اندرونی عدم استحکام اور بیرونی دباﺅ کا بوجھ
امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حالیہ خارجہ پالیسی نے پاکستان کے داخلی بحران کو مزید گہرا اور سنگین کردیا ہے۔اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کےلئے نئی حکمت عملی سے جہاں بظاہریہ معلوم ہوتا ہے وہ کہ خطے کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے ،وہیں اس پالیسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں بھی اصل فیصلے عوامی رائے کے برعکس طاقتور قوتیں ہی کرتی ہیں۔ٹرمپ نے صدارتی مہم میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جنگ نہ صرف امریکی معیشت پر بوجھ ہے بلکہ یہ براہ راست امریکی جنگ بھی نہیں ہے۔یہ خیالات اس ارادے کا مظہر تھے کہ افغان جنگ میں صرف ہونے والے اخراجات بچائے جائیں گے اور یہ رقم امریکی عوام کی فلاح پر خرچ کی جائے گی۔ اسی عزم کے تناظر میں امریکی عوام کی بڑی اکثریت نے ٹرمپ کی اپیل پر اسے ووٹ دیے۔جنوبی ایشیا سے متعلق نئی ٹرمپ پالیسی کو ٹرمپ ڈاکٹرائن تو کہا جاسکتا ہے، کم از کم اسے امریکہ کی عوامی پالیسی نہیں کہا جاسکتا ۔ الیکٹورل کالج کے ریاستی ووٹوں کی برتری کی وجہ سے ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا اس بات کی وضاحت ہے کہ امریکہ میں عوامی جمہوریت نہیں بلکہ ادارہ جاتی(پینٹا گان اور امریکی وار انڈسٹریل کیمپلیکس) حکمرانی پائی جاتی ہے۔ حالیہ پالیسی کے پس پردہ فیصلہ کن عوامل میں اور اس علانیہ پالیسی سے مستفید ہونے والے بھی یہی ادارے ہیں۔ داخلی سطح پر پاکستان کبھی بھی مستحکم حکمرانی جسے عوامی تائید میسر ہو، قائم نہیں کر پایاتاہم موجود ہ داخلی سیاسی عدم استحکام انتہائی تشویشناک ہے ۔سیاسی قوتیں منقسم ضرور ہیں مگر ان کی تقسیم نظریاتی نہیں ہے بلکہ نظر نہ آتی وجوہات پر مبنی ہے۔جماعتی گروہی اور شخصیات کے مفادات کے اردگرد بنے گئے سیاسی میلانات ہیں،صاف شفاف ،غیر مبہم آئینی ڈھانچہ اور مستحکم جمہوری سیاسی جماعتوں کے قیام کے امکانات جہاں محدود تر ہیں، وہیں ریاستی اداروں کی مخاصمت نے ان سے عہدہ برا ہونے کی استعداد و امکانات کو عریاں کردیا ہے۔اس عدم تحفظ اور خطرے کا عوامی سطح پر احساس شہریوں میں خوف اور غیر یقینی پیدا کررہا ہے جو مسائل کو مزید سنگین کرنے والا ایک انتہائی ناخوشگوار عمل ہے۔
پانامہ کیس کی حقیقت سے متعلق سوال شاید موجودہ بحرانی کیفیت میں اہم نہیں لیکن اس کی شدید تر ہوتی موجودگی اس یکتائی کو مفلوج کررہی ہے جو بیرونی خدشات کے بحرانی عرصوں میں کسی قوم کو تحفظ،بقا اور سالمیت سے سرفراز کرنے کا باعث ہوا کرتی ہے۔ میں قطعی طور پر مالی کرپشن کا دفاع نہیں کررہا مگرمیرا کہنا یہ ہے کہ بدعنوانی کا سرا قانون شکنی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی انتہا آئین شکنی ہوتی ہے۔نیز مالی بدعنوانی براہ راست انسانی کردار سے نہیں بلکہ اس معاشی نظام سے پھوٹتی ہے جس پر کوئی معاشرہ عمل پیرا ہوتا ہے۔ہم ایسے ہی ایک فرسودہ اور بدعنوانی کو پروان چڑھانے والے معاشی نظام کے حامل مگر اس سے نالاں معاشرے کے افراد ہیں۔ نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلے کے قانونی پہلوﺅں پر عدلیہ،وکلاءاور قانون کے شعبہ سے متعلق افراد مناسب رائے دے سکتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں،اس کے سیاسی و سماجی پہلوﺅں پر سیاسی تجزیے کی ذمہ داری بھی اسی شعبہ کے وابستگان یا براہ راست سیاسی طور پر متحرک کارکنوں کے ذمہ ہے۔ عدلیہ سے حکومت(نواز شریف) کا تابوت برآمد ہوگا جیسے قبل از وقت دعوے ان شکوک و شبہات کو گہرائی بخشنے کا مواد مہیا کرتے رہے جن میں پس پردہ کارفرما طاقت کی فیصلہ کن موجودگی کا تاثر پایا جاتا تھا اور اب بھی اسلام آباد کے باخبر حلقوں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں سنائی دی جانے والی سرگوشیوں سے معلوم ہو رہا ہے کہ بااختیار و فیصلہ ساز حلقوں نے نواز شریف کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سوال یہ ہے کہ طاقتور اور فیصلہ ساز حلقے کون ہیں۔آئین پاکستان میں اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں البتہ ملکی تاریخ کے تیس سال اس کے ضرور گواہ ہیں۔میاں نواز شریف ووٹ کے تقدس کی بحالی کےلئے عوامی سیاسی تحرک پیدا کرتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ ساز طاقتوں کے اتحاد کو چیلنج کررہے ہیں۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ جمہوری حکمرانی کو مستحکم کرنے کےلئے اس سوراخ کا بند کرنا اشد ضروری ہے جہاں سے شب خون مارا جاتا ہے۔ یہاں آکر میرا مسئلہ کرپشن کی نوعیت کے اس پہلو پر منتقل ہو جاتا ہے جو ریاستی آئین سے ماورا ہوکر جنم لیتا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں جس نے اپنے قیام کے روز اول سے اقوام عالم سے ایک دستوری اور جمہوری ملک بننے کا عہد کیا تھا ، آئین کی بالادستی اہم ہو جاتی ہے اور میاں نواز شریف کی اس تحریک کی حمایت کرنے کی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کیونکہ یہ میرے ملک کی سالمیت و استحکام اور بقا کا مسئلہ ہے اور میرے نزدیک اس کے تحفظ کا راستہ بھی یہی ہے۔
مستحکم جمہوری اور دستوری ریاست کی تشکیل کےلئے تاریخی مطالعہ کا تقاضہ ہے کہ عوام منظم اور متحرک ہوں۔نواز شریف کی مہم اگر یہ فرض ادا کرتی ہے تو آئین تشکیل دینے کا جو اعزاز جناب بھٹو کے سر پہ جاتا ہے اس کی بالادستی اور تحفظ کا اعزاز نواز شریف کے سرہوگا ۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اسمبلیوں کی میعاد میں ایک سال کم کرنے کی جو تجویز پیش کی ہے وہ بھی سیاسی عدم استحکام کے پس پردہ عوامل اور سیاسی سودے بازی کی غماز ہے۔کیا اسمبلیوں کی میعاد کم کرنے سے گڈ گورننس کا خواب پورا ہو جائے گایا کم میعاد کی بنا پر اراکین اسمبلی بہتر قانون سازی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیں گے؟خورشید شاہ نے اسمبلیوں کی مدت میں کٹوتی کی تجویز پیش کرکے پٹاری کا منہ کھول دیا ہے کہ اگر حکومت آئین کے آرٹیکل 62 ،63میں ترمیم کےلئے پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں موجود پوزیشن سے استفادہ چاہے تو اسے اسمبلیوں کی مدت کم کرنے پر رضا مند ہونا پڑے گا۔کیا حکومت اس تجویز کو قبول کرلے گی؟مجھے گمان ہے کہ اس تجویز کو ماسوائے طاقتوروں کے اشارے پر چلنے والے سیاسی حلقے کے کہیں سے حمایت نہیں ملے گی۔ تاہم اس تجویز سے بحران کا بنیادی سبب مزید واضح ہو کر سامنے آگیا ہے کہ اسمبلیاں سینیٹ انتخاب سے قبل تحلیل ہوں تاکہ اگلے انتخاب کے بعد ملک میں مستحکم جمہوری حکومت قائم نہ ہوسکے۔اب سوال یہ ہے کہ داخلی سطح پر موجود اس کشمکش میں کیا پاکستان اس بیرونی دباو سے نمبرد آزما ہوسکے گاجو ٹرمپ پالیسی سےمزید نمایا ہو گیا ہے؟
فیس بک پر تبصرے