نوازشریف آؤٹ، کلثوم نواز ان
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سزا یافتہ افراد کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کا امیدوار بننا ممنوع قرار دیا گیا تھا جب کہ اس کے علاوہ امیدوار کی کم از کم تعلیمی اہلیت بی اے یعنی چودہ سال تک کی تعلیم مقرر کی گئی تھی۔ سزا یافتہ افراد تو ایک طرف لیکن قانون ساز بننے کے لیے بی اے تک کی تعلیم کا ہونا بہت سے سیاست دانوں کے لیے ایک کڑا چیلنج تھا۔میدان سیاست میں سرگرم خاندانوں نے اس کا توڑ یہ ڈھونڈا کہ وہ اپنے خاندان کے اُن نوجوان مرد و خواتین اُمیدواروں کو میدان سیاست میں لے آئے جن کا سیاسی تجربہ تو نہیں تھا لیکن اُن کے پاس بی اے کی ڈگری اور خاندانی سیاسی ورثہ ضرور تھا۔ یوں اُن خاندانوں کا کنٹرول اپنے اپنے حلقوں کی حد تک برقرار رہا کیونکہ کوئی بھی شخس اپنی اجارہ داری آسانی سے ختم نہیں ہونے دیتا۔ان حالات میں ملک کی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت سے کچھ مختلف رویہ اختیار کرنے یا روایتی طریقے سے ہٹ کر کچھ کرنے کی توقع رکھنا خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے۔
کئی برسوں تک انتخابی سیاست سے دور رہنے والی کلثوم نواز ایک مرتبہ پھرسیاست میں واپس آ گئی ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے انکے شوہر کی نااہلی اس کا بنیادی سبب ہے۔ ابتداء میں مسلم لیگ (ن) نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مرکز میں بطور وزیراعظم لانے کے لیے الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ 2018 کے عام انتخابات تک پنجاب میں شہباز شریف کا رہنا ضروری ہے،کچھ سیاسی و قانونی وجوہات اس کے علاوہ بھی بیان کی گئیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد کلثوم نواز کا قومی سیاست میں کیا کردار ہوگا،ابھی یہ واضح نہیں۔
اس سے قبل 1999 میں جب اُس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے اُنھیں گرفتار کر لیا تھا تو کلثوم نواز نے (ن) لیگ کی قیادت کی تھی اور بڑی حد تک کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ کارکنوں کے ساتھ مسلسل رابطوں،ریلیوں اور احتجاجی تحریک میں پیش پیش رہنے کی وجہ سےاُنھیں سیاسی مزاحمت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اُنھوں نے اپنے طور پر عوامی مہم بھی چلائی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نا چل سکا اور پھر نوازشریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب منتقل ہو گئے۔
نواز شریف کی 2007 میں وطن واپسی کے بعد سے اُن کی 28 جولائی 2017 کو بطور وزیراعظم نا اہلی کے عدالتی فیصلے تک کلثوم نواز عملی سیاست سے دور رہیں اور بظاہر یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اب کلثوم نواز نہیں بلکہ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی انتخابی سیاست میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ پاناما کیس میں مریم نواز کا نام سامنے آنے اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے نے سردست مریم نواز کو عملی سیاست سے دور کردیا ہے۔ کلثوم نواز کو سامنے لانے کا مقصد علامتی بھی ہوسکتا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ نواز شریف کا پارٹی میں کردار ختم نہیں ہوا۔ بلاشبہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کا چہرہ اور پہچان ہیں لیکن عدالت سے نا اہلی کے بعد پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نواز شریف کو اپنی جماعت کی صدارت کا منصب بھی چھوڑنا پڑاہے۔ جماعتی قیادت اور کارکنان پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنا نوازشریف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ مسلم لیگ کے قائم مقام صدر کے لیے سردار یعقوب ناصر کی نامزدگی سے بھی کچھ لوگ جن میں سے ایک چوہدری نثار بھی ہیں، خوش نہیں ہیں۔ دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں کہ کلثوم نواز کو لاہور کے حلقے سے اُمیدوار نامزد کرنے پر بھی شریف خاندان کا مکمل اتفاق نہیں تھا۔
1999 میں جب اُس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے اُنھیں گرفتار کر لیا تھا تو کلثوم نواز نے (ن) لیگ کی قیادت کی تھی اور بڑی حد تک کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ کارکنوں کے ساتھ مسلسل رابطوں،ریلیوں اور احتجاجی تحریک میں پیش پیش رہنے کی وجہ سےاُنھیں سیاسی مزاحمت کی علامت سمجھا جانے لگا
حلقہ این اے 120 ہمیشہ سے نواز شریف کا ایک مضبوط گڑھ رہا ہے اور2013 کے عام انتخاب میں اُنھوں نےتحریک انصاف کی یاسمین رحمان کو اسی حلقے سے شکست دی تھی۔ میاں نوازشریف نے اس حلقے سے لگ بھگ 91ہزار ووٹ لیے تھے جبکہ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین رحمن نے 50ہزار سے زائد ووٹ لیکر سب کو حیران کردیا تھا۔ یاسمین رحمان اس مرتبہ بھی کلثوم نواز کے مقابل ہیں اور کلثوم نواز کی اس حلقہ سے کامیابی ہی مسلم لیگ ن کے مستقبل کی سمت متعین کرے گی۔
فیس بک پر تبصرے