پاکستانی سیاست اور آئیڈیل ازم

1,111

کیا سیاسی مسائل آئیڈیل ازم کی بنیاد پر حل کیے جا سکتے ہیں یا انسانی تاریخ میں کبھی سیاسی مسائل آئیڈیل ازم سے حل کیے گئے ۔ واضح بات ہے کہ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ دنیا میں مسائل ہمیشہ زمینی حقائق اور واقعاتی صورت حل میں کیے جاتے رہے ہیں او ر کیے جاتے ہیں۔ جو افراد اور اقوام آئیڈیل ازم کے نعرے پہ مسئلے کا حل مانگتے ہیں یا تو وہ صرف اپنے مطابق مسئلے کا حل چاہتے ہیں یا وہ مسئلے کا حل ہی نہیں چاہتے  ۔ جنگ وجدال کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتے، ہمیشہ خود مسئلہ ہوتے یا پھر اُمُّ المسائل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کو ملکی اور عالمی سیاست میں “جھوٹا” تصور کیا جاتا ہے  کیونکہ وہ اپنے مخالف سے ہمیشہ یہ  تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے سے “یوٹوپین نتائج “سامنے لائے یا فیصلہ ہی یوٹوپین(Utopian) کرے لیکن جب وہی وقت ان پر آتا ہے  تووہ ہمیشہ معروضی حالات کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ عوام ہی کیا سیاست دان بھی “مغربی جمہوریت” کی مثال دیتے ہیں لیکن وہاں بھی سیاست دان اپنے “جھوٹ” کی وجہ سے بدنام ہیں۔ میں اسے جھوٹ اس لئے کہتا ہوں کہ مسئلہ وہی ہے جب اپوزیشن میں ہونا تو اپنی جذباتی تقاریر کے ذریعے عوام کی توقعات اور امیدیں اس حدتک وابستہ کر دینا کہ وہ اس سیاستدان کو نجات دہندہ تصور کرنے لگےں اوریہ خیال کریں کہ ہمارے مسائل کا حل فقط اسی شخص کے پاس ہے اور جب حکومت میں ہوں تو یہ کہنا کہ میرے پاس مسائل کو حل کرنے کیلئے “اٰلہ دین “کا چراغ نہیں ہے۔ میں مغربی جمہوریت کامعترف ہوں کہ اس میں بہت سے اوصاف “مستقل اقدار” کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جہاں تک ہمیں پہنچنے کے لیے عمر طویل درکار ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے اور ابھی تلک اِن مثالوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ میں اس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے بجائے موجودہ دور کے سیاستدانوں سے ہی کرتا ہوں۔ مثلاً عمران خان جس مثالی اور اعلیٰ کردار کا مطالبہ وفاق یاپنجاب حکومت سے کرتے ہیں،اس جیسا مثالی کردار خیبر پختونخواہ میں دکھانے سے قاصر ہیں۔ ان کا اعتراض پنجاب حکومت پہ یہی ہے کہ انہوں نے سارا بجٹ سڑکوں، فلائی اوورز اور میٹرو بس پہ خرچ کر دیاہے جبکہ تعلیم ، صحت اورقومی تعمیر کی طرف انہوں نے توجہ نہیں دی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں سڑکوں، فلائی اوورز اور میٹرو بس کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر بھی نہ ہو سکی۔ پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی عمران خان صاحب نے ینگ ڈاکٹرز کے اس عمل پہ حکومت پنجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ینگ ڈاکٹرز کے خلاف کچھ نہ کہا کہ ان کے اس عمل سے کتنے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ جب یہی صورتِ حال خیبر پختونخواہ میں پیدا ہوئی، انہوں نے پنجاب حکومت سے دو ہاتھ آگے ،ینگ ڈاکٹرز کا مسئلہ حل کیا یعنی مستقل قانون بنا دیا کہ ہڑتال کرنےوالا ڈاکٹر ہمیشہ کیلئے نوکری سے جائے گا۔ نواز شریف کے جی ٹی روڈ مشن کے دوران ایک بچہ قافلہ کی گاڑیوں کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا، عمران خان صاحب سمیت سب سیاسی راہنماﺅں نے تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے جلسے میں سٹیج کے سامنے عمران خان ودیگر راہنماﺅں کی موجودگی میں 6 افراد حبس کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ،اس موقع پہ کسی نے آگے بڑھ کر 6 افراد کی جانیں نہیں بچائیں۔ آج کل خیبرپختونخواہ میں ڈینگی بے قابو ہو چکا ہے چند سال پہلے پنجاب میں یہی صورتِ حال بلکہ اس سے بھی بدتر تھی۔ اُن حالات میں عمران خان نے پنجاب میں عملی کردار ادا کرنے کے بجائے ، شریف برداران کو” ڈینگی برادران “کا لقب دیکر مذاق بنایا اور ان کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایاجبکہ خیبرپختونخواہ کی موجودہ صورتِ حال میں عمران خان پرُفضا علاقوں میں گرمیاں گزاررہے ہیں۔

سیاسی فیصلوں میں غلطی کا بھی امکان رہتاہے لیکن اس حد تک آگے نکل جانا کہ حکومت اور حکمرانوں کی حب الوطنی اوروطن سے غیر مشروط وابستگی کو مشکوک بنا دینا

آئڈیل ازم کا نتیجہ   ماضی میں ایسا ہی رویہ نواز شریف صاحب کا بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ساتھ رہا۔ نواز شریف صاحب آئیڈیل ازم کے ذریعے بے نظیر حکومت کے فیصلوں کو وطن دشمنی اورغداری کہتے رہے اور خود کو محب وطن اورمحب جمہوریت ثابت کرتے رہے۔ آئیڈیل ازم کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کا ہر سیاسی راہنما سنگین الزامات کی زد میں رہتا ہے ۔ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ، مولانا فضل الرحمن پاکستان کا دشمن، نواز شریف مودی کایار ، اگر کسی پہ کوئی الزام نہیں ہے تو اس پہ نہیں ہے جس کا پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ ہر حکومت اہم سیاسی مسائل کو حل کرنے میں آگے بڑھتی ہے۔ سیاسی فیصلوں میں غلطی کا بھی امکان رہتاہے لیکن اس حد تک آگے نکل جانا کہ حکومت اور حکمرانوں کی حب الوطنی اوروطن سے غیر مشروط وابستگی کو مشکوک بنا دینا یہ خمیازہ ہے آئیڈیل ازم کا ۔ جس کے پیچھے اقتدار کی لالچ وہوس کے سوا کوئی اورجذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔ہماری بدقسمتی ہے کہ 70 سالوں سے یہی کھیل سیاستدان پاکستان میں کھیل رہے ہیں ۔ آج کا سیاستدان کل کے سیاستدان سے سبق نہیں سیکھ رہا نہ اس کے ماضی سے نہ اُس کے حال سے اور نہ اس کے انجام سے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...