سائے؛ جو رینگتے ہوئے ہمارے قدموں کو آگئے ہیں

1,048

سائے  اپنے کرداروں اور منفرد موضوع کی مناسبت سے ایک خاص ناو ل ہے ۔ عامر رانا نے ایک ایسے ماحول کے پروردہ کرداروں سے  اس کہانی کو تشکیل دیا ہے جو اپنے کھُلے سبھا اور طور طریقوں کے حامل ہوتے ہوئے اپنے اندر ایک خاص طرح کی پُر اسراریت لیے ہوئے ہیں۔ ناول کی فضا بہت حد تک بھیدوں بھری ہے۔ناول کے بہت سے کرداروں کا سروکار پاک ٹی ہاﺅس کے ارد گرد، مال روڈ، داتاؒ دربار، موج دریاؒ اور ترت مرادؒ کے مزار کے ساتھ ساتھ ریگل اور اس کے نواح سے رہتا ہے۔ناول کا مرکزی کردار جس کا بیانیہ پورے ناول پر سائے ہی کی طرح لہراتا رہتا ہے، ہمیں اپنے بچّے، عافیہ، امجد، نصو، سسّی، رفیق، جانو سقّہ ، لال پل والی بیگم، پُل، گولی مارنے والوں اور دیگر سے متعارف کرواتا بلکہ کہنا چاہیے کہ متعارف ہی نہیں کرواتا، ان کی کہانی سناتا ہے اور سکرین پلے بناتا چلا جاتا ہے۔

سائے میں بھی مرکزی کردار کو کافکا کے “حصار”(قلعہ) کے مرکزی کردار کا سا مسئلہ درپیش ہے۔ وہ اپنے ہی شہر میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر چکا ہے۔ اور اس جلاوطنی کو مستقلِ شہریت دینے یا دلانے کے لیے وہ سوچتا ہے کہ فون کر کے بتا دے گا کہ وہ مرچکا ہے۔ ناول کے ایک اور کردار کیٹری ملنگ کو یہ یقین ہے کہ وہ ایک مقدّس دربار سے پیدا ہونے والے کیڑے کے بدن سے ہے۔” ٹریولنگ سیلز مین گریگر سامسا، ایک صبح اٹھا تو اُس نے اپنے آپ کو ایک بڑے کیڑے کی شکل میں بدلا ہوا پایا”۔حقیقت یہ ہے کہ عامر رانا کا یہ ناول بیانیہ ہے۔ ہئیتوں کی تبدیلی اور تغیر کے عمل سے گذرتے پاکستانی معاشرے کا۔

ہیولے اور سائے پورے ناول میں ایک خاص طرح کی فضا بنائے رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ناول میں دست شناسی اور خوابوں کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔ یہ سب مل جل کر ایک ایسی تقویم تشکیل دیتے ہیں جس میں شناخت کے گم ہونے کا مسئلہ، بیماریوں سے چھٹکارا پانے، انھیں اپنی یادداشت سے مٹانے، اور اپنے لیے پُرسکون موت ڈھونڈنے کے عوامل تاریخ وار ترتیب دے دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ شہر بھی ان اثرات کا شکار ہو جاتا ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ یہ شہر لاہور ہے جس پر کچھ سایے مسلسل لہراتے رہتے ہیں اور ڈھلتے دِن کے ساتھ جو رینگتے ہوئے ہمارے قدموں کو آجاتے ہیں۔ اگرچہ شہر کی مثال علامتی نوعیت کی ہے کہ آج یہ شہر کوئٹہ بھی ہے، کراچی بھی اور پشاور بھی ۔ شہر میں ہر رہنے بسنے والے نے اپنی طرز کا ایک یوٹوپیا قائم کر لیا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے تبدیل کی ہوئی ہیئت کے ساتھ رہ رہا ہے۔

ناول کا ایک دلچسپ کردار “نصُو” ہے جو بازاروں میں سے پرانے اخبارات چُنتا رہتا ہے اور ان میں سے فلسفے کی سطریں کاٹ کر جمع کرتا رہتا ہے ہوں۔” یہ جو مارکس وارکس، شیکسپئیر ویکشپئیر ہیں، سب کتابوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ پلے ان کے کچھ نہیں تھا، جو جلوے کا لشکارا لگا پاگل ہو گئےاور کتابیں لکھ ماریں”۔ آگے جا کر کہتا ہے ” میں نے کوئی کتاب لکھنی نہیں تھی لیکن بعض مسئلے ایسے ہیں جو لکھے بغیر سلجھ نہیں سکتے”۔

سارا دن کچرا پڑھتا رہتا ہے پڑھنا بھی آتا ہے کہ نہیں ؟

سگریٹ مسلتے ہوئے وہ زور زور سے ہنسنے لگا اور پھر ہنستے ہنستے بولا ” میں راوین ہوں”۔

“ایک، دو،تین”

ہم نے ہاتھ اٹھا لیے اور سہم کر دیوار سے لگ گئے۔ ان کی انگلیاں ابھی ٹریگر پر جمی ہوئی تھیں کہ ان کے عقب سے آواز بلند ہوئی اور پھر گنتی: “ایک ، دو ، تین”۔

ناول کے آخر پر پتہ چلتا ہے کہ وہ پُل اُڑ چکا ہے جس کا ذکر اس ملنگ منڈلی میں اکثر ہوتا ہےاور یہ کہ گولی مارنے والے آچکے ہیں۔یوں یہ ناول اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔ وہ منطقی انجام جو لکھنے والے نے طے کیاتھا، کہانی آخر تک اپنی دلچسپی برقرار رکھتی ہے۔

ناول کی کہانی جہاں کرداروں کی پُر لطف زندگی جوکہ کم و بیش  اُن کی اپنی انتخاب کردہ زندگی ہے کو ہنرورانہ طور پر ہمارے سامنے لاتی ہے ،وہیں بہت سے سوالات بھی چھوڑ جاتی ہے۔ مرکزی کردار کا محض یہ فرض کر لینے کے بعد کہ اسے کینسر ہو گیا کہ اس نے بیماریوں کے ڈیپارٹمنٹل سٹور سے اپنے لیے یہی بیماری منتخب کی تھی اور بعدازاں اس کا اپنے آپ کو اپنے ہی شہر میں لاپتہ کر دینا اور پھر بہت سے ایسے لا پتہ کرداروں سے ملنا اور ان کے بیچ زندگی بسر کرنا، جو اپنی بدحال شناخت کے ساتھ روز ہم سے ملتے ہیں لیکن ہم کسی اور سے ملنے  کی دھُن میں انھیں پہچان نہیں پاتے۔ ایسا ہی ایک کردار نصیر کا ہے جسے ہم کتنے برس سٹیٹ بینک کے سامنے مختصر سے تکونے پارک کے فٹ پاتھ پر پرندوں اور حیوانات کے حق میں پوسٹر لکھتے اور لگا کر کھڑے دیکھتے رہے ہیں۔ نصیر جو یہ سارا کچھ اپنے مرشد کے حکم پر کر رہا ہوتا ہے، اس کا مرشد جو ماسکو سے علم حیوانیات حاصل کرنے کے بعد لاہور آجاتا ہے اور آتے ہی اسے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ قید سے رہا ہونے کے بعد وہ پیشین گوئیاں کرنے لگتا ہے۔

سو یہاں ہر کردار “بڑا کردار”کھائی دیتا ہے تاہم میری زیادہ دلچسپی رفیق میں ہے جو کامریڈ ہے اور ایک اگلا قافیہ جوڑنے سے جس کا اصل نام ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ جس کا سارے کا سارا فلسفہ مقامی لوگوں اور آباد کاروں کے مابین آویزش کے گرد گھومتا ہےاور جس کا ماننا یہ ہے کہ یہ سارا فساد اور استحصال کا چکرّ چھوٹی “ی”کے کارن ہے۔ اگرچہ اپنے قول و علم میں تضاد کے سبّب یہ کردار بھی ہمارے ان بہت سے کمیونسٹ دوستوں کی ترجمانی کرتا ہے جو آہستہ آہستہ امریکہ کے سایہ عاطفت میں جمع ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے پیروکاروں کے لیے ترقی پسندی کی روشن مثال بھی بنے رہنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی  یہ ناول  بہت سے ایسے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے جنہیں ہمارے معاشرتی اور سماجی و سیاسی نظام پر گہری طنز کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...