بیانئے کی سرزمین
عامر رانا اپنے انداز میں ایک کہانی بنتے ہیں شاید یہ ان کی پیشہ وارانہ جدوجہد سے منسلک ہو جہاں وہ آج کے پاکستانی معاشرے کے دل و دماغ میں پھیلے ہوئے کینسر کی تشخیص کرتے ہیں
کہانی شروع ہوتی ہے قیدیوں کے ایک گروہ سے جو اپنی آخری ساعت کے منتظر ہیں ۔ان کے حلق میں سانسیں اکھڑ رہی ہیں مگر گولی نہیں چلتی۔گھپ اندھیرا ہے ۔بارش جاری ہے ۔مسلسل جاگتے رہنے سے وہ نڈھال ہو کر ایک ایک کر کے سو گئے لیکن اگلی صبح جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا مگر ارد گرد انہیں مسلح لوگ نظر نہیں آئے ۔کیا یہ سراب تھا یا انہوں نے کوئی خواب دیکھا تھا ؟ یا شاید یہ حقیقت تھی ؟یہ قارئین پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔ناول نگار جیسے جیسے اپنی مختصر کہانی کو آگے بڑھاتا ہے یہ رگ وپے میں سرایت کرتی جاتی ہے ۔
بیانئے کو تجرید کے ذریعے آگے بڑھانا جانگسل مرحلہ ہے اور گویا یہ پل صراط پر چلنا ہے اور اگر آپ نے ذرا سی غلطی کی تو آپ پٹری سے اتر جائیں گے ۔لیکن محمد عامر رانا نے اپنے حالیہ ناول ’’سائے ‘‘ میں یہ پل صراط کامیابی سے عبور کیا ہے ۔وہ پیشے کے اعتبار سے دفاعی مبصر ہیں جو معاصر انگریزی میڈیا میں قومی بیانئے کی تشکیل میں منہمک ہیں ۔عامر رانا اپنے انداز میں ایک کہانی بنتے ہیں شاید یہ ان کی پیشہ وارانہ جدوجہد سے منسلک ہو جہاں وہ آج کے پاکستانی معاشرے کے دل و دماغ میں پھیلے ہوئے کینسر کی تشخیص کرتے ہیں ۔
کہانی لاہور کے ایک ایسے مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے جسے کینسر ہے اس سے مراد ہمارے سماج میں انتہاؤں کو پھیلا ہوا کینسر بھی ہو سکتا ہے ۔ایک شخص کو خصیوں کے کینسر کی یہ بیماری لاحق ہے اس سے مراد وہ بانجھ معاشرہ ہے جو قحط الرجال کا شکار ہے ۔اس کو کہانی کے ایک کردار کے خوابوں سے تقویت ملتی ہے جس میں وہ خود کو ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں ’’خوشیاں ، بیماریاں اور مصیبتیں ‘‘ خریدتے ہوا پاتا ہے جہاں پر دیگر لوگ بھی اپنی مطلوبہ اشیاء خرید کر لے جارہے ہیں ۔’’میں نے اپنے لئے خصیوں کے کینسر کا انتخاب کیا ، سیلز گرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟میں نے اسے جواب دیا۔۔۔ایک بانجھ معاشرے میں رہتے ہوئے ،اس سے بہتر کوئی اور بیماری نہیں ہو سکتی جو میرے ذہن و جسم سے مطابقت بھی رکھتی ہو ‘‘۔
ایک اور مقام پر جب ایک ڈاکٹر اس کی حالت کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ کینسر کچھ بھی نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ ان امور کے بارے میں فوری فیصلہ کرے جو لمبے عرصے سے حل طلب ہیں ۔وہ سوچنے لگتا ہے کہ جب وہ طالب علم تھا تو اس نے ایک سیاسی جلسے میں سنا تھا جہاں ایک مقرر زور دے کر کہتا ہے کہ ’’آمریت کا نتیجہ 20سال بعد نکلے گا جب فکری طور پر معذور نسل سامنے آئے گی ‘‘۔
اپنا گھر اور خاندان اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جب وہ داتا دربار اور اس جیسی دیگر جگہوں پر جاتا ہے تو وہاں اس جیسے کئی لوگ اسے ملتے ہیں ۔ایسے ہی سماجی کرداروں کے ذریعے عامر رانا نے ہمارے سماج میں پھیلے کینسر کی تشخیص کی ہے ۔
گلیوں میں پھرنے والے ان آزاد منش لوگوں میں سے زیاد ہ تر پڑھے لکھے ہیں ۔لیکن جب وہ عملی زندگی میں آئے تو گم گشتہ بن کر رہ گئے اور نشے کی لت میں پڑ گئے ۔عامر رانا نے اپنے کرداروں کو آزادی کے ساتھ برتتے ہوئے اپنے بیانئے کو آگے بڑھایا ہے ۔
مثال کے طور پر نصیر اور ا س کے گرو کا کردار آج کے پاکستانی معاشرے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔وہ ماسکو سے اعلی ٰ تعلیم کے بعد جب لوٹتا ہے تو گرو ’’اپنے وضع کے اصلاح پسند ‘‘ کو شاہی قلعہ کی قید تنہائی میں ڈال دیتا ہے ۔لیکن جب اسے بغیر کسی جرم کے رہا کیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی قسمتوں کا حال بتانے والا بن چکا ہوتا ہے ۔نصیر اور اس کے چیلے پر جانوروں کے حقوق کا غلبہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ’’چڑیا گھر کے مکینوں کے لئے ایک الگ پارلیمنٹ بنائی جائے ‘‘۔جب بھی نئی حکومت بنتی ہے وہ نئے سرے سے اپنی کوششیں شروع کر دیتا ہے لیکن ایک روز جب مال روڈ پر فوجی گشت کر رہے تھے تواس نے ایک نعرہ بلند کر دیا جس کی پاداش میں اس پر غداری کا مقدمہ بنا اور اسے جیل ہو گئی ۔وہ نعرہ کیا تھا ؟’’آخر کار ہمیں ایسی حکومت مل گئی ہے جو کتوں کو آزادی دے گی ‘‘۔
یہ ایسا بیانیہ ہے جس سے مزاحمتی تحریکوں میں شامل ہر تخلیقی روح دوچار ہوتی ہے جہاں ان کی آزادی اظہار کو سلب کر لیا جاتا ہے
اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کہانی در اصل بیان کیا کر رہی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایسا بیانیہ ہے جس سے مزاحمتی تحریکوں میں شامل ہر تخلیقی روح دوچار ہوتی ہے جہاں ان کی آزادی اظہار کو سلب کر لیا جاتا ہے ۔شاید یہ فرض کی گئی کہانیاں ہوں مگر غائب ہونے والے بلاگرز اور سماجی میڈیا پر لگام دی جانے والی آوازیں شاید عامر رانا کے اس ناول کی تخلیق کا باعث بنی ہوں ۔تاہم آزادئ اظہار کوآج کل صرف ریاستی حربوں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ غیر ریاستی عناصر بھی ا س میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔جس سے دوچار ہونے والا مرکزی کردار بالآخر یادداشت کے ختم ہونے سے دوچار ہو جاتا ہے ۔سادہ الفاظ میں فرار ’’خواب ، خواب اور خواب ،رنج دور کرنے کا صرف یہی راستہ بچا ہے ‘‘۔
تجریدی اظہار کے باوجود ناول جو کہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ، اور جو 28 مختصر ابواب پر محیط ہے کو ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتا ہے۔یہ ایک فلم کی مانند ہے جو تدوین کے مراحل میں ہے جس کے کراداروں کی تصویر کشی کرتے ہوئے انہیں جلد بازی میں ڈرامے میں سمو دیا جائے مگر ان کا جوڑ توڑ بچوں کا کھیل نہیں ہے جسے عامر رانا نے کامیابی اور اعتماد کے ساتھ ادا کیا ہے ۔
ناول : سائے
مصنف : محمد عامر رانا
سانجھ پبلشرز
صفحات :122
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ ، سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے