ورچوئل رئیلٹی اور انفارمیشن کا دور، ہم اپنی شخصیت اور سکون کھو رہے ہیں

903

قلم برداشتہ لکھنے سے دل برداشتہ لکھنا کبھی کبھار بہتر اس لیے ہوتا ہے کہ بعض اوقات بار خاطر پر گراں گزرنا ازبس ضروری ہوجا تا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ اس پیچیدہ دور میں جہاں آپ کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ ملنے والی اگلی معلومات کیا ہوسکتی ہیں۔ دھڑام سے ذہن کے پچھواڑے میں ایک تصویر کودتی ہے، ایک ویڈیو منہ چڑاتی ہے، تو کہیں ایک تحریر اپنی کمی و کاستی کے باوجود آپ کے خیالات و تصورات حتیٰ کہ آپ کے عقائد تک کو کھرچ سکتی ہے کیونکہ یہ انفارمیشن کا دور ہے۔

حیراں ہوں دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر میں

یہ غالب مرحوم و مغفور کا شعر ہے کہ اس کی تشریح کے بیس نہیں بلکہ پورے سو نمبر ہونے چاہیئے کہ بے بسی میں نوحہ گری کارے دارد۔ یہ دور ابتلاءکا ہے کہ قضا و قدر کی الجھنوں کے لیے غور و تدبر کرنا صرف معدودے چند برگزیدہ ہستیوں کے نصیب میں آئے تو آئے وگرنہ میڈیاگردی سے کوئی بندہ بشر محفوظ نظر نہیں رہا۔ ان کمنگ کی ایسی کمینگی چمٹ چکی ہے کہ لوگوں کی ہی ان کمنگ بند ہوگئی ہے۔ بعض دانش وروں کے نزدیک معاشرہ میں سوچنا ہر کسی کا فرض نہیں لیکن میرے خیال میں ان کا یہ ہرگز مطلب نہ ہوگا کہ بالا خانہ یکسر ویران پڑا رہے۔سوشل میڈیا سے بچیں گے کیسے کہ بچہ بچہ اسی دنیا میں جی رہا ہے۔ اس کی ورچوئل دنیا ہی اس کی حقیقی دنیا بن چکی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں آپ سموسے پکوڑے اور روٹیاں گھر لاتے ہیں اور ہر پبلک پلیس پر ایک ٹی وی ضرور لگا ہوگا، یہ آپ کی قسمت کہ ٹی وی لگانے والا کس پارٹی کا طرفدار ہے؟ آپ کا موبائل سمارٹ ہو نہ ہو، بیلنس ڈالتے ہی انٹرنیٹ کا بنڈل آپ کی زنبیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

مقصد یہ نہیں کہ ایسی باتیں کہہ کر انفارمیشن سے آپ کا رابطہ منقطع کیا جائے، نہیں ہرگز نہیں۔ صرف اتنا کہ اس میں جو میراذاتی تجربہ رہا ہے اور جو میرا مشاہدہ ہے کہ جب کسی چیز پر ہمارا اختیار یا با الفاظ دیگر ارادہ نہ ہو تو ہم صرف مجبور محض بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہم بلاوجہ ایک ایسی دنیا کو حقیقت سمجھنا شروع کردیتے ہیں جسے Virtual realityکی دنیا کہتے ہیں۔ سادہ مثال یہ ہے کہ آپ کے کانوں پر ہائی فائی ساﺅنڈ سسٹم اور آنکھوں پر تھری ڈی ایچ ڈی گوگلز لگائے جائیں تو کچھ دیر بعد آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے۔ جی ہاں وہ آپ ہی ہونگے جو حماقت کی تمام تر حدوں کے پار اتریں گے اور مضحکہ خیزیوں میں کمال کرتے نظر آئیں گے۔ جتنے کا ٹکٹ خریدیں گے اتنے کا ہی وقت گزار دیں گے۔

ہمارے اجتماعی المیوں میں اس کشیدہ صورت حال کو ترجیحاً شامل کردینا چاہیئے کہ جس میں ایک خاص Virtual reality  کی دنیا میں ہم بڑی تیزی شدید ذہنی و اعصابی تناﺅ میں گرفتار ہوتے چلے جارہے ہیں جس کا تدارک لازمی ہے

Virtual realityایک ایسے احساس کا نام ہے جس کے حصار میں بظاہر آزادی کو انتہا تک محسوس کیا جاسکتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں ہماری اپنی اپنی Virtual reality ہے جو اس ٹیکنالوجی کے انبوہ سے پہلے ہمارے پختہ بلکہ کسی حد تک نا قابل تسخیر تصورات اور خیالات کے ہمراہ چلی آرہی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کوئی کسی کا دکھ کیسے محسوس کرے تو یہ Virtual reality میں بھی ہوتا ہے کہ جو میں سوچتا ہوں یا آپ سوچتے ہیں اس کا کوئی بد ل ہو نہ ہی اس کی کوئی مثال ہو۔

انسان کی انفرادی سوچ بہرطور انسانی عظمت اور فضیلت کی معراج ہے لیکن واہموں اور طلسمات میں رہ کر دیگر انسانوں سے منفصل جہاں آباد کرکے اس میں بھٹکتے پھرنا خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ یہ Virtual reality جتنی دلچسپ ہوگی اور اس میں نا آسودہ خواہشات کی تکمیل جتنی یقینی ہوگی یہ اتنی ہی خطرناک ہوگی۔ پھر یہی ساری زہر ناکی دوسروں کی زندگیوں کو آن کی آن میں ختم کردیتی ہے۔ کسی چوک چوراہے میں یا پھر راہگیر وں کے گھروں تک اس زہر کو پھیلنا ہوتاہے۔ ایسی Virtual reality کے مارے لوگ اگر دوسروں کے لیے وبال نہیں بن جاتے تو یہ لوگ اپنی جان پر خود عذاب بن جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟

جب کوئی انسان اپنے شعور سے اپنے ارادوں کا تعین نہیں کرپاتا ہے تو قدرت اس سے آزادی کی یہ نعمت چھین لیتی ہے جب کہ جبر اس کا مقدر ٹھہرتا ہے اور اختیار اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ شعوری عمل کے بغیر کوئی بھی حاصل محض آپ کا واہمہ ہے۔ جو آپ کے پاس ہے وہ آپ کا اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس میں آپ نہیں ہیں۔ آپ کا ہونا آپ کے ہونے کے ارادے سے ہوتا ہے۔ ارادہ ہی تو آزادی ہے، زندگی کا حسن ہے تو کیا کوئی یہ چاہے گا کہ آزادی چھن جائے اور حسن نہ رہے؟ جو بھی آپ کے پاس ہو وہ آپ کا اختیار کا ماحصل ہو اور جو نہ ہو اس میں بھی آپ کی ہی مرضی شامل ہو۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور ہے اور اس دور کی یلغار سے نمٹنے کی تیاری ہم میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔ سو اس حادثے میں نقصان کا اندیشہ سوفیصد ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں آنے والی ایک  ہیلتھ رپورٹ دیکھی کہ پاکستان میں میں ہر چوتھے شخص کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے۔ کیوں؟ یہ اس تناﺅ کا انعام ہے جو کئی دہائیوں سے قومی سطح پر ہر خرد و کلاں پر تقسیم ہوا ہے۔ خالص انتہا پسندانہ سوچ سے لے کر ناخالص اشیاء کی دہشت گردی تک ہم نے جہاں براہ راست زجر اٹھائے ہیں، وہاں اس کے پہلو بہ پہلو چوبیس گھنٹے ابلاغی حملوں میں بھی الجھے رہے ہیں۔ ٹاک شوز آپ کی تاک میں ہیں کہ کہیں آپ پرسکون تو نہیں ہیں۔ آپ کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ آپ کا تعلق ایک ایسے جم غفیر سے ہے، جہاں بھیڑ بھاڑ صرف اس لیے لگی ہوئی ہے کہ باتیں ہوں اور باتیں ہوں اور بس باتیں ہی ہوں۔فکری طور پر ہر تھڑے اور ہر محفل میں ہر قومی و بین الاقوامی مسئلے کا حل ہمارے پاس ایسے کیسے موجود ہوسکتا ہے؟ یہ ایسا اس لیے ہے کہ ہم سوچ کی زیادتی کا شکار ہوچکے ہیں۔ دن رات مختلف النوع خبروں اور اطلاعات کی بھرمار اور پھر اس پر یہ کہ جس کی آپ کمر توڑتے ہیں وہ خود ہی اسے جوڑتا ہے اور پھر اپنی کمر تڑواتا ہے۔ اس کا اپنی کمر جوڑنا اور تڑوانا ایک مشغلہ بن چکا ہے۔ آپ کا کیا ہے؟ آپ نے تو صرف خبریں سننی ہیں۔ اگلی مردم شماری تک اگر بچ گئے تو ٹھیک وگرنہ کسی ہیلتھ یا ڈیتھ رپور ٹ میں نام تو آہی جائے گا۔

ہمارے اجتماعی المیوں میں اس کشیدہ صورت حال کو ترجیحاً شامل کردینا چاہیئے کہ جس میں ایک خاص Virtual reality  کی دنیا میں ہم بڑی تیزی شدید ذہنی و اعصابی تناﺅ میں گرفتار ہوتے چلے جارہے ہیں جس کا تدارک لازمی ہے۔ فرد کا فرد سے لاتعلق ہونا اوران میں دوریوں کا پیدا ہونا جہاں معاشرتی تنزلی کاباعث ہوگا وہیں انفرادی و اجتماعی معاملات میں تباہیوں پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ یہ جو ہورہا ہے اور جو کیا جا رہا ہے اس کے لیے پالیسیاں وضع کی جانی چاہیئے۔ سائبر کرائم اور اس سے متعلق قوانین کے فوائد و نقائص فی الوقت موضوع بحث نہیں ہے لیکن میری گزارش ہے کہ ایک ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس سے لوگوں کوفوری اور دیرپا ریسکیوفراہم کیا جائے۔ ایک طرف ذرائع ابلاغ کو لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کیا جائے تو دوسری طرف طلبا اور طالبات کو اس دور کے تقاضوں کا شعور دیناچاہیئے کہ اس دور کے جملہ فیوضات، برکات اور نقصانات سے فرار ممکن نہیں۔ کبھی ریڈیو کا لائسنس ہوتا تھا اور اب تو آپ خود ریڈیو ہیں، اخبار ہیں، ٹی وی ہیں اور جمیز بانڈوالی فلم کے ہیرو بھی۔ زور زبردستی کی بجائے آمادگی کی پالیسی کہیں بہتر ہے کہ اس بوتل سے نکلے جن کو آپ کبھی بھی دوبارہ بوتل میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔ مان لیجئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...