ہماری دعائیں قبول کیو ں نہیں ہوتیں؟

882

 

ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟یہ سوال مختلف چینلز پہ پروگرام کا موضوع بنتا ہے ۔ ہر محفل میں تقریباً یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر “ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں” اسلامی دنیا اور مغربی دنیا میں مساجد کثیر تعداد میں موجود ہیں اور ابھی مزید تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں جو مساجد میں ہی نہیں اپنے گھروں ، پارکوں ، گراﺅنڈز ، شادی ہال اور کمیونٹی سنٹرز میں اجتماعی دعاﺅں کا اہتمام کرتے ہیں۔ لوگ کثرت سے شریک ہوتے ہیں ، گڑ گڑاتے ، روتے اور التجائیں کرتے ہیں۔ دعا بذاتِ خود ایک مستحسن عمل ہے ۔ انبیاءعلیھم السلا م کی پسندیدہ سنت ہے۔ ہر پیغمبر نے مشکل وقت میں اللہ سے دعا مانگی اور مصیبت سے نجات پائی۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے ہر مشکل وامتحان میں دو کام کیے، ایک اس مصیبت سے نکلنے کے لئے عملی اور راست تدبیر اختیار کی ، تدبیر کرنے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی۔دوسرا یہ کہ  تدبیر کے ساتھ دعا کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دیا۔ ایک طرف تدبیر اور دوسری طرف دعا۔مجھے اس سوال پہ ہی شرمندگی ہوتی ہے کہ “ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں” یہ سوال ایسا ہے جیسے کوئی کام چور کہے کہ میری پہلی پوزیشن کیوں نہیں آتی، یا سست انسان کہے کہ میرے کام وقت پہ کیوں نہیں ہوتے۔ہمیشہ دیر سے کام پہ پہنچے والا کہےکہ آخر مجھے نوکری سے کیوں نکال دیا جاتا ہے؟ اس سوال سے پہلے مجھے بحیثیت فرد اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ میں نے پیغمبرﷺ کے اسوہ اور سیرت کو اختیار کیا۔ کیا میں جس خدا سے امیدیں لگائے بیٹھا ہوں میں نے اس کے احکامات پہ عمل کیا۔ میں خدا کو مانتا ہوں لیکن کیا میں خدا کی  بھی مانتا ہوں؟۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنا تعارف رحمن، رحیم، ستارالعیوب ، غفار الذنوب اور تواب کی صفات سے کروایا ہےلیکن اسی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہماری ذمہ داریوں اور فرائض کو بھی واضح کیا ہے۔ ہمیں بتا دیا ہے کہ دنیا میں برتری احاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے ، اس کے بغیر تم دنیا میں اعلیٰ مقام و عزت نہیں پاسکتے ۔ ہم شرائط کو پورا کیے بغیر ، اللہ سے متمنی ہیں کہ وہ سب کچھ ہماری محنت کے بغیر اور اپنی سنت کے خلاف ہمیں عطا کردے۔

قرآن مجید میں ہے”تم ہی سربلند ہو گے اگر تم ایمان والے ہو” (آل عمران)

اس نے دنیا میں حکومت و اقتدارکو علمی اور اخلاقی برتری کے ساتھ مشروط کر دیا ہے لیکن ہم بددعاﺅں کے ذریعے دشمن کوہلاک اور دعاﺅں کے ذریعے نعمتوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔

دعا خود سپردگی ، پشیمانی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کااظہار ہے۔ ہم اپنے آپ کو رب کی چاہت اور مرضی کے سپرد کرتے ہیں ، ماضی کے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ،اپنی غلطیوں کو یاد کر کے پشیماں ہوتے ہیں ۔ یہی مستقبل کی منصوبہ بندی کا پیش خیمہ ہے کہ مستقبل ماضی جیسا نہ ہو گابلکہ ماضی سے مختلف اور بہتر ہو گا۔ قرآن مجید بھی انہی لوگوں کے حالات بدلنے کا وعدہ کرتا ہے جو اپنے حالات بدلنے پہ آمادہ ہوتے ہیں یعنی قرآن مجید اس رویے کی حوصلہ افزائی کرتاہے جس میں نعمت حاصل کرنے کی خواہش نہیں ،نعمت حاصل کرنے کے قابل بننے کی خواہش ہو۔ نعمت ایسے کبھی نہیں ملتی کہ انسان فقط خواہش کرے اور خود کو اس قابل نہ بنائے کہ وہ نعمت خود اس کے پاس آجائے۔ قرآن مجید سے دوری  کا یہی نقصان ہوا ہے کہ مسلمان اپنی دعاﺅں میں وہ سب کچھ مانگتا ہےجس کا وہ اپنے آپ کوحقدار ثابت نہیں کرسکا۔ وہ مسلمانوں میں اتحاد کی دعا کرتا ہے لیکن اس کی زندگی افتراق و انتشار پہ قائم ہے۔ وہ دنیا میں غلبہ چاہتا ہے لیکن علم و اخلاق میں پس ماندہ ہے۔ وہ امن و سلامتی کا خواہاں ہے لیکن دہشتگردی و تخریب کاری اس کے معاشرے کی جڑوں میں ہے۔ وہ انسانی مساوات چاہتا ہے لیکن غریب و امیر مرد وزن ، ذات پات، مزدور ومالک کی تفریق قائم رکھے ہوئے ہے۔وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ میرا باطن پاک و صاف کردے لیکن اس کے لئے کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ مجھے اس جرات سے خوف آتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میرارب میری نہیں سنتا۔ رب تعالیٰ سے شکوہ کرنے سے پہلے اپنے نامہ اعمال کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہےکہ  ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں کیونکہ  اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...