سائنس ۔۔ مسلم اور مغربی رویوں کا فرق

برنارڈ لیوس (ترجمہ: رشاد بخاری)

1,627

برنارڈ لیوس ایک معروف امریکی تاریخ دان اور سکالرہیں جو مشرق وسطیٰ پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی تاریخ پر گہری تنقید کی وجہ سے انہیں عام طور پر مسلم دانشور حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی رہا ہے تاہم ان کے کتابیں اور کام مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں دلچسپ مشاہدات کی حامل ہیں، جن کا معروضی مطالعہ مسلمانوں کے بارے میں مختلف زاویہ ہائے نظر کو سمجھنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔(مدیر)

انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں خلافت عثمانیہ کے دور میں مسلمان دانشوروں نے سائنس کی اہمیت پر زور دینا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ نے مزید آگے بڑھ کر سائنس اور مذہب کے درمیان کشمکش پر بھی بات کرنا شروع کی۔ اسی دور میں یورپ میں سائنس پر شائع ہونے والی کتابوں کے تراجم بھی شروع ہوئے جن کے ابتدائیے میں سائنس کی اہمیت پر زور دیا جاتا۔
مغرب میں مادیت پسندی اور اثباتیت جیسے نظریات کو بھی مسلم دنیا میں مترجم اور طالب علم مل گئے۔ ایک مقبول مصنف اینگلو امریکی سائنس دان اور فلسفی جان ولیم ڈریپر (1811-1882) تھا جس کی کتاب مذہب اور سائنس کے تنازعے پر (1872)میں امریکہ میں چھپی تھی اور ترکی زبان میں اس کا ترجمہ(1895) میں استنبول میں شائع ہوا۔ ایک اور مادیت پسند یورپی مصنف فریڈرک کارل کرسچین لڈوگ بچنز(1824-1899) تھا۔ اس نے اور اس سے بھی بڑھ کر آگسٹ کومٹے نے ترکی میں ینگ ترکس اور دیگر مسلم دنیا میں ان کے ہمنواؤں کی سیاسی فکر کو بہت زیادہ متاثر کیا۔
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود، سکولوں کے قیام اور تقریبا تمام نئی جامعات میں سائنس کے شعبوں اور وہاں سائنس کے اساتذہ کی تعیناتی کے باوجود مسلم دنیا میں جدید سائنس میں خاص ترقی نہیں ہو سکی۔
قرون وسطیٰ میں سائنس کی ترقی کے لیے مسلمانوں کے شاندار ورثہ کو نظر میں رکھا جائے تو بعد ازاں وہی سائنس جو مغربی سائنس دانوں کی دریافتوں کی بدولت یورپ سے منسوب ہو گئی، کو تسلیم کرنے میں مسلم دنیا کی ہچکچاہٹ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ سائنس کی مختلف شاخوں کی ترقی اور اس علم کی آگے منتقلی میں قرون وسطیٰ میں مشرق وسطی ٰکے سائنس دانوں، جن میں کچھ مسیحی اور کچھ یہودی بھی تھے لیکن ایک بڑی تعداد مسلمان سائنس دانوں کی تھی، نے نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے مصر اور بابل کی قدیم دانش ورثے میں پائی تھی۔ انہوں نے فارس اور یونان کے سائنسی علمی ذخیرے، جس نے جدید سائنسی ترقی اور دریافتوں کے لیے بنیاد کا کام کیا، کو ترجمے کے ذریعے دنیا کے لیے محفوظ کیا اور ضائع ہونے سے بچایا۔
قرون وسطیٰ کے مسلم سائنسدانوں نے قدیم علوم کو صرف جمع اور محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے سائنس کی دنیا میں وہ تجرباتی انداز متعارف کرایا جو اس سے قبل قدما کے ہاں کم ہی استعمال ہوا تھا۔ اس طرح وہ تقریباً تمام ہی علوم میں بے پناہ ترقی کا باعث بن گئے۔
اس علم کا ایک بڑا حصہ ان مغربی طلبہ کے ذریعے مغرب پہنچا جو سپین اور سسلی کے مسلم تعلیمی مراکز میں تحصیل علم کے لیے آئے۔ ان میں سے کئی نے سائنسی متون کو عربی سے لاطینی زبان میں منتقل کیا جس میں سے کچھ اصل تھا اور کچھ قدیم یونانی سائنس سے اخذ شدہ تھا۔ جدید سائنس ان مترجمین اور متوسلین کی ممنون احسان ہے۔
اور پھر قرون وسطیٰ کے اختتام کے قریب ایک ڈرامائی تبدیلی آتی ہے۔ یورپ میں احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔ دریافتوں کا دور آتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ علمی اور مادی دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ دوسری طرف مسلم دنیا میں علم کی آزادانہ طلب اور تلاش عملًا ختم ہو جاتی ہے اور سائنس زیادہ تر صرف منظور شدہ علم کی تحسین اور اس پر تفاخر تک محدود ہو جاتی ہے۔ کچھ عملی ایجادات اور دریافتیں ہوتی بھی ہیں مثلا انکیوبیٹر مصر میں ایجاد ہوتا ہے اور چیچک کی ویکسین ترکی میں بنتی ہے، تاہم ان ایجادات کو بھی سائنسی اقلیم کی بجائے کچھ عملی تدابیر سمجھا جاتا ہے اور دنیا کو ان کے بارے میں بھی مغربی سیاحوں سے پتہ چلتا ہے۔
سائنسی علوم کی ترقی اور قبولیت کے بارے میں مشرق اور مغرب کے بدلتے رویوں کی ایک اور ڈرامائی مثال گردش خون کی دریافت میں ملتی ہے۔ سائنس کی تاریخ پر مغربی مصنفین کی کتابوں میں اس دریافت کا سہرا انگریز فزیشن ولیم ہاروے کے سر باندھا جاتا ہے۔ ہاروے کا دل اور خون کی گردش پر تاریخ ساز مقالہ(1628) میں شائع ہوا جس نے طب کے نظریے اور اس کی پریکٹس کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس کو اس عظیم دریافت میں ایک ہسپانوی فزیشن مائیکل سرویٹس (1511-1553)کی خون کی گردش کے بارے میں ابتدائی تحقیق سے بہت مدد ملی جو (1553)میں شائع ہو چکی تھی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس دریافت کی پیشین گوئی حیران کن حد تک مماثل تفصیلات کے ساتھ تیرہویں صدی کا شامی طبیب ابن النفیس بہت پہلے کر چکا تھا۔ اس کی تحریروں میں طب پر ایک دستاویز ہے جس میں اس نے عظیم سائنس دانوں ابن سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے انسانی جسم میں خون کی گردش کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا جسے بعد میں تقریباً ہو بہو سرویٹس نے استعمال کیا اور پھر ہاروے نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ سرویٹس اور ہاروے نے اس نظریے کی بنیاد کچھ تجربات پر رکھی تھی جبکہ ابن النفیس نے ایک پیچیدہ منطق کی بنیاد پر یہ نظریہ تشکیل دیا تھا۔ جدید مستشرقین کے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سرویٹس ابن النفیس کے کام سے واقف تھا۔
ابن النفیس ایک کامیاب اور دولت مند طبیب تھا جو 80سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور بیوی بھی فوت ہو چکی تھی چنانچہ اس کا شاندار گھر اور دیگر جائیداد مع ایک لائبریری کے قاہرہ کے ایک ہسپتال کو دے دی گئی تھی۔ تاہم اس کی کتاب اور گردش خون کے بارے میں اس کا نظریہ دوسروں کی نظر سے اوجھل ہی رہا اور طب کی اس وقت کی پریکٹس پر بھی اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ دوسری طرف سرویٹس کو 14اگست 1553کو جنیوا میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت کے پروٹیسٹنٹ حکام نے مطالبہ کیا کہ یا تو وہ مذہب کے بارے میں اپنے خیالات سے دستبردار ہو جائے یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ سرویٹس نے اپنے خیالات بدلنے سے انکار کر دیا چنانچہ16 اکتوبر 1553 کو اسے ایک گستاخ کے طور پر جلانے کی سزا دے دی گئی۔ آنے والے سالوں میں طب پر اس کا کام اہم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنا۔
سائنس کے بارے میں مشرق اور مغرب کے رویوں میں بڑھتی خلیج کی ایک اور مثال استنبول میں تعمیر ہونے والی عظیم رصد گاہ کی ہے۔ یہ رصد گاہ مسلمانوں کی سائنسی تاریخ کی ایک اہم شخصیت تقی الدین (1526-1585)نے 1577میں تعمیر کرائی تھی۔ تقی الدین فلکیات، آپٹکس اور مکینیکل گھڑیوں کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ وہ شام یا مصر میں پیدا ہوئے (جگہ میں اختلاف ہے) قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور ایک قانون دان اور ماہر دینیات کے طور پر اپنا کیریر یہاں گزارنے کے بعد استنبول چلے گئے جہاں 1571میں سلطان سلیم دوئم کے دربار میں چیف ماہر فلکیات (منجم باشی)تعینات ہو گئے۔
کچھ سال بعد انہوں نے نئے سلطان مراد سوئم کو قائل کر لیا کہ وہ انہیں ایک سائنسی رصدگاہ تعمیر کرنے کی اجازت دے جو تکنیکی آلات اور اپنے ماہرین کے لحاظ سے اس کے ہم عصر معروف ڈینش ماہر فلکیات ٹائکو براہی کی رصدگاہ کے ہم پلہ ہولیکن یہ تقابل بس یہیں پر ختم ہو جاتا ہے۔ ٹائکو براہی کی رصدگاہ میں جو کام ہوا اس نے فلکیات کی سائنس میں عظیم الشان ترقی کے نئے دروازے کھول دیے۔ جبکہ تقی الدین کی سائنسی رصدگاہ کو وہاں کے مفتی اعظم کے کہنے پر سلطان کے حکم سے سپاہیوں نے ہلہ بول کر زمین کے برابر کر دیا۔ سرزمین اسلام میں اس رصدگاہ سے پہلے بہت سے سائنس دان پیش رو گزرے ہیں لیکن دور جدید تک اس کا کوئی جانشین پیدا نہیں ہو سکا۔
تاریخ میں مسیحی اور مسلم دنیا میں سائنس کے حوالے سے جو تعلق رہا وہ اب الٹ چکا تھا۔ وہ جو شاگرد رہے تھے وہ اب استاد ہو گئے۔ جو اس سائنس کے امام تھے وہ طالب علم بن گئے، ہچکچاہٹ اور تنفر سے بھرے ہوئے طالب علم۔ وہ آلات حرب اور طب کے میدان میں تو کافروں کی سائنسی ایجادات سے استفادے کے لیے تیار تھے، جہاں وہ فتح و شکست اور زندگی اور موت کے درمیان اپنی مرضی سے فرق ڈال سکیں لیکن مسلمانوں کو ان سائنسی دریافتوں کی تہہ میں موجود فلسفے اور ان سائنسی کامیابیوں کے سماجی و سیاسی تناظرات کو قبول کرنا تو کجا ان کی حقیقت تسلیم کرنے میں بھی سخت دشواری پیش آتی ہے۔
ان کا یہ انکار پر مبنی رویہ مشرق وسطیٰ اور غیر مغربی دنیا کے ان خطوں کے درمیان ایک واضح فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے جنہوں نے مغربی تہذیب کے اثرات کو کسی نہ کسی انداز میں برداشت کیا ہے۔ اس وقت کئی ایشیائی ملکوں کے سائنس دان اس سائنسی تحریک میں جو اب صرف مغربی نہیں رہی بلکہ عالمی سائنسی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے، اہم پیش رفت کرر ہے ہیں۔ جبکہ مشرق وسطی ٰمیں سوائے چند ایک محدود مغربیت زدہ حلقوں کے یا مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ان چند سائنس دانوں کے جو مغرب میں بستے ہیں، سائنس کے میدان میں مسلم مشرق وسطی کا حصہ ، جس کا اظہار مثال کے طور پر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سائنسی جریدوں کی اشاعتوں سے ہوتا ہے۔۔۔ دیگر غیر مغربی خطوں کے کردار کے مقابلے میں بہت کم ہے بلکہ ڈرامائی طور پر خود اپنے ماضی کے کردار کے مقابلے میں بھی بہت کمزور ہے۔
(Excerpt from book: What Went Wrong? By Bernard Lewis, Page 78-81)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...