اسلامی شدت پسند تنظیمیں اور بریکس

988

دنیاکی پانچ ابھرتی طاقتوں چین، انڈیا، روس، برازیل اورجنوبی افریقہ  کی تنظیم بریکس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند اسلامی تنظیموں کی کاروائیوں پرتشویش کااظہارکیاہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کے بعد دیگرعالمی طاقتوں کی طرف سے یہ الزامات عالمی سطح پرپاکستان کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار ہیں۔ یہ انڈیاکی سفارتی کامیابی اورپاکستان کی ناکامی تصورکی جارہی ہے کیونکہ تشویش ظاہرکرنے والوں میں پاکستان کے نئے اسٹرٹیجک حلیف چین اورروس بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑالمحہ فکریہ یہی ہے کہ چین نے ماضی کی طرح اس بار آڑے آکرراستہ روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی تنہائی کے سلسلہ کی نئی کڑی ہے۔ بریکس کے بیان میں افغانستان، انڈیا اورچین سے برسرپیکار مسلح اسلامی تنظیموں کے علاوہ حزب التحریر کا ذکرکیاگیاہے۔ پاکستان کاموقف ہے کہ ان تنظیموں پرپاکستان میں پہلے ہی پابندی عائد ہے اوربعض کے رہنمانظربندبھی ہیں۔ معاصر قومی اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے لئے دوست اوردشمن دونوں کی طرف سے واضح پیغام ہے کہ اس کا شدت پسند تنظیموں کے لئے نرم گوشہ اب قابل قبول نہیں۔ پاکستان کے لیے ان الزامات کواب سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اوراس کومحض امریکہ، انڈیا اورافغانستان کے لگائے گئے الزامات کی روشنی میں  نہیں دیکھناچاہئے۔ سینٹرافراسیاب نے 2ستمبرکولکھاتھاکہ سی پیک اورطالبان کی حمایت پالیسی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کواب دونوں میں سے ایک کومنتخب کرنے کافیصلہ کرناہوگا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے قریبی دوست جیسے چین بھی پاکستان کا راستہ بدلنے میں ناکامی پرمایوسی کاشکارہے۔ اس سے قبل چین نے متعدد باراقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کی حمایت یافتہ جیش محمد کے مسعود اظہر پرپابندی کی کوششوں کوناکام بنایاہے۔ پچھلے سال کے اواخرمیں جب چین نے مسعود اظہرسے متعلق قرارداد ویٹوکی تو بھارت نے کہاتھاکہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کاروائی نہ کرپانے کی وجہ دہرے معیارہیں۔ اب انڈیا نے اسے اہم پیش رفت قراردیاہے۔

پاکستان میں کام کرنے والی مسلح تنظیموں کے حوالے سے چین کی  پالیسی زیادہ ترپاکستانی ریاست کے قریب تصورکی جاتی ہے۔ ماضی میں انڈیا کے ساتھ  پاکستان ہی  کی نہیں چین کی بھی جنگ ہوچکی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اوربھارت کے درمیان سرحد پرکشیدگی پھرابھری۔ اس سال کے شروع میں جب پاکستان نے حافظ سعید کونظربند کیاتواس کے پیچھے چین کاہاتھ تلاش کیاگیا۔ اس اعلان کے فوری بعد انسداد دہشت گردی اوربیرونی دفاعی امورکے چینی وزیرنے پاکستان کادورہ کیا۔ سرکاری اعلامیہ کے مطابق چینگ گوپنگ کے دورہ پاکستان میں  انسداد دہشت گردی کی کوششوں کوزیربحث لاناتھا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدارآنے کے بعد چین نے پاکستان سے یہ قدم اٹھانے کوکہا۔

چین کوپاکستان کی اسلامی تنظیموں کے حوالے دوقسم کے خاص تحفظات ہیں۔ پہلا یہ کہ  اس کاتعلق نئی سرمایہ کاری سی پیک سے ہے اوردوسرا تحفظ  چین کے علاقہ سیانک کیانگ کے مسلمان خطے میں اسلامی شدت پسند تنظیموں خاص کر مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے حوالے سے ہے۔ یہ تنظیم کاشغرکے اسلامی تہذیب وتمدن کے احیاء اورایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مسلح جدوجہد پرکمربستہ ہے اوراس کے القاعدہ اوراس کےمتعلقہ گروپوں بشمول طالبان سے افغان جنگ کے دوران تعلقات استوارہوئے ہیں۔ چین نے ماضی میں مسعوداظہرکے خلاف قرارداد اس لئے ویٹوکی کہ ایک تواس سےبھارت کوفائدہ ہوگا اورکشمیرمیں علیحدگی کی اسلام پسندقوتوں کونقصان ہوگاجو پاکستان اورچین کے مشترکہ مفادات کے منافی ہے۔ دوم  اس سے اسلام پسند گروہ پاکستان میں نئی چینی سرمایہ کاری کے خلاف ردعمل ظاہرکرسکتے ہیں۔ بلوچ اورسندھی شدت پسند پہلے اس کے خلاف حملے کررہے ہیں، یوں ایک نیامحاذ کھولنے سے چین احترازکررہاتھا۔ لیکن بریکس پرمشترکہ اعلامیہ کے بعد یہ دیکھناباقی ہے کہ آئندہ مسعوداظہراورحافظ سعید کے حوالے سے چین کااقوام متحدہ میں کیاردعمل دیکھنے میں آتاہے۔پاکستان پہلے ہی اس خدشہ کااظہارکرتارہاہے کہ سی پیک کے حوالے سے نئی سرمایہ کاری اورپروجیکٹوں کوبھارت ناکام بنانے کی کوشش کررہاہے اوریہ بلوچ ،سندھی علیحدگی پسند شدت پسند تنظیموں کی مدد کررہاہے۔ اس  مدد میں افغان حکومت کی پشت پناہی بھی بھارت کوحاصل ہے۔ ایک طرف بھارت سندھ سے ملحقہ سرحد اوردوسری طرف افغانستان کے ساتھ سرحدی پٹی سے مداخلت کاروں کی مدد کرتاہے۔ یہ تنظیمیں زیادہ ترسیکولرقوم پرستانہ نظریات کی حامل ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے سندھ بھرسے سینکڑوں کی تعداد میں لبرل سیکولرافراد کوگرفتارکیاہے جن میں سیاسی کارکن، ادیب، شعراء اورانسانی حقوق کے کارکن تک شامل ہیں لیکن ایک امرقابل غورہے کہ پاکستان میں  چین کی نئی سرمایہ کاری، سڑکوں اورمواصلاتی روابط کے بعد پاکستان اورچین کی اسلامی تنظیموں کے بھی رابطوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ماضی میں پاکستانی ریاست کی کوششوں سے اسلامی تحریکوں نے چین کوجہاد کے عالمی ایجنڈے سے باہررکھا مگراب شائد یہ ممکن نہ رہے،اس کی دووجوہات ہیں۔ ایک طالبان جو پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں اوردوسرا داعش جو خطے اورعالمی سطح پربننے والے نئے اتحادات ہیں جس میں امریکہ، انڈیا اورافغانستان ایک گروپ میں ہیں۔ ظاہرہے یہ چین میں پہلے سے موجود شدت پسندتنظیموں میں جگہ پاسکتے ہیں خاص کرافغانستان کے راستے جہاں کی کچھ اسلامی تنظیمیں اب جہاد ترک کرکے افغان سیاست میں سرگرم ہیں۔

جب 2008میں اقوام  متحدہ نے جماعت الدعوہ کودہشت  گردقراردیااوراس کے چاررہنماوں پرپابندی عائد کردی توپاکستانی اسٹبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کوخبردارکیاکہ اگلی باری انکی آسکتی ہےکیونکہ القاعدہ سے وابستہ کئی افراد جماعت کے اراکین کے گھروں سے برآمد ہورہے تھے اوراس کی طلبہ تنظیم کے کئی سرگرم ارکان القاعدہ اورطالبان میں شامل ہورہے تھے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت کوآگاہ کیاگیاکہ ان کواپنے خلاف کسی اقدام کوروکنے کے لئے چین کی مدد درکارہوگی اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے جب جماعت چین کویقین دہانی کرائے کہ وہ چین کے خلاف کسی جہادمیں ملوث نہ ہوں گے۔ یوں جماعت اسلامی کا ایک وفد فروری 2009میں قاضی حسین احمد اورمنورحسن کی قیادت میں چین گیا اورباقاعدہ معافی نامہ سے مشابہ معاہدہ کیااورچین کی سالمیت کوتسلیم کرتے ہوئے وہاں جہاد کومستردکیا۔ اسی طرح جے یوآئی بھی چین کے خلاف جہادپرخاموش ہے اورسرمایہ کاری پرنظررکھے ہوئے ہے۔

نئی صف بندیاں اورنئے اتحادات کےاثرات  جہاں اسلامی تنظیموں اوران کے رحجانات کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں،وہیں ایسی تنظیموں سے متعلق ریاستوں کے نقطہ نظر پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...