سیاست میں اخلاقیات کا سوال
پاکستان میں، بالخصوص ، کسی شخص کے اعتقادات اوراس کے ماحول میں توازن تلاش کرنا بہت گھمبیرامر ہے۔ کسی کے بارے میں ہمارے خیالات ہماری خود تراشیدہ اخلاقیات جو کہ زیادہ تر ہمارے ماحول اور تجربات سے جنم لیتی ہیں ، سے پرورش پاتے ہیں مگر ایسے اخلاقی اصولوں کی پیروی سے ہمارے سیاسی راہنما عموما سیاست کی ان تہائی شکل کو پرو ان چڑھانے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
حال ہی میں عائشہ گلا لئی کی جانب سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان پرلگائے گئے الزامات سے شروع ہونے والے مباحثے کو لیجئے جس نے طبقاتی تفاوت اور صنفی امتیاز پر مبنی روایتی سیاسی قدروں پر سوالات اٹھائے ہیں۔عائشہ گلا لئی اور اس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات پر شدید ردِ عمل نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ جاگیردارانہ سماجیات ابھی تک ہمارے سیاسی راہنماﺅں کے رویوں پر اثر انداز ہیں۔ اس طرح کا چلن تمام جنوب ایشیائی ملکوں میں عام ہے مگر پاکستان میں اخلاقیات، اپنے ممدوح کی توثیق یا مخالفین کی کردار کشی کےلئے استعمال ہوتی ہیں۔ پاکستانی سیاست ک ا اخلاقی د ائرہ کار انتہائی محدود ہے، یہاں اپنے سیاسی بیانیہ کو پیش کرتے ہوئے راہنماﺅں کو محتاط رہنا چاہئے۔ پاکستان میں دو اخلاقی بیانئے اس وقت باہم گتھم گتھا ہیں۔ پہلا مالی بد عنوانی کو بنیاد بنا کر تشکیل دیا گیا ہے جو کہ پاکستان تحر یک انصاف اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے جبکہ دوسرا فرد کے ذاتی کردار پر مبنی ہے اور پاکستان تحر یک انصاف کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو مالیاتی شفافیت کوسیاسی اخلاقیات میں بنیادی اخلاقی قدر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، کا ماننا ہے کہ ریاستی نظام اور سیاست کا کسی راہنما کی ذاتی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں تاہم دوسری طرف کے لوگ بظاہر یہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی راہنما کو مروجہ اخلاقی قدروں کا پاس رکھنا ضروری ہے، اسی لئے جنسیت ایک بنیادی موضوع ہے۔
اخلاقیات سیاست کا کوئی نیا عنصر نہیں مگر اس کی حدودو قیود وقت اور ماحول کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ قدامت پرست اور لبرل، ہر دو طرح کے اہل سیاست، یا پھر اِن دونوں کے بیچ کہیں موجود ہیں، اپنے وقت کے اخلاقی دائروں سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کسی فرد کی سما جی واقتصادی حیثیت اور سماجی ذرائع پیداوار بہت حد تک اخلاقی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے راہنماﺅں کی زندگیوں میں بھی ا ن کا عکس دیکھیں ۔زراعت و صنعت کے ارتقاءکے دور میں، لوگ ایسی قیادت کو ترجیح دیتے ہیں جو ابھرتی ہوئی معاشرتی و ثقافتی حقیقتوں کو اپنانے کیلئے رضامند، دور اندیش اور کچھ نیا پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہو کہ وہ ہماری سماجی و معاشی ضروریات کیلئے وسائل فراہم کرسکے گا تو وہ راہنما کے سماجی و اخلاقی کردار پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔اس کے باوجودروایات پر یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے کسی فرد کاذاتی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دائیں بازو اور مرکزیت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کیلئے سماجی اور مذہبی اقدار بہت اہم ہیں۔ وہ ایسی قیادت برداشت نہیں کرسکتے جو اعلی اخلاقی قدروں کی حامل نہ ہو، چا ہے وہ مالی معاملات میں شفاف ہو اور طاقت کا نا جائز استعمال بھی نہ کرتی ہو۔ بدلتے ہوئے پیداواری ذرائع، شرح خواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی شہرکاری کے سبب شعبہ خدمات عامہ ٹیکس محصولات کا اہم ذریعہ بن گیا ہے ۔ اس صورتحال نے ایسی قیادت کی ضرورت بڑھا دی ہے جو ذاتی مالی معاملات میں شفا ف اور سماجی طور پر دور اندیش ہو۔ ایک اور چیز جس نے اس مانگ کو تقویت بخشی ہے وہ بیرون ملک مقیم باشندے ہیں جو کہ اپنے متعلقہ ممالک میں شعبہ خدما تِ عامہ سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ رجحانات ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں کیوں کہ یہاں ایک بھی مرکزی جماعت ایسی نہیں جو کسی خاص طبقے کی نمائندہ یا مخصوص اخلاقی قدروں کی امین ہو۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے مرکزی راہنماﺅں کو سماجی نظریات اور معاشرتی اخلاقیات کی کسوٹی پرپرکھا جاتا ہے۔ اس حقیقت کی مزید تصدیق اس وقت ہو جاتی ہے جب پاکستانی سیاسی جماعتیں اپنے راہنماﺅں کے شخصی اور انفرادی کردار کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں اب تک سیاسی قیادت کے شخصی کردار کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تاہم طاقتور اداروں اور ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے نے شفاف مالیاتی قدروں کے فروغ کی کوششیں کی ہیں۔ اِس میں ا س وقت کامی ابی بھی حاصل ہوئی جب حال ہی میں سابق وزیرِر عظم نواز شریف کو انہیں بنیادوں پر نا اہل قرار دے دیا گیا لیکن ان کے لئے بھی س یاست کی سماجی اخلاقیات کی اس ساخت کی تحدی کا صحیح وقت نہیں ہے۔ اگرچہ طاقت کا توازن فی الحال مذکورہ حلقوں کی جانب جھکتا دکھائی دیتا ہے لیکن وہ ایک تغیر پذیر معاشرے کی مذہبی وسماجی حقیقتوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔
(بشکریہ جیوٹی وی ،ترجمہ: حذیفہ مسعود)
فیس بک پر تبصرے