بے بسوں کے درد کو سمجھنے والی ’مدر ٹریسا‘
پاکستان میں سیاسی ہلچل سے متعلق خبروں اور تبصروں کے باوجود ایک افسوسناک خبر ایسی آئی جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکا۔
ایک خاتون ڈاکٹر جس کا آبائی ملک جرمنی تھا، لیکن اُن کا دل پاکستان میں دھڑکتا تھا۔ ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ 87 برس کی عمر میں کراچی میں 10 اگست کو انتقال کر گئیں۔
ڈاکٹر روتھ پہلی مرتبہ جب پاکستان آئیں تو اُن کی عمر 30 برس تھی جس کے بعد اُنھوں نے اپنی زندگی کے لگ بھگ 57 سال اسی ملک میں گزار دیئے۔اُنھوں نے اپنی تمام زندگی جزام یعنی ’کوڑھ‘ کے خاتمے اور اس مرض میں مبتلا افراد کی خدمت میں گزار دی اور اسی بنا پر اُنھیں پاکستان کی ’مدر ٹریسا‘ کہا جاتا تھا۔
ڈاکٹر روتھ اور اُن کی پاکستان سے دلچسپی کا قصہ بھی کچھ عجیب ہے، اُنھیں کیتھولک چرچ نے 1960 میں بھارت بھیجا تھا لیکن اس سفر کے دوران وہ کراچی رکیں جہاں اُنھوں نے ایک ڈسپنسری میں جزام یا ’کوڑھ‘ کے ایک مریض کو بہت ہی مشکل حالت میں دیکھا۔
شاید یہ ہی وہ مناظر تھے، جس کے بعد وہ بھارت گئیں تو لیکن کچھ ہی وقت کے بعد وہ کراچی واپس آ گئیں اور یہیں زندگی گزارنے اور جزام کے مریضوں کے لیے زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ کسی کو تکلیف دیکھنا اور کچھ نا کرنا، اُن کے لیے ممکن نہیں۔
کراچی کا میکلوڈ روڈ، جسے اب آئی آئی چندریگر روڈ کہا جاتا ہے، وہاں ریلوے لائن کے قریب پچاس کی دہائی کی اواخر میں جزام کے مریضوں کی بستی ہوا کرتی تھی اس مرض کے شکار افراد کی مشکلات کا تصور بھی دل دہلا دینے والا تھا کیوں کہ یہ مریض چوہوں کی خوراک بن گئے۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب جزام یا کوڑھ کے مریضوں کو الگ کر دیا جاتا تھا اور لاعملی کے باعث کوڑھ کے مرض کو ’’گناہوں کی سزا‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ایک ایسے وقت جب ان مریضوں کے قریب جانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا ڈٓاکٹر روتھ فاؤ نے جزام سے متاثرہ افراد کو علاج کی مفت سہولت کی فراہم کے لیے ایک جھونپڑی میں کلینک کھولا۔بعد ازاں یہ کلینک ’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینیٹر‘ یا مرکز میں بدل گیا اور ڈاکٹر روتھ فاؤ اس مرکز سے متصل ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنی تمام زندگی گزار دی۔
اس طبی مرکزی کے عملے کے مطابق ڈٓاکٹر روتھ فاؤ نے کبھی چھٹی نہیں کی، شاید یہ اُنھی ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ جس روز ڈاکٹر روتھ کا انتقال ہوا اُس دن بھی کلینک کھلا تھا اور مریضوں علاج جاری رہا۔
ڈاکٹر روتھ کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزازات، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور ہلاک پاکستان سے نوازا گیا۔محض پاکستان ہی نے اُنھیں دنیا بھر میں اُن کی خدمات کو سراہا جاتا رہا اور اُنھیں کئی اعزازات بھی دیئے گئے۔لیکن اُن کا سب سے بڑا اعزاز وہ عزت اور قدر و منزلت ہے جس کا اعتراف معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے کر رہے ہیں اور حکومت نے اُن کی تدفین سرکاری طور پر کرنے کے احکامات جاری کیے۔بلا شبہ اُنھوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں بدلیں اور ایک مثال قائم کی۔ ڈاکٹر روتھ کی کوششیں ہی تھیں جن کی بنا پر عالمی ادارہ صحت نے 1996 میں کہا کہ پاکستان میں جزام یا ’کوڑھ‘ پر قابو پا لیا گیا ہے۔انسانی خدمت کرنے والی جرمن خاتون نے اپنی تمام زندگی سادگی میں گزار دی۔
لیکن اُن کی خدمت لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی اور نا صرف وہ جزام کے خلاف جنگ جیت گئیں بلکہ وہ ایک ایسا درس بھی دے گئیں جس کی بطور معاشرہ ہم سب کو ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے