پاکستان اور بانی پاکستان کا نظریہ
11 ستمبر1948 کو پاکستان بننے کے محض ایک سال بعد ایک پروازکراچی میں پاک فضائیہ کے اڈے پراتری جس میں پاکستان کے بانی اور اس وقت شدید تب دق کے مرض مبتلا قائد اعظم محمد علی جناح موجود تھے۔ قائد اعظم کی کراچی میں واقع ڈاون ٹاون رہائش گاہ سے انہیں 30 منٹ دورموجود ایک ہسپتال میں لے جانے کے لیےایمبولینس کا بندوبست کیاگیا جس نے اپنی منزل کا ابھی آدھاراستہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ خراب ہوگئی، پیچھے دوسری ایمبولینس کا انتظام کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا، لہٰذا جناح کو اسٹریچرپر ڈالا گیا اوروہ دو گھنٹے گرمی میں ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے، بعد میں اسی شام انتقال کرگئے۔ جناح کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے انہیں کوئٹہ اس امید پر روانہ کیا تھا کہ پہاڑی علاقے کا خشک موسم انکی بہتری میں مدد کرے گا مگرکوئٹہ میں جب انکی صحت بحال نہ ہوسکی تو انہیں کراچی منتقل کیا گیا۔
1937 سے 1947 تک جناح نے برصغیرکے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے تصور کے ساتھ مسلم لیگ کی قیادت کی تھی۔ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اور جناح نے پہلے گورنرجنرل کے طور پرنئی جمہوریت کی قیادت کی۔جناح نے پاکستان کی پہلی آئینی اسمبلی میں کیے جانے والے اپنے خطاب میں پاکستان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بغیر کسی الجھاو کے پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی مساجد،مندراور دیگر عبادات والی تمام جگہوں پر جانے کے لیے آزاد ہیں کیونکہ ریاستی معاملات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جناح نے اپنے اس خطاب میں مذہب اورقومیت سے ہٹ کرتمام پاکستانیوں کے لئے یکساں شہریت پرزوردیا۔
جناح کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد وزیراعظم لیاقت علی خان جوکہ جناح کے نائب بھی تھے، نے چنداصول پیش کیے جو کہ قرارداد مقاصد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ کئی پروگریسیو اخبارات جاری کرنے والے اور پروگریسیوپیپرزگروپ لیمیٹڈ کے بانی میاں افتخاالدین اسمبلی کے واحد رکن تھے جنہوں نے لیاقت علی خان کی اس قرارداد کی مخالفت کی مگر 12 مارچ 1949 کو مسلسل پانچ دن کی بحث کے بعد یہ قرارداد منظور ہوگئی اور یوں قائداعظم کے نظریات کو ختم کردیا گیا۔ اس قرارداد کی منظوری سے پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان بنااوراسلام ریاست کا مذہب بن گیا۔
یکساں شہریت کا نظریہ ایک ایسا نظریہ تھا جو سول حکومت اورپاکستان کی مسلح افوج کے درمیان ایک فرق برقرار رکھتا،یہی وہ نظریہ تھا جو پاکستان کو سول ملٹری تناوسے بھی محفوظ رکھ سکتا تھا۔ 14 جون 1948 کو قائد اعظم نے کوئٹہ کی تربیتی اکیڈمی میں مسلح فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اعلیٰ اختیارات حکومتی سربراہ سے شروع ہوتے ہیں جوکہ گورنرجنرل ہوتا ہےاورایگزیکٹیواتھارٹی کی اجازت کے بغیرآپ کو کوئی بھی فرمان یا حکم نہیں دیاسکتا۔
پاکستان میں جناح کی سویلین بالادستی کا خواب 1958 میں ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھ ہی چکنا چور ہوگیا تھا۔ امریکہ نے ایک دہائی تک فیلڈ مارشل ایوب خان کی حمایت کی اور اس عرصے میں امریکہ کی سرد جنگ پاکستان میں پھیل گئی اور پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف بعض معاہدوں میں شمولیت بھی اختیار کی۔ایوب خان نے1969 میں شدیدعوامی احتجاج کے بعد استعفیٰ تو دے دیا مگر اس کے ساتھ جناح کا سیولین بالادستی کا نظریہ بحال نہ ہوسکا۔
1970 کے قومی انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نےکامیابی حاصل کی مگر مشرقی پاکستان کے نسلی بنگالیوں کے ساتھ جاری امتیازی سلوک نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کردیا جس سے بنگلہ دیش وجود میں آیا۔بھٹواگرچہ ایک ترقی پسند سیاستدان تھے مگرانہوں نے جناح کے نقطہ نظرسے انحراف کرتے ہوئےاحمدی اقلیتی فرقے کوغیرمسلم قراردینے کا اعلان کیا۔ جنرل ضیا کا ستارہ اس وقت چمکا جب 1979 میں افغانستان پر روس نے حملہ کیا۔ جنرل ضیا کی انٹیلی جنس سروس نے سی آئی اے اورسعودی سیکورٹی ایجنسیز کے ساتھ سوویت یونین سے لڑنے کے لیے پاکستان میں جہادی تنظیموں اور جہادی نظریات کوفروغ دیا۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اعلیٰ اختیارات حکومتی سربراہ سے شروع ہوتے ہیں جوکہ گورنرجنرل ہوتا ہےاورایگزیکٹیواتھارٹی کی اجازت کے بغیرآپ کو کوئی بھی فرمان یا حکم نہیں دیاسکتا۔ (قائد اعظم کا کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب)
بانی پاکستان کے نظریات سے انحراف اور آمروں کی غلط پالیسیوں کا آج یہ نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرف لہو بہہ رہا ہے،روشن اقدار اپنانے اور پاکستان کو تمام تنازعات سے بچانے والے نظریات پر مشتمل قائد کی تقریروں کو اب میڈیا سے ختم کردیا گیا ہے۔ ظالمانہ قوانین کا ڈول ڈالا جارہا ہے اور نصاب تعلیم میں تاریخ کو مسخ کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اب تو پاکستان میں فرقہ پرست تنظیمیں جہاں شیعہ اور دیگر فرقوں کو غیرمسلم قرار دیتی ہیں وہیں وہ اپنے آپ کو جناح کی میراث کا نمائندہ بھی قرار دیتی ہیں۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ ظہو ر اسلام )
فیس بک پر تبصرے