پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے مسائل
پاکستان میں سماجی و مذہبی ہم آہنگی اس کے تنوع سے وابستہ ہے ۔دوسری قومیتوں اور عقائد کے لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے کہ اکثریتی عقیدہ رکھنے والے ۔ڈاکٹر خالد مسعود زیر نظر مضمون میں پاکستان میں غیر مسلموں کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ لوگ کن گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں ۔ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار دور جدید کے نامور اسلامی مفکرین میں ہوتا ہے ۔آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور ہالینڈ کے انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف اسلام کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔آج کل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے ایڈہاک ممبر بھی ہیں ۔سہ ماہی تجزیات اور تجزیات ڈاٹ کام کو ڈاکٹر خالد مسعود کی مستقل رہنمائی حاصل ہے ۔(مدیر)
مسلمان ہمیشہ اپنی اس تاریخ پر فخر کرتے رہے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں مسلم حکومتوں اور معاشروں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات بہتر رہے ہیں۔ اسے تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق پر ابھی تک بحث جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ پاکستان کی تحریک سے بے اعتنائی ہے یا اسلامی تاریخ سے بیگانگی،یہ سوال تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ یہ مختصر مضمون صرف اہم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ مسائل زیدہ تر جدید دور میں قومی ریاست کے تصور میں الجھا ؤسے پیدا ہوئے ہیں۔ یورپ میں بھی قومی ریاست سے پہلے سیاسی ڈھانچے کو متحد رکھنے کے لئے عموماً مذہب کو بنیاد بنا یا جاتا تھا۔ مذہبی سلطنتوں میں اکثریت کا یا بادشاہ کا مذہب اتحاد کی بنیاد سمجھا جاتا۔ شاید اسی وجہ سے باقی مذاہب کے لوگوں کو وہ حقوق نہیں ملتے تھے جو حکمران مذہب کو حاصل تھے۔ یورپ میں قومی ریاست کا جنم طویل مذہبی جنگوں اور اس کے نتیجے میں مذہبی اقتدار سے بیزاری کے ماحول میں ہوا۔ قومی ریاست کے اتحاد کی بنیاد مذہب کی بجائے زبان اور نسل کی ہم آہنگی پر رکھی گئی۔ جدید ریاست کی تشکیل میں زبان اور نسل کی بنیاد پر کم تعداد برادریوں اور فرقوں کو اقلیت قرار دیا گیا اور ان کے حقوق کے مسئلے کو اسی نقطہ نظر سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یورپ اور مغربی ملکوں نے جو حل نکالا اور جو آج بھی مقبول ہے وہ یہی تھا کہ مکمل شہری بننے کے لئے اقلیت کے لوگ بھی اکثریت کی زبان بولیں اور اکثریت کا رہن سہن اپنائیں۔ مذہبی اختلاف کو رہن سہن کا اختلاف سمجھ کر اس کے بارے میں مذہب کے بارے میں الگ سے سوچا نہیں گیا۔
یورپ سے باہر مذہب کی صورت حال مختلف تھی۔ مثال کے طور پر ایشیا ئی سلطنتوں میں مذہب کو اہمیت تو تھی لیکن بادشاہ کے مقابلے میں مذہبی ادارے کو سیاسی اقتدار حاصل نہیں تھا۔ قومی ریاست کے تصور سے مذہب کا اعتبار اس کے ماننے والوں کی تعداد کے حساب سے شروع ہوا تو مذہبی اقلیت اور اس کے حقوق کا مسئلہ پیدا ہوا۔ بر صغیر میں مسلم لیگ جو بنیادی طور پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی تنظیم تھی اب سیاسی طورپر اقلیت کی تحریک بن گئی۔ 1940میں اقلیت کے مستقبل کا تحفظ مسلم لیگ کی قرار داد لاہور میں پاکستان کے مطالبہ کی ٹھوس بنیاد بن گیا۔ برصغیر کی مذہبی اقلیتوں نے بھی اس قرار داد کی حمایت کی۔ جب پاکستان کی جغرافیائی حدود کے تعین کا مسئلہ آیا تو اس میں بھی ان اقلیتوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ قرار داد لاہور تصور پاکستان کی بنیادی دستاویز بن گئی جو پہلے کی قرارداد مقاصد کا حصہ بنی اور 1956سے لے کر1962 تک مختلف آئینوں میں شامل رہنے کے بعد بالآخر اب 1973سے مقدمہ کے طورپرآئین پاکستان کا حصہ ہے۔
آئین کا بغور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے لئے یہی قرار داد رہنما اصول فراہم کرتی رہی ہے۔
غیر مسلموں کے حقوق کے مسئلے کا دوسرا اہم پہلو تاریخ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام میں دین کا تصور بہت وسیع ہے۔ خدا نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے ہر قوم میں نبی اور رسول بھیجے۔ کتابیں نازل کیں۔ اہل کتاب مذاہب کو مشترکہ عقائد اور اقدار پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ اسی بنیاد پر مدینہ میں جو پہلی حکومت تشکیل پائی اور اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ جوتحریری معاہدہ یا آج کی زبان میں آئین طے پایا اس میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کئے گئے۔ بعد میں اسلام کی حکومت پھیلی تو جنگوں، معاہدوں اور صلح ناموں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس حکومت میں شامل ہوتے گئے۔ ان سب کے حقوق ان معاہدوں کے تحت متعین ہوئے۔اسلامی قانون میں ذمی ، معاہد اور مستامن کی اصطلاحیں اس فرق کو واضح رکھنے کے لئے استعمال ہوئیں۔ پاکستان کے غیر مسلم جنگ، صلح نامے یا معاہدے کے تحت نہیں بلکہ آزادی کی تحریک میں برابر کے شریک کی حیثیت سے پاکستان کے شہری ہیں۔ تاہم جدید دور میں قومیت اور مذہب کے تصور کے الجھاؤ میں یہ فرق روا نہیں رکھا جا سکا۔
اس مختصر مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے پاکستان کے موجودہ آئین کی ان دفعات کی نشاندہی کی ہے جن میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ مضمون کے دوسرے حصے میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے میثاق مدینہ ، نجران کے معاہدے اور فتح یروشلم کی تین اہم تحریری دستاویزات میں مذکورغیر مسلموں کے حقوق کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ تیسرے حصے میں پہلے اسلامی تعلیمات اور قانون کی کتابوں کے حوالے سے غیر مسلموں کے حقوق کی فہرست پیش کی ہے اور اس کے بعد وہ فہرست دی ہے جس میں دور جدید میں مسلم مفکرین نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نئے حالات کے مطابق ان حقوق میں مزید اضافے تجویز کئے ہیں۔ امید ہے یہ مختصر تحریر اس مسئلے پر مثبت بحث کی بنیاد بنے گی۔
پاکستان کے آئین میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق
قومی اسمبلی پاکستان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو دستور (ترمیم شدہ لغایت7 جنوری 2015) میں شائع کیا اس کی مندرجہ ذیل دفعات غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بے حد اہم ہیں۔
(الف)تعریفات : مملکتی مذہب، مسلم اور غیر مسلم کی تعریف
آرٹیکل : اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا ۔ ۔ ۔ جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی ،سیاسی انصاف ، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادات، اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔ جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
آرٹیکل (3)270 دستور اور تمام وضع شدہ قوانین اور دیگر قانونی دستاویزات میں تا وقتیکہ موضوع یا سیاق و سباق میں کوئی امر اس کے مانع نہ ہو،
(الف) ’’مسلم‘‘سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو وحدت قادر مطلق اللہ تبارک و تعالی، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمدﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے دعوی کیا ہو یا جو دعویٰ کرے، اور
(ب) ’’غیر مسلم‘‘سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کواحمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں)کوئی شخص یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔
(ب) بنیادی حقوق جو مسلمانوں اورغیر مسلموں دونوں کو بطور پاکستانی شہری حاصل ہیں
آرٹیکل 4 افراد کا حق کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے
1۔ ہر شہری کا (خواہ کہیں بھی ہو) اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو ، یہ ناقابلِ انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے
-2 خصوصاً
(الف) کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان ، آزادی ، جسم ، شہرت یا املاک کے لیے مضر ہو ، سوائے اس صورت میں جب کہ قانون اس کی اجازت دے ؛
(ب) کسی شخص کے کوئی ایسا کام کرنے میں ممانعت یا مزاحمت نہ ہوگی جو قانوناً ممنوع نہ ہو؛ اور
(ج) کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لیے قانوناً ضروری نہ ہو
آرٹیکل 15:- نقل و حرکت و سکونت کا حق
ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفادِ عامہ کے پیشِ نظر قانون کے ذریعہ عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع ، پاکستان میں داخل ہونے اور اس کے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق ہوگا۔
آرٹیکل 19:- تقریر کی آزادی
اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سا لمیت ، سلامتی یا دفاع ، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ، امن عامہ ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہین عدالت ، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا ، اور پریس کی آزادی ہوگی۔
آرٹیکل 19 الف:- حق معلومات
قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہوگا۔
آرٹیکل 25:- شہریوں سے مساوات
1 ۔ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور مساوی طور پر قانونی تحفظ کے حق دار ہیں۔
2۔ جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
3 ۔ اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہو گا۔
آرٹیکل 9:- فرد کی سلامتی
کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جب کہ قانون اس کی اجازت دے
آرٹیکل 25 الف:- تعلیم کا حق
ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔
(ج) مذہبی حقوق
آرٹیکل 20:- مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی
قانون ، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع
(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا؛ اور
(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔
آرٹیکل 22:- مذہب اور تعلیمی ادارے
1۔ کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اگر ایسی تعلیم ، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔
آرٹیکل 36:- اقلیتوں کا تحفظ
مملکت ، اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا ، جن میں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے ، تحفظ کرے گی۔
(د) سیاسی حقوق
آرٹیکل 16:۔ اجتماع کی آزادی
امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو پر امن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔
آرٹیکل17 :۔ انجمن سازی کی آزادی
1۔ پاکستان کی حاکمیتِ اعلی یا سا لمیت ، امنِ عامہ یا اخلاق کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو انجمنیں یا یونینیں بنانے کا حق حاصل ہوگا۔
2۔ ہر شہری کو ، جو ملازمتِ پاکستان میں نہ ہو ، پاکستان کی حاکمیت اعلی یا سا لمیت کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع کوئی سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق ہوگا اور مذکورہ قانون میں قرار دیا جائے گا کہ جب کہ وفاقی حکومت یہ اعلان کر دے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسے طریقے پر بنائی گئی ہے یا عمل کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیتِ اعلی یا سا لمیت کے لیے مضر ہے تو وفاقی حکومت مذکورہ اعلان سے پندرہ دن کے اندر معاملہ عدالتِ عظمی کے حوالے کر دے گی جس کا مذکورہ حوالے پر فیصلہ قطعی ہوگا۔
3۔ ہر سیاسی جماعت قانون کے مطابق اپنے مالی ذرائع کے ماخذ کے لیے جواب دہ ہوگی۔
ٓآرٹیکل36 :
مملکت اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا جن میں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے، تحفظ کرے گی۔
آرٹیکل :۔ (41)
کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تا وقتیکہ وہ کم از کم پینتالیس سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔
آرٹیکل :۔ (53)
قومی اسمبلی میں خواتین اور غیر مسلموں کے لئے مخصوص نشستوں کے بشمول ارکان کی تعداد تین سو بیالیس نشستیں ہوں گی۔
(4) شق (3) میں مذکورہ نشستوں کی تعداد کے علاوہ قومی اسمبلی کے لئے دس نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔
(6))ب(غیر مسلموں کے لئے مخصوص تمام نشستوں کے لئے حلقہ انتخاب پورا ملک ہوگا۔
آرٹیکل :۔ (91)
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی ، کسی بھی دوسری کارروائی کو چھوڑ کر۔ کسی بحث کے بغیر، اپنے مسلم اراکین میں سے ایک کا وزیر اعظم کے طور پر انتخاب کرے گی۔
آرٹیکل:203(2)وفاقی شرعی] عدالت [چیف جسٹس] سمیت زیادہ سے زیادہ آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہوگی
(ہ)معاشی حقوق
آرٹیکل 27:- ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ
(1) کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتبار دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر کا اہل ہو ، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب ، ذات ، جنس ، سکونت یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائیگا۔
مگر شرط یہ ہے کہ یوم آغاز سے زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی مدت تک کسی طبقے یا علاقے کے لوگوں کے لیے آسامیاں محفوظ کی جا سکیں گی تا کہ پاکستان کی ملازمت میں ان کو مناسب نمائندگی حاصل ہو جائے:
مزید شرط یہ ہے کہ مذکورہ ملازمت کے مفاد میں مختص آسامیاں یا ملازمتیں کسی ایک جنس کے افراد کے لیے محفوظ کی جا سکیں گی اگر مذکورہ آسامیوں یا ملازمتوں میں ایسے فرائض اور کارہائے منصبی کی انجام دہی ضروری ہوجو دوسری جنس کے افراد کی جانب سے مناسب طور پر انجام نہ دئیے جا سکتے ہوں:
مگر شرط یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ملازمت میں کسی بھی طبقے یا علاقے کی کم نمائندگی کی مذکورہ طریقہ کار پر تلافی کی جائے گی جیسا مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ)کے ایکٹ کے ذریعے تعین کرے۔
(2) شق (1) میں مذکور کوئی امر کسی صوبائی حکومت یا کسی صوبے کی کسی مقامی یا دیگر ہیئت مجاز کی طرف سے مذکورہ حکومت یا ہیئت مجاز کے تحت کسی آسامی یا کسی قسم کی ملازمت کے سلسلے میں اس حکومت یا ہیئت مجاز کے تحت تقرر سے قبل ، اس صوبے میں زیادہ سے زیادہ تین سال تک ، سکونت سے متعلق شرائط عائد کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔
آرٹیکل39 :۔ مسلح افواج میں عوام کی شرکت
مملکت پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگوں کو پاکستان کی مسلح افواج میں شرکت کے قابل بنائے گی۔
آرٹیکل38 :۔ (الف)پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
آرٹیکل :۔ (ب)تمام شہریوں کے لئے ، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام اور فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہو لتیں مہیا کرے گی۔
(ج) پاکستان کی ملازمت میں ، یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔
(د) ان تمام شہریوں کے لئے جو کمزوری، بیماری، یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلا لحاظ جنس، مذہب، یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔
-2اسلامی تاریخی دستاویزات
میثاق مدینہ 1ھ622ء
حضرت محمدﷺ نے مدینہ اور اس کے گردو نواح میں مختلف قبائل سے تحریری معاہدے کئے۔ یہ معاہدے میثاق مدینہ کی دستاویز کا حصہ ہیں۔ یہ میثاق آئین کی طرح حکومت کے نظام اور شہریوں کے حقوق و فرائض کی ان تفصیلات پر مبنی ہے جو ان معاہدوں میں شامل لوگوں کے اتفاق سے طے پائی تھیں۔ اس میثاق میں دفعات ہیں۔ پہلی دفعات مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق اور فرائض کے بارے میں ہیں ۔ باقی یہود کے بارے میں۔ دفعہ میثاق کی ذمہ داری بیان کرتی ہے کہ معاہدے میں شریک یہود کی مدد کرے گا۔ دفعہ یہود کا فرض بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں جنگ کے خاتمے تک اس کے اخراجات میں شریک رہیں گے۔ دفعات یہودی قبائل کی حیثیت متعین کرتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک امت ہیں۔ دونوں کو مذہبی عقیدے اور اس کے اظہار کی مکمل آزادی ہوگی۔ دونوں کے شخصی حقوق مساوی ہوں گے۔ ان کے زیر حفاظت لوگوں (موالی)کے بھی حقوق وہی ہوں گے۔ دفعہ کے مطابق یہود اور مسلمان اپنے مالی معاملات اور اخراجات کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ بیرونی حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی حمایت دونوں پر فرض ہو گی۔ دفعہ کی رو سے تنازعات کی صورت میں حضرت محمدﷺ کا فیصلہ سب کو ماننا ہوگا۔ آخری چار دفعات میں فریقین کی جانب سے اس بات پر اتفاق کا اظہار ہے کہ وہ قریش یا ان کے حامیوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مدینے پر حملے کی صورت میں دونوں اس معاہدے کے پابند ہوں گے کہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ آخر میں اس بات کی توثیق ہے کہ اس معاہدے کی پابندی کا اللہ ضامن (جار)ہے۔
نجران کا معاہدہ 10ھ632ء
یہ معاہدہ نجران کے نصاری (مسیحیوں)کے ساتھ ہوا تھا۔ اس میں چار پیرے ہیں۔
پہلے پیرے میں نجران کے نصاری کے ذمے مالی واجبات کی تفصیل ہے۔ اس ذکر کے ساتھ کہ اہل نجران اپنی جائیدادوں اور پیداوار میں خود مختارہیں خراج کی تفصیلات ہیں جو نجران کے نصاری (مدینہ کے) مسلمانوں کو ادا کریں گے ۔ اس میں کپڑا، چاندی، مہمانداری اور جنگ کے وقت اسلحہ اور گھوڑوں کی ادھار فراہمی شامل ہیں۔
دوسرے پیرے میں نصاری کے مذہبی اور سماجی حقوق کی تفصیل ہے۔ یہ معاہدہ نجران اور گرد و نواح کے علاقے میں مو جود اور غیر موجود اموال، جائدادوں، اشخاص، قبیلے، چھوٹی یا بڑی سب عبادات کی جگہوں کو اللہ اور اس کے رسول محمد (ﷺ ضمانت (فی جوار اللہ و محمد)میں شامل قرار دیتا ہے۔
تیسرے پیرے میں دیگر مالی امور کی تفصیل درج ہے۔
چوتھا پیرا فریقین کی جانب سے اس معاہدے کی پابندی پر اتفاق کی توثیق کرتا ہے۔
یروشلم کا معاہدہ
خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے یروشلم کے لوگوں سے معاہدے کی دستاویز میں تین پیرا گراف ہیں جن میں یروشلم کے لوگوں کی جان و مال اور عبادت گاہوں اور صلیبوں کے تحفظ کی ضمانت کا اعلان ہے۔ مسلمان ان کی عبادت گاہوں کو نہ مسمار کریں گے اور نہ ان میں رہائش اختیار کریں گے۔ کسی کو مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا نہ نقصان پہنچایا جائے گا۔ جو لوگ یروشلم سے ہجرت کرکے دوسرے علاقوں میں جانا چاہیں ان کو جان، مال، اورجائیداد کے مکمل تحفظ کے ساتھ ان کی پناہ گاہوں تک پہنچانے کی ضمانت مہیا کی گئی ہے۔ جو لوگ یروشلم میں رہنا چاہیں ان کو جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ اگر باہر ہجرت کرکے جانے والے بعد میں واپس آنا چاہیں تو ان کی جائیدادوں پر کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔ البتہ ان کی زرعی پیداوار پر فصل کٹنے پر محصول لگے گا۔
ان دستاویزات میں دو نکات قابل غور ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیادی باتوں کے علاوہ ان تینوں میں اس معاہدے کے خاص حالات کے مطابق شرائط میں کمی اور اضافے ہیں۔ یہ فرق معاہدے کے اس عمل کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت فریقین گفت و شنید کے ساتھ شرائط طے کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ دستاویزات معاہدہ کہلاتی ہیں اور ان میں فریقین کے اتفاق کا ذکر بھی اسی لئے کیا جاتا تھا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج کل ذمی کا لفظ عام طور پر منفی مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ ان معاہدوں میں ذمہ کا لفظ مثبت معنوں میں لکھا گیا تھا ۔ ان معاہدوں میں ذمہ اور جوار دونوں اصطلاحیں ضمانت کے معنوں میں مسلمانوں کی ذمہ داری اور ان کے فرائض کے مفہوم میں بیان ہوئی ہیں۔ عربی زبان میں جوار یا جار پڑوسی یا ہمسائے کو کہا جاتا ہے۔ قبل اسلام عرب قبائلی نظام میں قبیلے سے باہر کے لوگوں کو قبیلے میں شامل کرنے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کو جوار کا نام دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اسے جوار اللہ، یا ذم اللہ یعنی اللہ کی ضمانت۔ ان معاہدوں میں رسول اللہ کے بعد آنے والے حکمران اور مسلمانوں کو بھی ان معاہدوں کا پابند سمجھا جاتا تھا اور اکثر معاہدوں میں اس کا باقاعدہ ذکر بھی موجود ہے۔
-3دورجدید: اسلامی تعلیمات اور قانون غیر مسلم کی تعریف اور تقسیم
اسلامی قانون میں اقلیت کی اصطلاح دور جدید میں بعض خاص حالات کی وجہ سے متعارف ہوئی۔ جدید دور میں یا تو قومی ریاستوں کے قیام کے بعد ان علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اقلیت کا نام دیا گیا چاہے وہ کروڑوں کی تعداد میں تھے جیسے بھارت۔ یا جب مسلمانوں نے غیر مسلم علاقوں ،جیسے مغربی ممالک میں رہائش اختیار کی تو وہاں کی حکومتوں نے انہیں اقلیت قرار دیا۔ مسلمانوں نے بھی اپنے حقوق کی قانونی حفاظت کے لئے شروع میں اقلیت کا درجہ بہتر سمجھالیکن بتدریج مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔ بعض مسلم رہنماوں نے شریعت کے نفاذ اور اسلامی ریاست کے قیام کو واحد حل قرار دیا۔ جدید فتاوی میں مسلم اقلیات کے تصور اور ان کے لئے مخصوص قوانین پر بحث سامنے آئی اور اس موضوع پرالگ سے کتابیں بھی لکھی گئیں۔ یوں اقلیت کی اصطلاح جدید اسلامی قانون کا حصہ بنی۔ مسلم آبادیوں کو اسی بنیاد پر اکثریتی اور اقلیتی معاشروں میں تقسیم کیا گیا اور ان میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے نئے مسائل سامنے آئے۔
اسلامی فقہ میں غیر مسلموں کو مختلف پہلووں سے تقسیم کیا جاتا ہے اور اس تقسیم کے لحاظ سے ان کے حقوق اور فرائض میں بھی فرق کیا جاتا ہے۔ ایک تقسیم اہلِ کتاب اور مشرک کی ہے۔ آسمانی کتابوں کے حامل اہلِ کتاب میں یہود اور نصاری شامل ہیں۔ دیگر لوگوں مثلا مجوسی، ہندو اور بدھ مذاہب کے ماننے والوں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ باقی مذاہب کے لوگوں کے لئے مشرک کی عمومی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
دوسری تقسیم مسلم علاقوں کے حوالے سے ملکی قوانین کے اطلاق کے اعتبار سے تھی۔
ان کے لئے چار اصطلاحیں ذمی، معاہد، مستامن اور مواطن استعمال ہوتی ہیں۔ ذمی سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے علاقے جنگ میں فتح کے بعد مسلم حکومت میں آگئے۔ معاہد وہ ہیں جنہوں نے جنگ سے پہلے یا بعد میں اپنی مرضی سے معاہدہ کیا۔ مستامن وہ غیر مسلم کہلاتے تھے جو مسلمانوں کی ضمانت پر عبوری طور پر مسلم علاقے میں آئے۔ مواطن یا ہم وطن جدید اصطلاح ہے جو جدید ریاستوں میں رہائش پذیر غیر مسلموں کے لئے بولی جاتی ہے۔ تاہم ان سب کے حقوق و واجبات مختلف تھے۔ فقہا کے نزدیک جزیہ ادا کرنے کا حق عموما صرف اہلِ کتاب کو حاصل ہے۔ مشرک کو جزیہ کی بجائے دوسرے واجبات ادا کرنا ضروری ہیں۔ برصغیر میں بعض اوقات ہندو آبادی سے بھی جزیہ وصول کیا گیا۔ ابتدائی ادوار میں عرب مشرکین سے جزیہ کے بارے میں فقہا میں اختلاف رہا ۔ حنفی، مالکی اور زیدی فقہا کے نزدیک مشرک کو بھی ذمی کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ شافعی فقہا اس کے خلاف رہے۔
جدید دور میں بھی فقہا میں اختلافات موجود ہیں۔ غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم نے ان میں سے دو کا انتخاب کیا ہے جن کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست میں ان کتابوں میں مذکور حقوق کو شامل کیا گیا ہے اور ہر حق کی ذیل میں اس مصنف کا احوال درج کر دیا ہے جس نے اس حق کو اپنی فہرست میں بیان کیا ہے۔ ان کتابوں میں جن حقوق کے ضمن میں قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر کیا گیا ہے ان کا حوالہ بھی درج کردیا گیا ہے۔
1۔ وھبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دمشق۔ دار الفکر، تاریخ درج نہیں
2۔ عبد الوہاب عبد العزیز الشیشانی، حقوق الانسان و حریتہا السیاسیہ فی النظام الاسلامی و النظم المعاصرہ، الجمعیہ العلمیہ الملکیہ ، 1080
غیر مسلموں کے حقوق
بنیادی حقوق
1۔ جان کا تحفظ (قرآن 5:32ء،ء :151) (الزحیلی :ء :450)،(الشیشانی 663)
2۔ عزت و آبرو کی حفاظت (قرآن 61-60:33)(الزحیلیء 450: )(الشیشانی 663)
3۔ مال و جائیداد کی حفاظت (قرآن :10:62،31:7،41:22،104،5-2)
4۔ خلوت کا حق (قرآن : 24،27-28
5۔ مسلم ملک میں مستقل رہائش )الزحیلیء : 450)
6۔ قناون کی نظر میں برابری (قرآن :13:49
7۔ ضمیر کی آزادی )قرآن :2:256،88،21,22،45,50،10،108)
8۔ اختلاف کا حق (قرآن 5:2)
مذہبی حقوق
1۔ مذہبی آزادی (قرآن :2:256،10:99،29:18،8:60،5:102)(الزحیلی :717)
2۔ عبادات اور مذہبی رسومات کی ادئیگی اور عبادت گاہوں کا تحفظ (الشیشانی 9-308)
3۔ مذہب کی بنیاد پر امتیاز سے تحفظ کاحق (قرآن 5:2)
معاشی حقوق
1۔ بیت المال اور زکوٰ ۃسے امداد کی وصولی ( الشیشانی 449۔ دیگر فقہی مذاہب سے اختلاف کرتے ہوے مالکی اور زیدی فقہا غیر مسلموں پر زکوٰۃ اور بیت المال سے خرچ کی اجازت دیتے ہیں ص 480)
2۔ تجارت ، کاروبار اور حکومت میں ملازمت کا حق (الشیشانی 319،444،481،683)
قانونی حقوق
1۔ انصاف اور قانونی چارہ جوئی کا حق (الزحیلی719،720 ، ۔ ابو دا ود اور بیہقی میں درج حدیث کا حوالہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “خبردار! جس نے غیر مسلم معاہد پر ظلم کیا، اس کے حق میں کمی کی، اور اس کی استطاعت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالا، اور اس کی مرضی کے بغیر اس کا مال لیا تو میں قیامت کے دن اس کے خلاف مدعی بنوں گا‘‘)۔
2۔ قانونی مساوات (قرآن 17:80:، الزحیلی 720)
3۔ شخصی قوانین، خوراک، نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین )لشیشانی (
سیاسی حقوق
1۔ سیاسی نمائندگی کا حق (الشیشانی ، 448،485)
2۔ آزادی رائے اور اظہار کا حق (قرآن :4:136)
راہ عمل
حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں ایک’’انسانی حقوق سیل‘‘ قائم کیا ہے جو آئین کے باب دوم میں شامل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق معاملات کو نمٹاتا ہے۔ اس کا مقصد انسانی حقوق کے بارے میں فوری اور کم خرچ قانونی چارہ جوئی فراہم کرنا ہے۔ یہ سیل پاکستان کے چیف جسٹس کی براہ راست نگرانی میں کام کرتا ہے۔ اس لائحہ عمل کے تحت پاکستان کے عوام چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مخاطب کر کے ان معاملات کے بارے میں اپنی شکایات براہ راست بھیج سکتے ہیں۔ ان شکایات پر تیزی سے کارروائی لازمی ہے.چیف جسٹس متعلقہ حلقوں کو فوری رپورٹ اور تبصرے کے لئے ہدایات جاری کرتا ہے اور ان معاملات کو نمٹانے کے بعد رپورٹ کا حکم دیتا ہے. جہاں سماعت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مقدمات عدالت میں طے کرکے فیصلہ دیا جاتا ہے. اس طریقے سے روایتی قانونی چارہ جوئی کے طویل عمل کو اختیار کئے بغیر غریب افراد کوریلیف ملتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے