کے برعکس فوجی سربراہ کے دباؤمیں مسٹر جونیجو کی درخواست خارج کر کے آئینی اصولوں سے انحراف کیوںکیا ؟اسی تناظر میں اس وقت کے چیف جسٹس افضل ظلّہ نے جنرل بیگ کو طلب کر کے توہین عدالت کی کاروائی شروع کر دی،کئی ہفتوں کی سماعت کے بعد آخری دن عدالت سے رخصت ہو جانے کے بعد سپریم کورٹ نے جنرل اسلم بیگ کو توہین عدالت کے جرم میں ’’تا برخاست عدالت ‘‘کی سزا سنا دی،اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی اپیل کے دوران صدر مملکت غلام اسحاق خان سمیت کئی سیئنر وکلاء نے جسٹس ظلہ سے سابق آرمی چیف کی سزا کا فیصلہ واپس لینے کی استدعاکی لیکن جسٹس افضل ظلہ نے تمام التجائیں مسترد کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’ اگر مجھے خدا بھی کہے تو فیصلہ واپس نہیں لوں گا‘‘لیکن افسوس کہ اس تعلّی کے باوجود تین دن بعد  چیف جسٹس افضل ظلہ نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنا فیصلہ واپس لے کر جنرل اسلم بیگ کو توہین عدالت کے الزام سے باعزت بری کر دیا۔

ہماری دوسری حرماں بد نصیبی دیکھئے کہ جماعت اسلامی نے ملک کی پہلی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے ایوبی آمریت کے خلاف مادر ملت مس فاطمہ جناح کے شانہ بشانہ اس وقت عظیم الشان مزاحمتی تحریک چلائی جب مفتی محمود مغفور عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ دے کر جنرل ایوب کے پشتی بان بن کے ابھرے تھے،اس وقت بانی جماعت سیدابوالاعلیٰ مودودی نے یہ لاثانی قول دہرایا تھا کہ ’’بد ترین جمہوریت، بہترین امریت سے ،بہتر ہوتی ہے‘‘لیکن گردش دوران نے آج سید مودودی کی جماعت کو امریت کا خود ساختہ ترجمان اور مفتی محمود مغفور کی اولاد کو جمہوری اقدار کا محافظ بنا دیا۔تاہم عدالتی فیصلہ کی تمام تر قباحتوں میں نواز شریف قومی لیڈر بن کر ابھرے جو کراچی سے لیکر کشمیر تک پوری ملت کو متحد کر کے ملک میں آئین کی حکمرانی اور سولین بالا دستی کے خواب تکمیل کی تعبیر لا سکتے ہیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...