عوام کی عدالت میں
ہم مستقبل کو ماضی بعید سمجھ کر جیتے ہیں۔ اس انقلاب آفریں طرز زندگی کا ثمر ہے کہ اب ہم صحیح معنوں میں عوامی جمہوریت جینے کا سوچ رہے ہیں۔ عدل و انصاف، جمہوریت، الیکشن، اور آئین جیسے مسائل کے جھنجٹ نے عوامی جمہوریت کا راستہ روکا ہوا ہے۔
آج ہم سترسال کے ہوگئے ، نہ سٹھیائے نہ سترے۔ ہماری ستر سالہ کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ۔ ہم حال سے بے گانہ اور مستقبل سے بے پروا ہوکر جیتے ہیں۔ یہ سب ممکن یوں ہوا کہ ہم نے ماضی میں جینا سیکھ لیا ہے۔ ہم نے ماضی کی ساری قسمیں دریافت کرلی ہیں اور اب ان سب قسموں میں پورے طمطراق سے جیتے ہیں۔ ہم حال کو ماضی جاری سمجھ کربِتاتے ہیں اور مستقبل کو ماضی بعید کی طرح سوچتے ہیں ۔ ہم جب سے آزاد ہوے ہیں ماضی جاری میں رہ رہے ہیں۔ عافیت کے لئے ماضی مطلق تراشتے رہتے ہیں۔ لیکن خود ویسے کے ویسے ہیں۔
ماضی مطلق کو ہمیشہ سلیٹ کی طرح صاف رکھتے ہیں، کوئی خرابی نظر آئے تو ورکشاپ بھیج کر سروس کروالیتے ہیں، جیسی مرمت مطلوب ہو کروا لیتے ہیں۔ ماضی کی جو شخصیت ناروا ہو یا جو واقعہ بدنامی کا باعث ہو اسے اپنی پسند کے مطابق بدل لیتے ہیں۔ اس طرح ماضی میں کچھ بھی غلط نہیں رہتا۔ ہم تاریخ خود لکھتے ہیں اس لئے نہ تاریخ پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے سبق سیکھنے کے قائل ہیں۔
ماضی کی اصلاح کے کئی طریقے ہیں۔ مقبول اور آزمودہ طریقہ تو یہ ہے کہ ماضی کے ریکارڈ میں ضرورت کے مطابق ٹیمپرنگ کرکے ماضی کو مطلق اور چالو رکھا جائے ۔ دوسرا طریقہ احتساب ہے۔ جو مخالفین اور نا پسندیدہ لوگوں کے لئے استعمال ہو تا ہے۔ کسی میں غلطی یا خرابی دیکھتے ہی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اس کا حساب کتاب چُکتا کرکے اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ آگے وہ جانے اور خدا جانے۔ اپنے پر الزام ہو تو حساب مانگنے والوں کو زچ کر دیتے ہیں کہ کس بات کا حساب مانگتے ہو۔ پہلے دوسروں کا حساب تو لے لو۔ اس طرح ایک ایک پائی کا حساب دے کر ہر احتساب میں سرخرو رہتے ہیں۔
تیسرا راستہ درگذر کا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جرائم کا حساب اور جزا اور سزا کا سلسلہ صرف مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی ہم خدا سے التجا کرتے ہیں کہ عدل اور انصاف کی بجائے در گذر سے کام لے۔
معاف کریں تُوں مولا معاف کریں
عدل کریں نا انصاف کریں
بس معاف کریں توں مولا معاف کریں
نہ میں عمل کماواں
نا میں فرض نبھاواں
پلّے گُن کوئی نا ، جدوں سوچاں شرماواں
تیری شان اُچیری
تے میں مِٹیاں دی ڈھیری
سن عرض توں میری
مولا معاف کریں توں
مولا عدل کریں نہ انصاف کریں
بس معاف کریں
چوتھا طریقہ صفائی اور دھلائی کا ہے۔ قدیم زمانے میں اسے احتساب کی ہی ایک شکل سمجھا جاتا تھا۔ اس کام کے لئے دھوبی گھاٹ جانا ضروری تھا جہاں دھونا دھلانا پٹخنا معمول کی بات ہوتی تھی۔ آج کل داغ دھبوں کے بارے میں پرانے تعصبات باقی نہیں رہے۔ داغ دار ماضی کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ دھلائی، احتساب اور عدل اور انصاف کی بجائے حسب ضرورت لانڈری اور ڈرائی کلیننگ یا این آر او کے مجرب طریقوں سے داغ دھبے چھپا دئے جاتے ہیں۔
ایک قدیم طریقہ توبہ کا بھی ہے جو اب تقریباً متروک ہے۔ یہ واقعی مشکل کام ہے۔ کیونکہ توبہ میں شرط ہے کہ زندگی پھر سے ایسے انداز سے شروع کی جائے جس میں پرانی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ توبہ میں جرم مان کر معافی مانگنی پڑ تی ہے جوشریف آدمی کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ کا م ہے۔ اسے اپنی ذات سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں ہوتی۔
ہم با عزت قوم ہیں۔ توبہ کے مقابلے میں در گذر، مفاہمت یا این آر او کے ذریعے سر اٹھا کے جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی مفاہمت جو احتساب، توبہ اور عدل و انصاف کوقصہ ماضی بنا دے۔ ہمارا ایمان قابل رشک ہے۔ سورہ توبہ تلاوت کرتے ہیں جو وعدے یاد دلاتی ہے اور وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے براءت کا اظہار کرتی ہے تا کہ ہم ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں جو نہ وعدے کے سچے ہیں نہ امانت کا حق ادا کرتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا ماضی پاک صاف ہے اس لئے ہمیں توبہ معاف ہےاور خود احتسابی ایمان کی کمزوری۔
ایسا ماضی جو مٹی میں دفن گناہوں کی یاد دلائے ماضی مطلق نہیں بن سکتا۔ یاد ماضی عذاب بن جائے تو آدمی ماضی کی یاد دلانے والےحافظے سے نجات کی دعا کرتا ہے۔ الحمد للہ اب ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر حافظے سے نجات مل جاتی ہے۔ ہم پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ہمارا ماضی مطلق ہو چکا ہے جس میں خانے تو ہیں لیکن سارے خالی۔ یہی ماضی مطلق اب ہمارا تابناک مستقبل ہے۔ ہم یہ خالی خانوں والا ماضی مطلق کہیں بھی حساب کتاب کے لئے پیش کر کے دعوی کر سکتے ہیں کہ پکڑ سکتے ہو تو ضرور پکڑو۔ مفاہمت اور این آر او والا ماضی اگرچہ مطلق نہیں ہوتا لیکن ماضی مطلق قریب ضرور ہوتا ہے۔ ہم اسے بھی پورے اطمینان سے پیش کر کے یہ کہ سکتے ہیں بتاو ہمارا قصور کیا ہے۔ اطمینان اس لئے کہ یہی ماضی ہم نامہ اعمال کے طورپر محشر میں عوام کی عدالت میں پیش کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عوام کی عدالت میں اس لئے کہ ان کا حال ہمارے جیسا نہیں تو اس سے زیادہ خراب ہی ہوگا۔ اس لئے ان کی ہمدردیاں بھی ہمارے ساتھ ہوں گی۔ رہا یہ دھڑکا کہ حشر کی آپا دھاپی میں عوام کی عدالت میں ہماری گےشنوائی نہ ہو پائے۔ہم نے اس کا بھی حل تلاش کر لیا ہے. یہ ایک انقلاب آفرین منصوبہ ہے جس کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہم مستقبل کو ماضی بعید سمجھ کر جیتے ہیں۔ اس انقلاب آفریں طرز زندگی کا ثمر ہے کہ اب ہم صحیح معنوں میں عوامی جمہوریت جینے کا سوچ رہے ہیں۔ عدل و انصاف، جمہوریت، الیکشن، اور آئین جیسے مسائل کے جھنجٹ نے عوامی جمہوریت کا راستہ روکا ہوا ہے۔ ہم ان تمام اداروں کو ختم کرکے سارے معاملے عوام کی عدالت میں لے جائیں گے تاکہ عوام کی طاقت سے پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ماضی بعید میں رعایا رعایا ہوتی تھی اور بادشاہ بادشاہ۔ ۔ بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا یا بھائی بھتیجا بادشاہ بن جاتا تھا۔ آج کی زبان میں اسے صدر یا وزیر اعظم کہ دیا جائے تو کوئی ہرج نہیں۔ الیکشن کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہم نے الیکشن کا حل بھی نکال لیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن لڑ کے بھی تا حیات کی بجائےچند سال کی مدت دی جاتی ہے۔ اور وہ بھی پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ عوام کی عدالت کو اختیارات ہوں گے کہ ان سارے مسائل کو عوام کی مرضی کے مطابق حل کریں گے۔ آج کی عدالت کسی کو تا حیات نا اہل کر سکتی ہے لیکن تا حیات صدر نہیں بنا سکتی۔ عوام کی عدالت کو ہم مکمل اختیارات دیں گے کہ وہ کسی بھی شخص، ادارے، پورے آئین یا اس کی کسی شق یا دفعہ یا کسی بھی قانون کو نا اہل قرار دے سکے۔
یہ غلط فہمی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ اللہ کے فضل سےماضی بعید کی بعض عوامی عدالتیں پاکستان میں آج بھی کام کر رہی ہیں۔ آپ نے ان کے فیصلے بھی سنے ہوں گے۔ کوئی کسی خاتون کے ساتھ نعوذ باللہ جنسی زیادتی کرے تو اس کو کسی قانون اور اخلاق کے خوف سے آزاد ہو کر ایسی سزا دی جاتی ہے کہ مجرم ہی نہیں پورا ملک کانپ اٹھتا ہے۔ کہیں مجرم کی بہن کے ساتھ اسی قسم کی زیادتی کا حکم دیا جاتا ہے۔ کبھی خون اور زمین وغیرہ کے جھگڑے میں صلح کے لئے ونی، سوارا، یا وٹہ سٹہ کے ذریعے مصالحت طے کی جاتی ہے۔ یوں غریب، یتیم ، مسکین بچیوں کی شادیاں بچپن میں ہی جہیز کی ذمہ داریوں کے بغیر ادا ہو جاتی ہیں۔ خاندانی عداوت و منافرت محبت میں اور دشمنی بھائی چارے میں بدل جائے۔ خواتین کی عزت سب سے مقدم ہے۔اسی کو رہن رکھنے سے خاندان کی عزت قائم رہ سکتی ہے۔
ماضی بعید کے اس عدالتی نظام کو مزید توسیع دی جا سکتی ہے۔ پانچ پنچوں اور بارہ نفر جرگوں کی بجائے ایک جلسے کی صورت میں اجتماعی فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ جیسے اجتماعی نکاح ہوتے ہیں، اجتماعی طلاق اور خلع بھی ہو سکتے ہیں۔ الیکشن بھی منعقد ہو سکتے ہیں اور خارجہ پالیسیاں بھی طے کی جا سکتی ہیں۔ عوام سے ہاں یا ناں کرا کے ایک ہی دن میں سارے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ جلسے میں موجود عوام سے جو سامنے بیٹھے ہیں، جو دائیں کھڑے ہیں اور بائیں بیٹھے ہیں یا پیچھے ہیں سب سے علیحدہ علیحدہ پوچھ کر ہر طرح کا ابہام ختم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی عدالت میں سوال مختصر ہوتے ہیں بلکہ صرف یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ مجھے وزیر اعظم / وزیر اعلی/ صدر/ خادم اعلی/ سپاہ سالار مانتےہیں؟ ظاہر ہے عوام آپ کی خدمات اور اس سے بڑھ کر آپ کی محبت کو سامنے رکھتے ہوے ہاں ہی کریں گے۔ خاموشی بھی ہاں سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ قدیم کتابوں میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ عوام رو پڑیں یا ناں ناں کا شور مچائیں تو اسے بھی ہاں سمجھا جائے۔ کرپشن وغیرہ کے الزامات کے بارے میں بھی عوام کی عدالت سے اسی طرح غیر مبہم فیصلے لئے جا سکتے ہیں۔
آپ اندازہ کیجئے اس طرح سے انتخاب ہو تو نہ دھاندلی کے الزام ہوں گے، نہ دھرنے ہوں گے، نہ مارچ ہوں گے نہ ریلیاں۔ ہر طرف امن اور سلامتی۔ اگر آپ یہ سب کچھ چاہتے ہیں تو خوشخبری ہو کہ انتظار ختم ہوا۔عوام کی عدالت جلد آپ کی دہلیز پر پہنچنے والی ہے۔ تیار رہئے۔ جشن آزادی اور انقلاب مبارک۔
فیس بک پر تبصرے