داعش کی شکست کا مطلب آزاد کردستان ہوگا
عراق کے وزیر اعظم حیدرالعبادی نے پیر کے روز موصل میں دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا۔ عراق کے دوسرے بڑے شہرکا 9 ماہ خونریزآپریشن کے بعد دوبارہ حاصل کرلیا گیا جس پرداعش کا تین سال قبضہ رہا۔لیکن اب ملک کے بڑے علاقوں میں جہاں دولت اسلامیہ کہیں کہیں موجود ہے اوراس کے لیے بہت کچھ کرنا ابھی باقی رہتا ہے۔اس عمل نے کردوں کے لیے عراقی فوج کے ساتھ شراکت داری کو ضروری بنادیا ہے۔ اسی وجہ سے عراقی کردستان آزادی کے لیے 25 ستمبر کو ایک ریفرنڈم قائم کرنے والا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ریفرنڈم م مذاکرات کے تصفیے کے لیے مینڈیٹ فراہم کرے گا۔ اربل اور بغداد کے درمیان معاہدے کا نتیجہ کہیں زیادہ سود مند ثابت ہوگا۔ واشنگٹن کی پہلے سے طے شدہ پوزیشن کہ متحد عراق اپنی سرحدوں کے اندر ملک کے لئے قابل عمل پیشکش کرتا ہے، اس نقطہ نظرکو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ناکام پالیسی نےعراق کے اندراور باہردونوں جگہ معاشرے کوخطرات سے دوچار کردیا ہے۔ واشنگٹن اب خطے میں استحکام حاصل کرنے کے لئے ایربل کے ساتھ گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کرے گاجو عراق اور کردستان کے درمیاں دوطرفہ تعلقات کو تشکیل دے گی۔
یہ کردوں کی خودمختاری کے لیے دہائیوں کی جدوجہد کا خاتمہ ہوگا۔ میرااپنا سفرمارچ 1991 میں اس سڑک کے ساتھ شروع ہوا۔ یہ ایک ایسا دن تھا جو صدام کے خلاف بغاوت کے بعد عراق کے کردوں کو دوبارہ بحال کرسکتا تھا۔ ایرانی کردستان میں میرے آبائی علاقے زاخو میں خوف پھیلا جب میں اسی بہار کی دوپہراپنی امی کے ساتھ گھرگیا ۔ اور قریب دھماکوں کی آواز نے ہمیں پڑوسیوں کی پناہ گاہ کی طرف بھیج دیا جو بم کی دھماکہ خیزی سے بچنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسی رات میرا خاندان درجنوں دوسروں خاندانوں کے ہمراہ پانچ دن کے لئے ٹرک میں پھنس گیا جو پناہ کے لیے پہاڑوں پرلے جانے والے تھے، شمالی عراق میں برف میں ڈھانپے ان پہاڑوں کا پیدل سفرمیری یادداشت میں اب بھی موجود ہے۔
عثمانی سرحدوں کے بند ہونے کے بعد ایک صدی تک عراق ان لوگوں کی زبردست انجمن کی طور پرباقی رہا جن کی قومی خواہشات اورشناخت کا احساس کچل دیا گیا تھا۔ میرے خاندان کے ارکان نے مسلسل غیرقانونی عراقی حکومتوں کی وجہ سے جلاوطنی میں کئی دہائیاں گزاریں۔ بیسویں صدی کے موڑ سے پہلے اس مصنوعی ریاست میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کردستان کی بوڑھی نسل کے مرد،عورتیں اور بچوں نے کوششیں کیں۔ اس طرح عراق کے کردوں کے لئے شناخت کا مستقل اورغیرحل شدہ سوال ہےاور شناخت آخرکارقرارداد حاصل کرے گی جب عراق کے لوگ ریفرنڈم میں ووٹ کریں گے۔ مقبولیت کا یہ اظہارنہ صرف غم کا ایک بڑا باب بند کرے گا بلکہ تیزی سے مستحکم خطے میں نیا یقین اوراستحکام بھی پیدا کرے گا جہاں فرقہ وارانہ تنازعہ اورخونریزی ہے۔ عراق کے اندر آزادی کے لئے یہ ووٹ دوبااختیار قوموں کے درمیان ایک معاہدے کو تشکیل دے گا۔ ماضی میں بغداد کے ساتھ ملکردولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں ہماری کوششیں ناکام ہوگئیں یہاں تک کہ دولت اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے بغداد نے کردوں کے لئے مغربی حمایت کے خلاف لابی جاری رکھی۔
متوقع بیوقوف نے ہم سب کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس نے ایک مضحکہ خیزصورتحال کوجنم دیا ہے جہاں مرکزی حکومت نے دولت اسلامیہ کے زیراثر علاقے میں انتظامیہ کی خدمت کے لیے اربوں ڈالرزمنجمد کردیئے ہیں یہاں تک کہ اس نے قومی بجٹ میں کردستان کی علاقائی حکومت کا حصہ ختم کردیا ہے۔ بجائے اس کے کہ موجود خطرے کو شکست دینے کے لیے ایک ساتھ کوشش کرتے۔ بغداد نے کردوں کی سیکورٹی فورسسزکے لئے غیرجانبداررہنے، سامان، بکتربندگاڑیوں اورمزید کھانے کے معاوضے کا لائیسنس بھی بلاک کردیا ہے جبکہ بغداد کے شیعہ عسکریت پسند امریکہ کے مسلح کیے ہوئے تھےاور ان کے سابق فوجیوں کو ریاستی مراعات بھی حاصل ہوئیں۔ میں دسمبر2016 میں ایک اعلیٰ سطحی کردش وفد کا حصہ تھا جس نے وائٹ ہاوس کا دورہ کیا اورہماری خواہشات پر تبادلہ خیال کیا۔ پرجوش تبادلے کے دوران ہمیں دولت اسلامیہ کے خلاف عراق جنگ کےلیئے اپنے ریاستی خواب میں تاخیرکرنے کا کہا گیا،ہم نےیہ دلیل پہلے بھی سن رکھی تھی۔ ہم 2013 میں ریاست عراق کو ایک موقع اور دینے کی امریکی درخواست پررضامند ہوئے اس کے بعد بغداد کی حقیقی شراکت داری کا وعدہ پوراکرنے کی وہ ناکامی جہاں بڑی خودمختاری نے حل کو مشکل بنا دیا۔ ہم اس بنیاد کو مسترد کرتے ہیں کہ ہماری آزادی ملک کوغیرمستحکم کرے گی کیونکہ ریاست عراق خود عدم استحکام کا شکارہے۔ یہ بحران جو خطے سے الگ ہونے کی دھمکی دیتا ہے دولت اسلامیہ کی شکست سے ختم نہیں ہوگا۔ ملک کا پولرائز سیاسی نظام جوشیعہ قیادت کے پاس ہےاوریہ واضح طورپرسیاسی زہریلا خلا ہے جس نے دولت اسلامیہ کو ابھارنے کی اجازت دی۔
اگلے 6 ماہ میں دولت اسلامیہ کو عراق میں فوجی شکست دی جائے گی۔ مگرماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے جنگ کا خاتمہ ایربل ، بغداد، واشنگٹن میں ایک حقیقت پسندانہ تشخیص اورملک کے اگلے ناگزیر باب کے متعلق ہونا چاہئے۔ اگرچہ ہماری سرحدوں پراختلافات ہیں مگراصولی طورپرایک معاہدہ کرکےایک دوسرے کے ساتھ بطور دو آزاد ریاستوں کے رہنا ایک معقول آغازہوگا۔ یہ اقدام عراق کی خطرناک سرحدوں کو تبدیل نہیں کرے گا بلکہ یہ بغداد اورہمارے ہمسایوں کے ساتھ اقتصادی سلامتی اورتجارتی شرائط کی وضاحت کے لئے برابری کی بناپرتعلق بنائے گا۔ دیگر ممالک بھی اس بات کو تسلیم کریں کیونکہ یہ عراق اوراس کے لوگوں کے حق میں بہتر ہوگا۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ ظہو ر اسلام)
فیس بک پر تبصرے