نوازشریف کی نااہلی کے گلگت بلتستان پر اثرات
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن اور وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جس انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا اُس پر شدید ردِ عمل سامنے آرہا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ فکسڈ تھا اور یہ فیصلہ آئین سے بغاوت کے مترادف ہے۔جبکہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اس فیصلے کے بعد آزاد کشمیرکے الحاق پر نظر ثانی کرنے کی بات کی تھی۔دونوں راہنماوں کے اس موقف پرملک بھر میں نہ صرف سیاسی راہنماؤں بلکہ قومی مبصرین اور دانشوروں نے رد عمل کا اظہار کیا اور اس مؤقف کو بہت زیادہ سخت اور خلاف توقع قرار دیا ہے۔گلگت بلتستان میں بھی وزیر اعلیٰ کے اس مؤقف پر شدید ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔اور مختلف سیاسی قوتیں اپنے اپنے انداز میں ردِعمل کا اظہار کر رہی ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کی قیادت وزیر اعلیٰ کے مؤقف کو آج بھی درست قرار دیتے ہوئے اسی مؤقف کا پھر سے اعادہ کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں سکردو میں مسلم لیگ ن کی قیادت اور حکومتی اہم شخصیات سپیکر قانون ساز اسمبلی حاجی فدامحمد ناشاد، سینیر وزیر برقیات و خزانہ حاجی اکبر تابان ، وزیر تعلیم حاجی ابراہیم ثنائی، گلگت بلتستان کونسل میں سکردو سے رُکن وزیر اخلاق حسین اور بجلی کے پارلیمانی سکرٹری میجر (ر) محمد امین نے پارٹی کے درجنوں کارکنوں کےہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف زیادہ سخت ردِعمل نہیں دیا۔ہم میاں محمد نواز شریف کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں اور پہلے سے زیادہ منظم انداز میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کام کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں اِن راہنماوں کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردِعمل میں وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کی جانب سے اختیار کئے گئے مؤقف کی مکمل تائید کرتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو فکسڈ قرار دینا کوئی بغاوت نہیں بلکہ یہ عوامی جذبات کی ترجمانی ہے۔کیونکہ یہ فیصلہ مرتب کرانے میں کئی عوامل کارفرما ہیں ۔ہم اس فیصلے کو عدالتی مارشل لا قرار دیتے ہیں ‘‘۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی اورپاکستان تحریک انصاف وزیر اعلیٰ کے اس مؤقف پر شدید ردِعمل دے رہی ہیں ۔ پیپلز سکرٹریٹ سکردو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد ایڈوکیٹ اور سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے کہا کہ ’’ وزیر اعلی حفیظ الرحمٰن نے عدالتِ عظمیٰ سے متعلق جو مؤقف اختیا ر کیا ہے وہ قومی مفاد سے متصادم اور سپریم کورٹ کی توہین ہے۔پیپلز پارٹی وزیر اعلیٰ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرئے گی۔ان کا کہناتھا کہ حفیظ الرحمٰن جعلی ڈگری کی بنیاد پر وزیر اعلی بنے ہیں انھوں نے الیکشن کمیشن میں جو تعلیمی ڈگری جمع کرائی تھی وہ بعد میں وہاں سے اُٹھائی گئی ہے جو اب ریکارڈ پر موجود نہیں کیونکہ یہ جعلی تھی لہذا ہم وزیر اعلیٰ کی نااہلی کا معاملہ بھی اُٹھائیں گے ‘‘۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے گلگت اور سکردو میں ریلی اور جلسہ کا اہتمام کیا اور نوز شریف کی نااہلی کو یومِ نجات قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان اور حکومت کو گلگت بلتستان میں بد عنوانی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی ٰکو فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کے مستعفی ہونے تک عوامی اجتماعات کے زریعے دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
گلگت بلتستان یوں تو قومی دھارےمیں شامل نہیں ۔ گلگت بلتستان کے پندرہ لاکھ عوام کا ملک میں کسی جماعت یا شخصیت کو حکومت میں لانے یا حکومت کو گرانے میں کوئی کردار نہیں جس کی بنیاد پر و فاق میں کسی جماعت کے بر سر اقتدار آنے یا کسی کے اقتدار سے محروم ہونے پر ردِعمل کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ۔
ہاں البتہ وفاق میں جو جماعت بر سر اقتدار آتی ہے اس کے گلگت بلتستان پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وفاق میں جو جماعت بر سر اقتدار آتی ہے وہی جماعت مستقبل کی گلگت بلتستان کی بھی حکمران جماعت ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی سیاست کا یہ خاصہ ہے کہ یہاں قانون ساز اسمبلی میں وہی جماعت بر سرِ اقتدار آتی ہے جو جماعت وفاق میں قومی انتخابات میں بڑی جماعت کے طور پر اُبھرتی ہے اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے ۔وفاق میں جب مسلم لیگ ق جنرل مشرف کی راہنمائی میں برسر اقتدار تھی تو یہی جماعت گلگت بلتستان میں بھی اقتدار میں تھی۔جب پیپلز پارٹی برسراقتدار میں آئی تو گلگت بلتستان میں بھی اقتدار کا تاج پیپلز پارٹی کے راہنماوں کے سر سجااگرچہ پیپلز پارٹی کے راہنماؤں اوربعض تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ستمبر 1999 ء میں گلگت بلتستان کو سلیف گورننس آرڈر کے ذریعے صوبائی درجہ دیا ہے اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو پہلی بار اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت کرنے کا حق دیا ہے۔پہلی بار گلگت بلتستان میں ضمامِ اقتدار عوامی منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں آنے کے باعث عوام اور اداروں پر بیوروکریسی کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے جس سے عوام کو بہت سے شعبوں میں ریلیف ملا ہے۔لہذا اب گلگت بلتستان میں کئی عشروں کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت کا بننا حتمی سی بات ہے اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہی کامیابی ملے گی۔لیکن انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے اعداد و شمار نے یہ سارے دعوئے اور تبصرئے غلط ثابت کر دئے۔کیونکہ پیپلز پارٹی کو ان انتخابات میں بہت ہی عبرت ناک شکست ہوئی۔حتیٰ گزشتہ پانچ سالوں میں تمام سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے وزیر اعلیٰ جو پارٹی کی سنٹرل ایکزیکٹیو کمیٹی کے رکن ہونے اور پارٹی کے بہت ہی پرانے اور نظریاتی کارکن اور راہنما ہونے کے ناطے ان کی رسائی براہ راست وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر تک بھی تھی ۔ اس خصوصی حیثیت کے باعث ان کے پاس غیر معمولی اختیارات تھے جس کی بنیاد پر اُنھوں نے ایسے بہت سارے فیصلے کئے جو ماضی میں بیوروکریسی کے ہاتھوں انجام پاتے تھے۔ مگر جب قومی انتخابات میں وفاق اور چاروں صوبوں میں تبدیلی کی ہوا چلی جو ملک میں اقتدار کی تبدیلی کا باعث بنی وہ ہو ا گلگت بلتستان پہنچنے تک طوفان کی شکل اختیار کر لی جس نے ماضی کی سب سے بڑی جماعت کو اس طرح دیوار سے لگا دیا کہ ماضی کی حکمران جماعت بمشکل ایک نشست لے سکی ۔اور سابق وزیر اعلی کی بااختیار حیثیت بھی ان کو شکست سے نہ بچا سکی۔اور گلگت بلتستا ن کے تمام اضلاع میں مسلم لیگ ن نے واضح برتری حاصل کی۔ یہ برتری یقیناً ملک میں مسلم لیگ ن کو ملنے والی کامیابی کے باعث تھی۔ یہی صورت حال آزاد کشمیر میں بھی تھی۔ اب گلگت بلتستان میں حکومت کو قائم ہوئے بمشکل دو سال ہو ئے ہیں لیکن جب وفاق میں پانامہ کیس کی بنیاد پر وفاق میں حکمران جماعت کی اقتدار کی بنیادیں ہلنے لگیں تو ایوانِ اقتدار میں آنے والے اس زلزلے کے جھٹکے شدت کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی محسوس کئے گئے۔ اور نگر سے قانون ساز اسمبلی کی نشست کے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی حمایت یافتہ اسلامی تحریک کے اُمیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرآج گلگت بلتستان کی سڑکوں پر نکلنے والے جلوسوں اور جلسوں میں وزیر اعلی سے استعفیٰ کے مطالبے سامنے آرہے ہیں اور وزیراعلیٰ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی باتیں کھلے عام ہورہی ہیں تو ہم اِسے پانامہ فیصلے کے آفڑ شاکس قرار دے سکتے ہیں۔ لہذا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وفاق کی سیاست کو لے کر گلگت بلتستان میں جو بھی جماعتیں سڑکوں پر آرہی ہیں وہ کسی صورت بھی وفاقی جماعتوں کی کازکی تقویت یا کمزوری کا باعث نہیں بلکہ یہ سلسلہ صرف اپنے آپ کووفاقی راہنماؤں کی نظروں میں لانے اور اپنے آپ کووفاداروں و جانثاروں کی فہرست میں شامل رکھنے کی ایک کوشش ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر ہے کہ گلگت بلتستان کی پوری قیادت اس ایک نکتے پر اتفاق کرے کہ سب کو مل کر گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرانے کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے ۔وفاقی سطح پر گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کے لئے سفارشات مرتب کرنے والی کمیٹی اپنا کا م مکمل کرچُکی ہے اور ان سفارشات پر عمل در آمد کے طریقہ کار کو طے کرنے کے لئے دوسری کمیٹی تشکیل دے کرکام کر رہی تھی کہ وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے باعث یہ کمیٹی ختم ہوگئی۔ اب چونکہ وفاقی حکومت دوبارہ قائم ہوگئی ہے اور توقع ہے کہ گلگت بلتستان سے متعلق یہ کمیٹی بھی دوبارہ تشکیل پائے گی۔ اور گلگت بلتستان کی ساری قیادت چاہے اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو سب کو ملکر گلگت بلتستان کے اس اجتماعی حق کے حصول کے لئے جد وجہد کرنی ہوگی تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق میسر آسکیں۔ ایسا ہوا تو جہاں گلگت بلتستان کے لوگ اپنے حقوق سے بہرہ مند ہوسکیں گے اور اپنے خوابوں کی تعبیر پاکستان کے شہری کی حیثیت میں اُنھیں ملیں گے تب جاکے ہم ملک میں جاری اقتدار کی سیاست میں گلگت بلتستان کے شہری بھی کچھ کردار ادا کرسکیں گے۔وگرنہ موجودہ صورت حال میں گلگت بلتستان تین میں ہے اور نہ تیرہ میں ایسے میں پانامہ معاملے کا اونٹ جس کروٹ پر بھی بیٹھے گلگت بلتستان کی صحت پر کچھ اثر پڑنے والا نہیں۔
فیس بک پر تبصرے