تحریک جعفریہ پاکستان ماضی و حال کے آئینے میں
ادارتی نوٹ
کالعدم تحریک جعفریہ پاکستان کے ایک وفد نے گذشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سے ملاقات کی اور اپنی تنظیم پر پابندی اور عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے بات کی۔ اس وفد نے کالعدم تنطیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے عمل پر بھی بات کی۔ یہ ملاقات جماعت الداعوہ کے سیاسی جماعت کے قیام کے تناطر میں اھم تھی کہ کس طرح دیگر کالعدم تنظیمں اسے اپنے لیے جواز سمجھ رہی ہیں کہ انہیں کام کرنے کی سند مل گئی ہے۔ حکومت کو فوری دیکھنا ہو گا کہ کالعدم تنظیوں کے بدلتے اطوار کس سمت جا رہے ہیں۔ تحریک جعفریہ نے اپنا نقطہ نظر تجزیات آن لائن کو ارسال کیا ہے۔ اسے قارئین کے استفادے کے لئے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ خود ان تنظیموں کےرویوں اور رجحانات پر رائے قائم کر سکیں
تحریک ِ جعفریہ پاکستان کا قیام 12-13اپریل1979کو آل پاکستان شیعہ کنونشن بھکر میں عمل میں آیا ۔جس میں مفتی جعفر حسین کو سربراہ منتخب کیا گیا ۔جنہوں نے دستور بنانے کی ذمہ داری ایک کمیٹی کو تفویض کی ۔جب ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کا آغاز کیا تو اہل تشیع نے 6جولائی 1980کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تاریخ ساز اجتماع میں اپنے مطالبات پیش کئے ۔بعد ازاں 6جولائی1987کو شہید عارف حسین الحسینی کی قیادت میں مینار پاکستان پر منعقدہ ایک کنونشن میں عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا گیا ۔مگر اس دوران پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے کے لئے کثیر سرمایہ کاری کی گئی تاکہ پاکستان کے اہل تشیع کو قومی دھارے سے الگ تھلگ کیا جا سکے ۔پارلیمنٹ میں شیعہ مخالف بل لانے کی کوشش کی گئی عزاداری کے خلاف ٹاسک فورس تک تشکیل دی گئی اور بڑے ہیمانے پر شیعہ علمائے دین اور ذاکرین کو ضلع بدر کیا گیا اور ان کو نظر بند کیا گیا جس کے خلاف قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں بھرپور مزاحمت کی گئی ۔ہمارے جن لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیلوں میں بند کیا گیا تھا ان کو قانونی امداد دی گئی ۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان نے اپنے پلیٹ فارم سے اتحاد امت کے لئے کوششیں جاری رکھیں اور تمام دینی جماعتوں کو ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اکھٹا کیا ۔1988کے عام انتخابات میں تحریک جعفریہ نے تختی کے انتخابی نشان سے انتخابات میں حصہ لیا اور 1990میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ، ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان اور مسلم لیگ قاسم کے ساتھ مل کر پیپلز ڈیموکریٹک الائنس تشکیل دیا اور انتخابات میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا ۔1992میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام بدل کر تحریک جعفریہ پاکستان رکھ دیا گیا تاکہ اس حوالے سے متعصب پراپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے ۔1994کے انتخابات میں تحریک گلگت بلتستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور مخلوط حکومت تشکیل دی ۔1997کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کو تاریخٰ مینڈیٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ۔1998میں دوبارہ گلگت بلتستان میں کامیابی حاصل کی ۔2002میں جب تحریک جعفریہ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو اسلامی تحریک پاکستان کے نام سے الگ سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹر کرائی گئی اور ان انتخابات میں تحریک کے صدر علامہ ساجد نقوی دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے صدر تھے اس اتحاد نے ملک بھر میں بڑی تعداد میں نشستیں جیتیں ۔2013کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا گیا ۔2015کے انتخابات میں تحریک گلگت بلتستان میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ۔
تحریک جعفریہ پاکستان اپنے قائد کی قیادت میں امت مسلمہ کے عالمی مسائل پر پیش پیش رہی ہے ۔قبلہ اوّل ،کشمیر ،عراق، لبنان ، شام اور دنیا بھر میں امت مسلمہ کے مسائل کو اجاگر کیا گیاہے ۔تحریک جعفریہ سمجھتی ہے کہ اتحاد امت ہی تمام مسائل کا حل ہے اور جو کوئی شیعہ اور سنی میں تفرقہ ڈالتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ اسلام کا دشمن ہے ۔اردن کے ’’دی رائل اسلامک ،سٹریٹجک سٹڈیز سینٹر‘‘ نے قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کو دنیا کی 500 با اثر مسلم شخصیات میں شامل کیا ہے ۔
گزشتہ کئی سالوں سے تحریک جعفریہ کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔14اگست 2001کو تحریک کو انڈر آبزرویشن رکھنے کا حکم صادر ہوا جس کے بعد14جنوری2002کو اسو پر پابندی عائد کر دی گئی ۔اور تحریک کے سربراہ علامہ ساجد تقوی کو کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا ۔جس کے خلاف بھرپور قانونی و آئینی جنگ لڑی گئی اور یہ کوشش آج تک جاری ہے ۔عدالتیں تحریک جعفریہ کے مؤقف کو درست تسلیم کر چکی ہیں مگر حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہے ۔اور تحریک جعفریہ ک وبحال کرنے کے لئے لیعت و لعل سے کام لے رہی ہے ۔
تمام تر رکاوٹوں کے باوجود قائد َ جعفریہ علامہ ساجد نقوی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔تحریک جعفریہ ایک پر امن اور خوشحال پاکستان کے لئے کمر بستہ ہے ۔ایک ایسا پاکستان جس میں مذہبی و مسلکی منافرت نہ ہو ۔جہاں سب کو برابر کے شہری حقوق میسر ہوں ۔جہاں عبادت گاہیں محفوظ ہوں ۔جہاں آئین و قانون کی بالا دستی ہو ۔اور ریاست کسی مخصوص فرقے کی آبیاری نہ کرے ۔یہی ہمارا نصب العین ہے اور ا س کے لئے ہماری جدوجہد جاری ہو ساری رہے گی ۔
فیس بک پر تبصرے