“مالکی یا موت”

1,545

اوکاڑہ کے ملٹری فارمز کے چھوٹے کسانوں کی جاری جدوجہد ایک نئے موڑ پر .

گزشتہ دنوں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب اور لاہور پریس کلب کے باہرپنجاب کے ضلع اوکاڑہ کی انتہائی زرخیز زمین پر واقع ملٹری فارمز کے مزارعین ایک بار پھر نوحہ کناں تھے ملٹری فارمز کے مزارعین اور کاشتکاروں کا زمین کی مالکی کا جھگڑا تقریباً 15سال پہلے شروع ہوا۔ جب آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس زمین سے انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ لیکن اس دفعہ تو مزارعین اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج تھے ۔ ضلعی پولیس اور انتظامیہ نے 17اپریل کو جو کہ عالمی سطح پر چھوٹے کاشتکاروں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس روزمزارعین کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے کنونشن منعقد نہیں کرنے دیا ۔ بقول انتظامیہ وجہ دہشت گردی کا خطرہ تھی ۔ مزارعین کی تنظیم انجمن مزارعین پنجاب اس کنونشن کے سلسلہ میں اشتہار چھاپ چکی تھی۔چند ہزار کے قریب کسان خواتین و حضرات اس جلسہ میں شرکت کی بھرپور تیاری کر رہے تھے ۔ لیکن اس تیاری سے ایک دور وز پہلے ہی پولیس نے ان دیہات میں چھاپا مارا اور انجمن مزار عین پنجاب کے سیکرٹری مہم عبدالستار اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا ۔ جس پر انجمن نے فیصلہ کیا کہ 17اپریل کو نہ صرف کنونشن منعقد ہو گا بلکہ احتجاج بھی درج کرایا جائے گا۔

 کیا حقوق کی آواز بلند کرنا دہشت گردی ہے ؟ کیا ہمیں اپنے حق ملکیت کے احتجاج کے لئے ملک دشمن قرار دیا جائے گا؟ اوکاڑہ کے یہ تقریباً ایک لاکھ مزارعین 17ہزار ایکٹرزمین کی ملکیت کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں یہ زمین برطانوی سامراج کے دور میں فوج کو 1915میں لیز پر دی گئی تھی ۔

ضلع اوکاڑہ کے انتظامی افسر (DCO)حال ہی میں تعینات ہونے والے سقراط امان رانا کہتے ہیں کہ 27مارچ کو گلشن اقبال پارک لاہور میں دھماکے کے بعد حکومت کی طرف سے سخت ہدایات ہیں کہ کوئی بھی بڑی سطح پر عوامی اجتماعات کا انعقاد بغیر مکمل سیکورٹی کے منعقد نہ کرے ۔ اورنہ ہی ایسا واقعہ ہو جس سے نقصان کا خطرہ ہو یا پھر شرارتی اور دہشت گرد عناصر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکیں ۔ ڈی سی او نے مزید کہا کہ پولیس کوخفیہ ذرائع سے معلومات مل چکی تھی کہ مزارعین کنونشن کی آڑ میں احتجاج کرنے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ضلع انتظامیہ نے مزارعین کی ان حالات میں جب کہ نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں عملدرآمد  کی سختی ہے ، کنونشن کرنے سے منع کر دیا تھا لیکن وہ باز نہیں آئے ۔ نتیجتاًپولیس کو حرکت میں آنا پڑا ۔ چار ماہ پہلے تعینات ہونے والے ڈی سی او نے مزید کہا کہ انجمن مزارعین پنجاب کے گرفتار ، عہدیدارپہلے ہی کئی جرائم میں ملوث ہیں اور ان پر بھتہ خوری دہشت گردی اور اسلحہ رکھنے کے حوالے سے دو درجن سے زائد مقدمات درج ہیں انہوں نے کہا کہ یہ عہدیدار جو خود کو چھوٹا کاشتکار اور ان کا نمائندہ کہتے ہیں بڑے بڑے گھروں اور بڑی بڑی گاڑیوں میں رہتے ہیں اور خطر ناک اسلحہ بھی پاس رکھتے ہیں علاقے کے حقیقی مزارعین ان کی بھتہ خوری جوکہ چندہ کے نام پر جاری ہے سے  بہت تنگ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ گرفتار یاں اس ضمن میں عمل میں لائیں گئیں ۔

17اپریل کو صبح جب سیکڑوں مزارعین اپنے اعلان کردہ احتجاج کے لئے باہر نکلے تو بہت بڑی تعداد میں پولیس نے ان کا گھیراو کر لیا اور بری طرح ان پر ڈنڈے اور آنسو گیس برسائی ۔ بہت سے مرد و خواتین مزارعین زخمی ہوگئے ۔


“جب ہم احتجا ج کے لئے نکلے تو پولیس نے مار پیٹ شروع کر دی ” ۔ وہ بے لحاظ طریقے سے تشدد کر رہے تھے ۔ خواتین کو بھی بری طرح مار اپیٹا گیا۔یہ کہنا تھا ایک متاثرہ خاتون کاشتکار شہناز بی بی کا وہ کہتی ہیں کہ کیا حقوق کی آواز بلند کرنا دہشت گردی ہے ؟ کیا ہمیں اپنے حق ملکیت کے احتجاج کے لئے ملک دشمن قرار دیا جائے گا؟ اوکاڑہ کے یہ تقریباً ایک لاکھ مزارعین 17ہزار ایکٹرزمین کی ملکیت کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں یہ زمین برطانوی سامراج کے دور میں فوج کو 1915میں لیز پر دی گئی تھی ۔

2002میں آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کا شتکاروں کی زمینوں سے بے دخلی اور ٍ  فوج کو ملکیت دینے کی کوشش کی گئی اور مزارعین کو کہا گیا کہ آپ یہ زمین بطور ٹھیکہ دار (کرائے دار ) کاشت کریں ۔

کسان آدھی فصل مالک یعنی فوج کودیتے تھے ۔ 2002میں آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کا شتکاروں کی زمینوں سے بے دخلی اور ٍ  فوج کو ملکیت دینے کی کوشش کی گئی اور مزارعین کو کہا گیا کہ آپ یہ زمین بطور ٹھیکہ دار (کرائے دار ) کاشت کریں ۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ آپ زمین کی ملکیت کے دعویٰ سے بے دخل اور بطور کرائے دار کام کریں گے۔ اور ہمیں بے دخلی منظور نہ تھی۔ ہماری کئی نسلیں ان زمینوں کی کاشت کر رہی ہیں ۔ آئین پاکستان اور ملکی قانون کی رو سے اس زمین کی ملکیت پر پہلا حق ہمارا ہے ۔ حتیٰ کہ ہم اس کی سرکاری مقررہ قیمت بھی اد ا کرنے کو تیا ر ہیں ، یہ کہنا تھا لیاقت علی چیئر مین انجمن مزارعین پنجاب کا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیکے داری ہمیں کسی طور پر قبول نہیں ۔یاتو پہلے والابٹائی کا طریقہ یا حق ملکیت دی جائے۔

لیاقت علی نے دعوا کیا کہ پولیس نے 17اپریل کو ان کے 35سے زائد مرد و خواتین کارکنان گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ بنا دیا ۔ کیا ہم محب وطن پاکستانی نہیں کیا اس زمین جو ہمارے آباﺅ اجداد کئی دہائیوں سے آبا د کررہے ہیں کا حق ملکیت مانگنا سنگین جرم ہے؟ لیاقت علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے رہنماﺅں پر بنائے والے مقدمات جعلی ہیں اور یہ مزاحمتی تحریک کو دباﺅ اور ڈرا کرختم کرنے کی کوشش ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے ۔پریس کلبوں کے باہر احتجاج میں بزرگ اورخواتین مزاراعین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پرلکھا تھا” مالکی یا موت“ اور ”اوکاڑہ کے خواتین مزارعین کو سرخ سلام“ ۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ مزارعین کی یہ مزاحمتی تحریک ایک دہائی کے زیادہ سے عرصہ جاری ہے لیکن ریاست ان کو حقوق دینے سے گریزاں ہے۔ 

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ مزارعین کی یہ مزاحمتی تحریک ایک دہائی کے زیادہ سے عرصہ جاری ہے لیکن ریاست ان کو حقوق دینے سے گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس زمین سے ان مزاراعین کو جو ایک صدی سے کام کررہے ہیں بے دخل کرنا زیادتی اور خلاف آئین و قانون ہے اور اس زمین پر پہلا حق ملکیت انہی کاشتکاروں کا ہے۔ ان کا یہ بھی کہناتھا کہ انتہائی قابل افسوس امر ہے کہ اب ریاست اور حکومت اس طرح نیشنل ایکشن پلان کا نام استعمال کرکے ان مزارعین کی جدوجہد کوختم کرنے کی کوشش کرے او راس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے ان پر تشدد کیا جائے۔ کیا نیشنل ایکشن پلان مزارعین کی اس جدوجہد کو کچلنے کے لئے رہ گیا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی  جو کہ بائیں بازو کو تنظیموں پر مشتمل ایک سیاسی جماعت بھی مزارعین کے حقوق کے لئے بھر پور آواز بلند کرتی رہی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے انجمن مزارعین پنجاب کے سیکرٹری مہرجنرل عبدالستار اس مزاحمتی تحریک کی مضبوطی کے لئے سیاسی سطح پر بھی جدوجہد کرتے رہے ہیں ۔اسی تناظر میں اپنے مزارعین اور ہم خیال جماعتوں اورگروہوں کی مدد سے اپنی یونین کونسل میں تین دفعہ ناظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے حلقہ سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیا اورکئی ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔

اس وقت بھی انجمن مزارعین پنجاب کے کئی کارکن یونین کو نسل کے انتخابات میں حصہ لے کر عوامی نمائندے منتخب ہوچکے ہیں۔ جب ضلع اوکاڑہ کے ڈی سی او سقراط رانا سے پوچھا گیا یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس کی نظروں میں ایسا جرائم پیشہ مطلوب شخص اور دہشت گردی کا ملزم انتخابات میں حصہ بھی لے اورجیت بھی جائے اور پولیس منہ دیکھتی رہے کیا اس سارے انتخابی عمل میں ضلعی انتظامیہ حرکت میں نہ آئی تو انہوں نے حیرانگی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ہاں واقعی یہ ایک اہم سوال ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...