قومی کتاب میلے میں شدت پسند ی پر مبنی کتابیں

974

وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دو ہفتوں سے کتابی میلے  لگے ہوئے ہیں ایک آکسفورڈ پبلشرز نے لگایا تو دوسرا نیشنل بک فاؤنڈیشن نے ، آکسفورڈ کی جانب سے پاکستان میں کتاب کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے جو کاوشیں ہو رہی ہیں وہ لائقِ تحسین ہیں ۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی اپنے متحرک ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی قیادت میں شبانہ روز سرگرم ہے ۔ یقیناً انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو بہت آگے لا کھڑا کیا ہے ۔ مگر اس کتابی میلے میں ایک برادر اسلامی ملک سے منسلک ایک مذہبی اشاعتی ادارے کو بھی نہ صرف سٹال لگانے کی اجازت دی گئی بلکہ اسے میلے میں سب سے نمایاں جگہ دی گئی ۔ یہ مذہبی اشاعتی ادارہ ایک خاص قسم کا مذہبی لٹریچر چھاپتا ہے اور ان میں سے اکثر کتابیں بیرون ملک سے ہی چھپ کر آتی ہیں ۔ اس دارے کے سٹال پر جو کتابیں موجود تھیں وہ اسی بیانئے کے ارد گرد گھومتی ہیں جو شدت پسند بیان کرتے ہیں ۔ ایک بات تو یہ کہ خالصتاً ایک ادبی کتابی میلے میں کیا کسی مذہبی اشاعتی ادارےکو اور وہ بھی ایسا جس کی جڑیں ملک سے باہر ایک مخصوص مکتب ِ فکر سے ہیں ، اس کو سٹال لگانے کی اجازت ملنی چاہئے تھی ؟ اور دوسرا یہ کہ جب نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت انگیز مواد کے خلاف کام ہو رہا ہے اور اس تمام لٹریچر کے خلاف جس سے بین المسالک یا بین المذاہب ہم آہنگی کونقصان پہنچ رہا ہے یا انتہا پسندی پنپ رہی ہے ۔ مگر دوسری جانب نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اعلی ٰ وفاقی ادارے کے زیر اہتمام میلے میں ایسی کتب فروخت ہو رہی تھیں ۔ اس سٹال پر جو کتب موجود تھیں یہ وہی ہیں جن سے القاعدہ اور داعش نے فکری بیانیہ مرتب کیا ہےاور پاکستان کے شدت پسند گروپ بھی انہی سے اپنی کارروائیوں کا جواز تراشتے ہیں ۔

اس بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟ ریاست انتہا پسندی کے خلاف تضادات کا شکار کیوں ہے ؟ کیا کسی خالص ادبی میلے میں کسی مخصوص مکتب فکر سے وابستہ تنظیم کو اپنا سٹال لگانے کی اجازت دی جانی چاہئے تھی ؟ اس حوالے سے آپ بھی  اپنی رائے کا اظہار کریں :

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...