جماعت الدعوہ کا سیاسی چہرہ

1,401

جماعت الدعوہ نے اپنے سیاسی ونگ کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاست جماعت الدعوہ کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس کا سیاسی ونگ کافی عرصے سے فعال ہے، لیکن ایک سیاسی ونگ کا ایک باقاعدہ پارٹی کا روپ دھارنا یقینا دلچسپ یے۔ نئی پارٹی کا نام ملی مسلم لیگ(ایم ایم ایل)رکھا گیا ہے اور دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک عسکری گروہ کے سیاسی ونگ کوکیسے رجسٹرڈ کرے گا۔

یہ اقدام ایسے وقت میں ہوا جب ملک سیاسی شورش کا شکار ہے اور نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اس عمل کو مخصوص اسٹیبلشمنٹ حلقوں کی جانب سے قومی دھارے کیسیاست میں بڑھتے ہوئےاینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کو کچلنے کے لیے دائیں بازوں کی جماعتوں کو متحد کرنے اور اور سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹاپنے اثاثوں کو ڈرائی کلین کررہی ہے تاکہ انہیں ایک بڑے سیاسی انتخابی اتحاد کے حصہ کے طور پر پیش کریں جس میں وہ گروپ اور جماعتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں جو دفاع پاکستان کونسل کاحصہتھیں۔ دفاع پاکستان کونسل ۲۰۱۲ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دباو کے ایک عامل اور حکومت کی جانب سے بھارت کو سب سے زیادہ پسند قوم کی حیثیت دینے کا فیصلہ مسترد کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

اسلام آباد میں ایک چھوٹی سی افتتاحی تقریب میں ایم ایم ایل کے رہنماوں نے کہا کہ پارٹی کے فوری طور پر دو اہداف ہوں گے:آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو ختم کرنے کی کوششوں کو روکنا ، نظریہپاکستان کی حفاظت کرنا۔ اور دوسرا مقصد واضح طور پر کشمیری جدوجہد آزادی کی حمایت کرنا۔ یہ تمام دائیں بازو کی جماعتوں کا طریقہ واردات ہے تاکہ اپنے حقیقی مقاصد کو نظریاتی اہداف کا جامہپہنا کر وسیع پیمانے پر قومی حمایت حاصل کی جا سکے اور مخالفین پر دباو ڈالا جاسکے ۔

بہرحال،سیکیورٹی کئی تجزیہ کار اس اقدام کو سیکیورٹی کونسل کی طرف سے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیے جانے والے گروپوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان پرعالمی دباو میں اضافہ کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر، دہشت گردی کے لیے مالیاتی ذرایع کی کرنے والی بین الاقوامی نگرانی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے خدشات، زیادہ سنگین ہوگئے ہیں۔ایف اے ٹی ایف(فنا نشل ایکشن ٹاسک فورس) جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید اور ان سے منسلک اداروں بالخصوص جماعت الدعوہ کے فلاحی ونگ فلاح انسانیت فاونڈیشن سے متعلق حکومت کے موقف سے خوش نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسفک گروپ پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ جماعت الدعوہ اور اس سے منسلک اداروں کے خلاف سخت فیصلے کرے. اخباریرپورٹوں کے مطابق حافظ سعید کے قائم کردہ متعدد گروپوں میں سے ایک۔ جموں کشمیر کی تحریک آزادی پر پابندی عائدکرنا ، اور حافظ سعید کو حفاظتی حراست میں لینا بین الاقوامی رقوم کے تبادلے پرپابندی سے بچنے کے لئے حکومت کی کوششوں کا حصہ تھا ۔

اس کے باوجود بعض تجزیہ کار ایم ایم ایل کی آمد کو پاکستان کی عسکریت پسندوں کی واپسی اور بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حصہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ کوئی ایسے شواہدموجود نہیں جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ حکومت عسکر یت پسندوں کی بحالی کا کوئی ارادہ بھی رکھتی ہے۔. ایم ایم ایل کا قیام ایک عسکریت پسند تنظیم اور اسکے ماسٹروں کا پلان لگتا ہے کہ بینالاقوامی پابندیوں سے بچا جا سکے۔اور جماعت الدعوہ اور اس کے خیراتی اداروں کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرا کے ذرائع ابلاغ میں اس کے لیے سانس لینے کے لیے گنجائش نکالی جاسکے۔ ۔جماعت الدعوہ اپنی سرگرمیوں کی کوریج پر پابندی عائدکیے جانے کی وجہ سے حکومت کے اقدامات سے خوش نہیں ہے. دوسری طرف، یہ تنظیم خود کو پاکستان کے نظریاتی مفادات کے محافظکے طور پر خود کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی کے طور پر پیش کرتی ہے.سیاسی جماعت کا قیام بھی اس تاثر کو ختم نہیں کر رہا ہے۔

جہاں تک عسکریت پسندوں کی بحالی کا تعلق ہے تو یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور انسداد دہشتگردی کے لیے ضروری ہے. پاکستان میں بحالی کا جو خاکہ موثر ثابت ہوسکتا ہے اس پر علمی حلقوں میںکئی بار بات چیت ہوئی ہے. یاد دہانی کے لیے اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ،حال ہی میں ماہرین نے ایسے عمل کی پارلیمنٹ کے زیر نگرانی ہونے کی حمایت کی ہے. تجاویز میں کہا گیا کہ ایک طاقتورمصالحتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو انتہاپسندی پیدا کرنے والی پالیسیوں کا جائزہ لے اور تشدد ترک کرنے پر آمادہ افراد کو قومی دھارے میں لائے ۔مشاورتی گروپس کے ماہرین نے نادم عسکریگروہوں کی عام معافی کی مخالفت کی اور عسکریت پسند گروہوں کے طرز عمل کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک مناسب طریقہ اختیار کرنے کی تجویز دی تاکہ ان کی بحالی کی حد کا فیصلہ کیا جا سکے۔

شاید کوئی ایم ایم ایل کی تشکیل کو زبردستی بحالی کی کوشیش قرار دے۔ بیرونی دباو اور داخلی سلامتی کی بدلتی ہوئی حرکیات نے جماعت الدعوہ اور اس کے بڑوں کو مجبور کیا کہ وہ ڈی ریڈکلائشن اوربحالی کے نعروں سے فائدہ اٹھائیں۔ایم ایم ایل جماعت الدعوہ کا سیاسی ونگ ہے اور یہ ہماری تاریخ میں ایک منفرد معاملہ ہو گا کہ اگر کسی عسکریت پسند تنظیم کا سیاسی ونگ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ ہو جائے۔

ابھی تک کچھ لوگ پرامید ہیں کہ ایم ایم ایل کی شکل میں آنے سے جماعت الدعوہ اس جمہوری انتخابی سیاست میں رسمی طور پر اندراج کرائے گی جسے اب تک وہ حرام تصورکرتی آئی ہے۔ جماعتالدعوہ جمہوریت اور آئین یا انسان کے بنے ہوئے قانون کے خلاف بڑی مقدار میں لٹریچر تخلیق کرتی رہی ہے۔ جماعت کے جمہوریت مخالف نظریات اور طرز عمل کا مختصر پس منظر قافلہ دعوت وجہاد نامی ایک کتاب میں پڑھا جا سکتا ہے جو کہ جماعت الدعوہ کے بانی ممبر امیر حمزہ کی تصنیف ہے۔ درحقیقت جماعت الدعوہ کا وہی نقطہ نظر اور جمہوریت مخالف رویہ ہے جس کی القاعدہ اورداعش (دولت اسلامیہ) جیسے بین الاقوامی دہشتگرد گروپوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کو داعش میں شمولیت اختیار کرنے سے روکنےکے لیے جماعت الدعوہ نے دولت اسلامیہ اور اس کے نظریہ تکفیر (عام مسلمانوں یا مسلم حکمرانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا) کے خلاف بیس سے زائد کتابچے شائع کیے۔ان کتابوں میں سعودیعلما کی تصنیفات کے اردو تراجم بھی شامل ہیں۔

جمہوری عمل میں شرکت سے ممکن ہے جماعت الدعوہ کے رہنماوں کو اپنے تنگ سماجی خیالات و نظریات پر نظرثانی کا موقع ملے۔ جہاں تک مرکزی دھارے کی سیاست کا تعلق ہے تو ایم ایم ایل ایکدائیں بازو کی جماعت کے طور پر کام کرے گی اور پرو اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے پر کام کرے گی۔ایک ایسی پارٹی کی گنجائش موجود تھی جو انتہائی دائیں بازو کے بکھرے ہوئے عناصر کو ایک جھنڈے تلےمنظم کرے،ماضی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام نے ایسی خدمات فراہم کیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں نے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ سے دور رکھنے کا ارادہ کیا ہے۔دائیں بازو کی جماعتیں مرکزی دھارے کی کی جماعتوں انتخابی بنیاد کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتیں لیکن مذہبی،سماجی اور علاقائی مسائل پر ان کے نظریات کو چیلنج کرسکتی ہیں۔شاید ایم ایم ایل کے قیام کے مقاصد میں سے یہ بھی ایک مقصد ہے۔

(بشکریہ ڈان، ترجمہ عاطف ہاشمی)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...