نوازشریف کاسفر لاہور

1,152

پاکستان کی عمر 70 سال ہو چکی ، کئی وزیراعظم آئے اور اپنی  مدت پوری کئے بغیر چلے گئے ، حال ہی میں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے کی ہیٹرک مکمل کی ہے ۔ 2013ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت بنی تو وہ اپنے آغاز میں ہی دھرنوں جیسے بحران کا شکار ہونے لگی جنہیں حکومتی حلقے سازشیں قرار دینے لگے۔ ان بحرانوں کو پیدا کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان  پیش پیش رہے  جبکہ  ضرورت پڑنے پر عمران خان کے منہ بولے کزن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ  ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اپنا حصہ ملاتے رہے۔ بالآخر تقریباًٍ ساڑھے 4 سال بعد یہ کوششیں رنگ لے آئیں اور میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نااہل قرار دے دیا۔نااہلی کے بعد یوں لگ رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف پہلے سے زیادہ متحرک اور مضبوط ہوگئے ہیں، انہوں نے اسلام آباد سے لاہور واپسی کا سفر خاموشی سے نہیں  بلکہ ایک سیاسی ریلی کی صورت میں کیا ہے ۔

 نواز شریف نے اپنے کارکنوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے ساتھ سفر کرنا مناسب سمجھا ورنہ  2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن جب اپنے پارٹی چئیرمین عمران خان کے کہنے پر پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے تھے اور راستے میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل کھا رہے تھے ،ایسے  حالات میں بھی عمران خان نے اپنا کنٹینر نہ چھوڑا تھا ۔ اس وقت کارکن اور لیڈر کے درمیان ایک واضح لکیر نظر آئی ۔ اس دوران پاکستان تحریک انصاف کا کارکن جان سے بھی گیا  مگرعمران خان تب بھی باہر نہ آئے ۔  10 اکتوبر 2014ء کو ملتان کے قاسم باغ اسٹیڈیم میں  پاکستان تحریک انصاف کے 7 کارکن دم گھنٹے سے دوران جلسہ انتقال کر گئے تھےمگر عمران خان اس حادثہ کےبعد بھی ملتان سے اسلام آباد  سیدھے اپنے کنٹینرپر پنہچے تھے  ۔

  سیاسی ناقدین کی طرف سے نواز شریف  سے بار بار یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ عدلیہ اور فوج کے خلاف یہ احتجاج کر رہے ہیں ؟ یہ سوال پوچھنے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قمر الزمان کائرہ اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید پیش پیش رہے ۔ ایسے تمام سوالوں کاجواب نواز شریف نے اپنے ہر خطاب میں دیا  حالانکہ پوچھنے والوں سے بھی یہ سوال ہونا چاہیے کہ اگر واقعی نواز شریف کی نااہلی درست تھی تو آپ کیوں اپنے  اس سوال کے ذریعے فوج اور سپریم کورٹ کو متنازعہ بنا رہے ہیں ۔

“جمہوریت کے  تحفظ کےلئے ضروری ہے کہ نواز شریف جمہوریت پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کےقائدین کو اعتماد میں لیں تاکہ تحفظ جمہوریت کا سفر بہتر سے بہتر انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ “

نوازشریف ماضی میں کیے گئے  اپنے ہی اقدامات پربھی  شرمندہ  نظر آئے انہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی بھی مانگی  اور نہ صرف  سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو غلط قرار دیا  بلکہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی غیر آئینی کہا ۔اپنے خطابات میں آئین کی شق 62 اور 63 میں ترمیم کی تجویز بھی  پیش کرتے رہے ۔کئی بار  اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہونے والے نوازشریف  اب  دھتکارے جانے کے بعد واقعی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں  ۔ نواز شریف نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ آئندہ کیا کریں گے لیکن وہ آئندہ جو بھی کرنے والے ہیں ،اس میں اپنے کارکنوں سے ساتھ دینے کا وعدہ  ضرور لیتے رہے۔  نواز شریف کی چال ڈھال اور گفتار سے  یہی نظر آرہا ہے کہ وہ  اب رکنے والے نہیں ہیں ۔اب نوازشریف کے لیے  بہتر یہی ہو گا کہ ماضی کی تلخیوں اور ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے اقدامات کو بھلا کر سیاسی جماعتیں ایک بار پھر میثاق جمہوریت پر متفق ہوجائیں ۔جمہوریت کے  تحفظ کےلئے ضروری ہے کہ نواز شریف  پیپلز پارٹی ،جمعیت علماء اسلام (ف ) بلوچستان نیشنل پارٹی  اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین کو اعتماد میں لیں  کیونکہ جمہورت کے تحفظ کے لیے یہی جماعتیں بہتر کردار ادا کرسکتی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...