تاریخ سے سبق سیکھیں ،مذاق نہ بنائیں!
مارا المیہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی اس کی طرف کبھی مڑ کر دیکھا کیونکہ ایک وقت تھا جب میاں محمد نوازشریف نے بطور وزیراعظم سنیارٹی اور میرٹ کو نظر انداز کرکے پرویزمشرف کو آرمی چیف بنادیا تھا، شائد ان کا خیال تھا کہ جنرل اسلم بیگ نے 1988میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد ماشل لاء لگانے سے گریز کیا تھا، لہذا مشرف بھی جمہوریت کو مضبوط بنانے میں میرا ساتھ دینگے ،لیکن پھر جو ہوا اس کے اثرات سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ نواز شریف نے مگراس واقعہ سے سبق نہیں سیکھا کیونکہ انہوں نے ایک بار پھر بالکل اسی طرح سنیارٹی اور میرٹ کو نظرانداز کرکے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا اور پھرتاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا کہ وہی مشرف جو ایک وقت میں نواز حکومت کا تختہ الٹ چکے تھے ،اپنے کیسز کا سامنا کرنے پاکستان آئے مگر کوئی ان کا احتساب نہ کرسکا۔میں بطور طالب عالم جناب حامدمیر کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشرف کو انکے دور اقتدار میں انکی بدترین آمریت کا آئینہ مسلسل دکھایا۔
پاکستان 1947میں قائم ہوا، 1956میں پہلا آئین نافذ ہوا ، ستمبر 1958ءمیں فیروز خان نون نے گوادر کوپاکستان کا حصہ بنایا جوایک سیویلین تھا، اکتوبر1958میں ملک میں پہلا مارشل لاءنافذ کیاگیا ، 1962میں صدارتی آئین نافذکیاگیا جس پر مشرقی پاکستان میں بے چینی شروع ہوئی ،اس کے بعد پشاور میں بڈا بیر کے علاقہ میں جنرل ایوب خان نے ایک فوجی اڈہ امریکہ کودے دیا۔ 1964ءمیں جنرل ایوب خان نے مادرملت کو صدارتی الیکشن میں ہرانے کیلئے محترمہ فاطمہ جناح کوبھارتی ایجنٹ قرار دے دیا ۔1969ءمیں جنرل یحیٰ خان نے ایوب خان سے استعفی لے لیا اور آئین بھی توڑ دیا،اسکے بعد 1971ءمیں یحییٰ دور میں ہی پاکستان ٹوٹ گیامگر پھر پاکستان کا 1973ءمیں ایک متفقہ آئین منظور ہوگیا، جس میں جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو،خان عبدالولی خان،مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد،حفیظ پیرزادہ اور دیگرزعماء سیاست نے بھرپور کردار ادا کیا۔
1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے تیسرا مارشل لاءلگایا تو پاک سرزمین پر فرقہ ورانہ اور لسانی تنظیموں کے دور کا آغاز ہوگیا لیکن پھر 1984ءمیں ضیاءالحق کے دورآمریت میں بھارت نے پاکستان کی سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیاجو انتہائی افسوس ناک ہے۔ 1985ءمیں غیرجماعتی انتخاب ہوئے تو ملک میں برادری ازم اور پیسہ کی سیاست کا فروغ ہوا ۔ 1999ءمیں پرویزمشرف نے چوتھا مارشل لاءلگایا جس میں جیکب آباد ، پسنی اور شمسی ایئر بیس امریکہ کو دیدیے، یوں پاکستان کی حدود میں ڈرون اورخودکش حملے شروع ہوگئے اور یہ سب کسی جمہوری حکومت کے دور میں نہیں ہوا ،بلکہ آمروں کے دور میں ہوا تھا۔ حالانکہ کسی بھی جمہوری دور حکومت میں پاکستان کی ایک انچ بھی زمین پر دشمن قبضہ نہیں کرسکا ۔ ان تمام کارناموں کے باوجود بھی پرویز مشرف نے حال ہی میں ارشاد فرمایا ہے کہ آمر سویلین سے زیادہ جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔
یقینا فوجی جمہوریت پسند ہوسکتے ہیں مگر آمر جمہوریت پسند کبھی بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ آمریت اور جمہوریت دو ایسے الفاظ ہیں جو قیامت تک اکٹھے نہیں سکتے ۔ وہ شخص کیسے جمہوریت پسند ہوسکتا جس نے جنرل بنتے ہی ایک جمہوری وزیر اعظم کا تختہ الٹ دیا تھا ، وہ شخص کیسے جمہوریت کا دعوے دار ہوسکتا ہے جس نے12مئی 2007کوپریڈگرا ﺅنڈ مین اپنے مکے لہرا کر کہاتھاکہ آج ہم نے کراچی میں اپنی طاقت دکھادی ہے۔ درحقیقت مشرف صاحب جمہوریت پسندی کے بیانا ت دے کر تاریخ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جمہوریت کو مضبوط اور محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاست دان اپنے ذاتی اختلافات کو بھلاکر جمہوریت کی بالادستی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر اس اختلاف رائے کو اناپرستی اور دشمنی کا رنگ نہ دیا جائے۔ اپنی رائے کو حتمی نہ سمجھا جائے بلکہ اپنی رائے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے دوسری طرف سے آنے والی رائے کا بھی احترام کیا جائے۔
فیس بک پر تبصرے