مجھے کیوں نکالا گیا؟
“میں ابھی یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ مجھے ہر دفعہ مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی” یہ الفاظ تھے پاکستان کے تین دفعہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے جو دریا جہلم کے کنارے ایک خوبصورت ہوٹل میں عشائیے پر گہری سوچ میں گم بیٹھے تھے۔ میں نے جب یہ سوال پوچھا تو خود کو پہلے ہی محدود کردیا اور درخواست کی صرف دو یا تین بڑی وجوہات بتادیں جس کی وجہ سے ہر بار نواز شریف کو مدت پوری کرنے سے پہلے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔سابق وزیرا عظم نے میرا سوال اطمینان سے سنا اور کچھ دیر سر ہلاتے رہے، دیر اتنی ہو گئی کی مجھے گمان ہوا کہ میرا سوال ان کی طبعیت پر ناگوارگزرا ہے یا پھر وہ کھانے میں مشغول ہو گئے ہیں لیکن اب نوازشریف ایک ایک سیکنڈ کا حساب رکھ رہے تھے جیسے ان کو اس کھانے کا منی ٹریل بھی دینا پڑ سکتا ہے، میری امید مکمل ٹوٹنے سے پہلے وہ اپنے دائیں جانب میری طرف متوجہ ہوئے اور پھر وہ بولتے گئے۔ عوامی خطابات میں انھوں نے کھل کر اپنا مدعا واضح کیا اور کہا کہ 70 سالوں میں نظام کو نہیں چلنے دیا گیا۔
قوم کے 30 قیمتی سال تین ڈکٹیٹرز کھا گئے، باقی 18وزراءاعظم کو صرف ڈیڑھ سال اوسطاً حکومت کرنے کا موقع ملا۔ نوازشریف کی ریلی کا انداز باغیانہ تھا۔ انکی تقاریر میں سپریم کورٹ کے ججز “لوگ” بن گئے اور ریاستی ادارے “یہ” اور “وہ بنتے نظر آئے-نوازشریف سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ان میں عدلیہ کا کردار، مشرف غداری کیس اور مشترکا تحقیقاتی ٹیم زیر بحث رہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ انھوں نے جنرل مشرف کو ان کے غیرآئینی اقدامات پر کٹہرے میں لا کھڑا کردیا لیکن عدلیہ نے اس کیس کو غیر ضروری طور پر طوالت دی۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ عدلیہ اسے کبھی منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے باہر جانے کی اجازت نہیں دے گی لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مشرف کو اس عدلیہ نے باہر جانےکا پروانہ جاری کردیا-نواز شریف ہر جملہ بولنے سے پہلے کچھ دیر سوچتے تھے اور پھر بات آگے بڑھاتے۔ انہوں نے بہت سی بامطلب اور واضح چیزیں بھی بیان کیں مگر مزاحاً۔ جے آئی ٹی کے واجد ضیاء پر تنقید کرتے ہوئے بولے کہ انہیں مشرف غداری کیس میں تحقیقاتی ٹیم کا حصہ بنایا گیا مگر یہ مشرف ہاوس کے باہر اس کا انتظار کرتے رہتے۔ اس وقت کہاں تھے یہ سب اصول پسند اور آزاد تفتیشی افسران؟
نواز شریف نے مجھ سے سوال کیا اور کہا کہ کیا آپ نے گارڈین دیکھا، نیویارک ٹائمز پڑھا، جتنا بھی عالمی میڈیا ہے اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ عدلیہ نے یہ کیسا فیصلہ دیا ہے۔ شاید نواز شریف عالمی میڈیا میں چھپنے والے کارٹونز کا بھی حوالہ دے رہےتھے جن میں ایک طرف فوج اور دوسری طرف عدلیہ کے ملاپ کو اس فیصلے کی بڑی وجہ قراردیا گیا تھا-انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ایک صحافی نے طنزیہ اور منفی لہجے میں یہ کیوں کہا کہ نوازشریف طیب اردوان بننا چاہتا ہے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عالمی رہنماوں کی طرف سے بھی ان کو خیر سگالی کی فون کالز موصول ہوئی ہیں- جی ٹی روڈ پر آنے والوں نے بھی نواز شریف کو ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بنانے کی ضد کا اعادہ کیا۔ سیاسی حریف عمران خان نے تو نواز شریف کے اسقبال کے لیے آئے لوگوں کو بے وقوف قراردیا۔ جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ جی ٹی روڈ والے سپریم کورٹ کے فیصلےاور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے کام سے نالاں نظر آئے اوریہ کہتے رہے کہ سازش کر کے ہمارے وزیر اعظم کو گھر بھیجا جا رہا ہے۔ باہر نکلنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔
اگر عوام کی عدالت کا فیصلہ سنایا جائے تو اس ریلی سے ایک بات جو سمجھ میں آئی وہ یہی ہے کہ آئندہ پشین، پبی اور قلعہ عبداللہ کا وزیر اعظم تو نااہل ہو سکے گا لیکن جی ٹی روڈ کا ڈومیسائل رکھنے والا کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرے گا۔ جی ٹی روڈ والوں کے کیسسز تو عدالتوں میں بھیجے جائیں گے لیکن وہ سرد خانے کی نذر ہوجایا کریں گے جیسے بعض مضبوط ڈومیسائل رکھنے والے اداروں اور ان سے متعلق افراد کے کیسز عدلیہ میں محفوظ ہیں ۔
فیس بک پر تبصرے