نظریہ کرپشن کو مٹانے کی بات کریں

947
آج کرپشن بھی وہیں کھڑی ہے اور بدبودار سسٹم بھی وہیں کھڑا ہماری بیوقوفی پر ہنس رہا ہے کہ ہم اس کو چھوڑ کر کن کاموں کے پیچھے لگ گئے ہیں. یقین کیجیئے، کرپشن اور اس خراب سسٹم کے خلاف صحیح طور اصلاحات کروائی جاتیں تو آج واقعی میں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا.
واہگہ بارڈر پر خوب رونق لگی ہوئی تھی. دونو ں جانب کے عوام اپنے جوانوں کی جذباتی انداز میں پرفارمنس پر بڑے پُرجوش نعرے لگا رہے تھے. دونوں جانب کے جوان ایک دوسرے کو مُکے بنا بنا کر دکھا رہے تھے، سینہ پھُلا پھُلا کر معلوم نہیں دونوں جانب سے ایک دوسرے کو کیا پیغام دیا جارہا تھا. آزادی تو دونوں نے ہی حاصل کرلی مگر  فیض مرشد کے مطابق  “وہ خواب جس کی بنیاد پر پاکستان بنا ابھی بھی نامکمل ہے. تقسیم تو عمل میں آگئی لیکن مکمل امن دونوں جانب ابھی تک نہیں آیا.اس کا تعلق اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کی ہم آہنگیوں میں ہے جن کا ہونا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے. فیض صاحب کا اشارہ اس وقت شائید ایک دو نکات پر ہی ہومگر آج کے مسائل دیکھ کر فیض صاحب کی یہ بات دوسوفیصد درست معلوم ہوتی ہے. ہم نے آزادی تو حاصل کرلی مگر کس سے؟  آجکل سُنا ہے ہمیں ایک نئی آزادی حاصل ہوئی ہے. وہ آزادی کوئی عام آزادی نہیں ہے، کرپشن سے آزادی ہے. معلومات کے مطابق آزادی ملنے پریوم تشکر بھی منایا گیا جس میں اب سے ملک کے پاک صاف ہونے کی خوشخبری سُنائی گئی. مگر کیا واقعی میں ایسا ہے؟
میرے خیال میں نظریہ کرپشن کو تو ایک فیصد بھی نقصان نہیں پہنچا، وہ تو آج بھی پنجابی پہلوان کی طرح بڑی مضبوطی کے ساتھ پیر جمائے میدان میں کھڑا ہے. ہاں مگر دوسری جانب لڑنے والا کوئی نہیں. ویسے ایک کام ضرور ہوا ہے ،ملکی سیاسی کلچر میں ایک بار پھر لُچر بازی، بازاری ماحول، گھٹیا الزامات اور کردارکشی کا ایک بہترین سلسلہ شروع ہوگیا ہے. معلوم نہیں سر پیٹنے کا مقام ہے یا خدا کا شکر ادا کرنے کا، شکر اسلیئے کہ نواز شریف، کرپشن کا ڈرائکولا اپنے انجام کو جو پہنچ گیا. مگر کیا ہے نا، یوم تشکر والے دن سے آج تک میں پاکستان میں وہ فضا ڈھونڈ رہا ہوں جس نے قائم ہونا تھا. ملک میں تو وہی کرپشن آلود فضا ہے جس میں عوام کئی برسوں سے سانس لے رہے ہیں. شائید ہم احمقوں کے لیئے ہی کہا گیا تھا اور خصوصاً موجودہ صورتحال کے لیئے: کہ شخصیات مر جاتی ہیں نظریے قائم رہتے ہیں. اگر جنگ کسی نظریے کے خلاف ہو تو سمجھ بھی آتی ہے. لیکن شخصیات کے خلاف جنگوں کی بنیاد صرف سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیئے ہوسکتی ہے. آج کی صورتحال کو مزید واضح پیش کرنے کے لیئے 20 اپریل کو لکھے گئے بلاگ کا کچھ حصہ شامل کیا جارہا ہے.
“آج کرپشن بھی وہیں کھڑی ہے اور بدبودار سسٹم بھی وہیں کھڑا ہماری بیوقوفی پر ہنس رہا ہے کہ ہم اس کو چھوڑ کر کن کاموں کے پیچھے لگ گئے ہیں. یقین کیجیئے، کرپشن اور اس خراب سسٹم کے خلاف صحیح طور اصلاحات کروائی جاتیں تو آج واقعی میں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا. میں کوئی ہوائی بات نہیں کر رہا خان صاحب خود آپکو اس کی مثال پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ کیجیئے: دھاندلی کیس میں خان صاحب کو انتخابی اصلاحات کا اوپن آپشن ملا تھا کہ نہیں؟ لیکن دراصل اس وقت بھی ان کا ٹارگٹ ایک ہی شخص تھا . سو وہ جو چاہ رہے تھے( نواز شریف کا استعفی) وہ تو نہیں ملا(اس وقت) انتخابی سسٹم میں موثر اصلاحات سے بھی گئے. آج وہی بوسیدہ اور ہزار خرابیوں سے بھرپور الیکشن سسٹم وہیں ہے جہاں پچھلے 70 سال سے کھڑا ہے. خان صاحب اب اسی نظام کو قبول کرتے ہوئےالیکشن لڑتے بھی ہیں اورالزامات کی پرانی ایکسرسائز دوہراتے بھی ہیں، لیکن اصلاحات اب خان صاحب کا انٹرسٹ نہیں رہا، کیوں؟ کیونکہ مقصد ان کااب بھی وہی ہےجو پہلے تھا. اس طرح سے وہ اداروں میں ہم آہنگی کا نہیں بلکہ پھوٹ ڈالنے اور انتشار کا بلاوجہ کا کردار ادا کر رہے ہیں. جبکہ قومی لیڈر کو اپنے اداروں “جو پہلے ہی بربادی کی آخری نہج پر ہیں”  کو اخلاقی تعاون دینا چاہیئے وہ اس لیئے کہ یہ ہمارے ہی ادارے ہیں ہندوستان یا اسرائیل کے نہیں، ہمیں اگر ڈویلپمنٹ کی جانب بڑھنا ہے تو سب سے پہلا قدم اندرونی ہم آہنگی ہے. خان صاحب اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی ملک کی اتنی خدمت کر سکتے تھے جو کہ صدیوں یاد رکھی جاتی، جیسے کہ شوکت خانم انہی کا اس ملک کے لیئے احسان ہے جو کہ ان کا نام مٹنے نہیں دیتا. سیاست میں آنے کے بعد دوسروں کے بتائے ہوئے اشارے ان کو اس نوبت پر لے آئے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو خان صاحب جیسے سلجھے ہوئے اور اتنے سیزنڈ انسان کی اسٹریٹجیز کچھ اور ہوتیں.”
ملک میں آج ” کیچڑ اچھال گیم” جس دبڑدوز طریقے سے جاری ہے اسی سے ہی اندازہ لگا لیا جائے کہ یہ نام نہاد سیاسی لیڈرز ملک کے کتنے کو خیر خواہ ہیں. بات صرف عائشہ گلالئی یا عائشہ احد کی نہیں ہے بلکہ شخصیات  کی کردار کشی کی روایت بڑی پرانی ہے.سیاست کے صرف اسی نقطے پر بات کریں تو نواز شریف خود ایک بڑی مثال ہیں جنہوں نے بینظیر بھٹو کے خلاف ذاتی نوعیت کے بیہودہ الزامات کی ایک بھرپور مہم سرانجام دی تھی.جس قائد اعظم کے شروع میں ہم حضرت اور آخر میں رحمتہ اللہ علیہ لگاتے ہیں، انہی کی دختر محترمہ فاطمہ جناح پر الیکشنز کے دوران ایوب ڈکٹیٹر نے جو الزامات لگائے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں. محترمہ کے اسلام دشمن،  ملک دشمن  اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے پر تو ایسے مہر ثبت کردی گئی کہ جیسے ان کا پورا ٹبر ہی غدار تھا اور اللہ نے ایوب خان کی شکل میں ایک فرشتہ بھیجا تھا جس کو ایسے غداروں سے ملک کو بچانا تھا. ایوب کے صدارتی انتخابات کی مہم میں جہاں پیسے کی ریل پیل نے پاکستان میں سیاسی کلچر میں دھونس اور دھاندلی کو ایسا فروغ بخشا جس کی مثال ہمیں تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی، وہیں اسی مہم میں اسلام کے غلط استعمال نے ملک میں بچے کُچے سیاسی کلچر کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا. یہاں بتانے کی اہم بات یہ ہے کہ ملک کے ایک بڑے سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو بھی اس وقت ایوب خان کی اس صدارتی مہم میں فاطمہ جناح کے خلاف مہم جوئی میں شریک تھے. یہ صرف ایک مثال تھی، ملکی سیاسی تاریخ ایسی کئی باتوں کی شاہد ہے جس میں کرپشن اور سیاست کے دوسرے عوامل کو صرف ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار کے طور پے ہی استعمال کیا  گیا.ملک میں آج تک کسی بھی حکمران نے کرپشن کے خلاف موثر قانون سازی نہیں کروائی. کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی مقتدر شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے کرپشن نہیں کی تو وہ جھوٹ بولتا ہے، ہاں اگر یہ کہے کہ اس نے سب قوائد و ضوابط میں رہتے ہوئے کیا تو ہاں، وہ سچ کہتا ہے. مطلب صاف ہے، اگرسمجھنا چاہیں.
آپ ایوب دور  سے شروع کیجیئے، اور نواز شریف کی 2013 کی حکومت تک کا جائزہ لے لیں آپکو کرپشن کی ٹرین کہیں رُکتی نظر نہیں آئے گی مگر اس کے خلاف کاروائی کو یا تو صرف مخالفت میں آکر استعمال کیا جاتا ہے یا پھر الیکشن کے دوران لوگوں کو پاگل بنانے کے لیئے ایسے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں.تمام تر باتوں سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام کے اصل ایشوز تو شروع سے اب تک حکمرانوں کی ترجیح رہے ہی نہیں ہیں. اس موضوع پر دوست عمر سلیم بہت اہم بات کرتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب نے عائشہ گلا لئی کے لئے تو ایوان میں کمیٹی بنا ڈالی.مگر چہروں پر تیزاب پھینکنے، سرعام عزتیں لُٹنے ،غیرت کے نام پر قتل کیئے جانے. زمین کے تنازع پر سر کے بال کاٹ دیے جانے جیسے جرائم پر پارلیمنٹ اور ان کی کمیٹیاں متحرک کیوں نہیں ہوتیں. شائید اس لیئے کہ عوام کے اصل ایشوز اور ان کے ایشوز میں بہت فرق پایا جاتا ہے.
کرپشن جیسا مسئلہ جو کہ عوامی نوعیت کا سب سے سنگین مسئلہ ہے وہ واقعی میں آج بھی ہمیں منہ چڑھا رہا ہے اور عوام یوم تشکر منا نے کے بعد اب 14 اگست کی آزادی منانے کے لیئے بھرپور طریقے سے تیار ہیں.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...