گلوبل ویلیج، روہنگیا اور نظر انداز مناظر

1,495

دنیا واقعاً ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ کیسے ساری دنیا روہنگیا کے مظلوموں کے لیے بیدار ہو گئی ہے اور حرکت میں آ گئی ہے۔ اقوام متحدہ میانمار کی حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے،امریکی اور برطانوی ادارے چیخ رہے ہیں، مسلمان حکومتیں احتجاج کررہی ہیں، ترکی کے وفود بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے پہنچ گئے ہیں، حکومت پاکستان نے بھی آواز احتجاج بلند کی ہے، ایران کی حکومت نے عالمی اداروں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ تہران میں لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں، انڈونیشیا اور ملائیشیا نے میانمار سے احتجاج کیا ہے، چین نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے، بھارت میں مسلمانوں نے مظاہرے کیے ہیں۔ پوپ نے فریاد کی ہے ۔سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا چیخ رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتیں مسلسل احتجاج کررہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور نوبل انعام کے بعض حصہ دار بھی بول اٹھے ہیں۔
کوئی اسے انسانی المیہ قرار دے رہا ہے اور کوئی اسے خون مسلم کی ارزانی سے تعبیر کررہا ہے۔ یہ سب گلوبل ویلیج کے کمال کا ایک گوشہ ہے۔ عالمی میڈیا نے اسے ایک عالمی اور گلوبل مسئلہ بنا دیا ہے۔ بننا بھی چاہیے تھا کہ روہنگیا کے مسلمان واقعاً مظلوم ہیں۔ ان کے گھر، مسجدیں، تعلیمی ادارے سب کچھ تباہ کردیا گیا ہے۔ انھیں شہریت کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ایسے تو جانوروں کو نہیں مارا جاتا جیسے انسانوں کو مارا جارہا ہے۔ آنکھوں کو چاہیے کہ پانی نہیں لہو روئیں۔
لیکن یہ کیا کہ گلوبل ویلیج اپنی مرضی کے منظر کیوں دکھاتا ہے اور اپنی مرضی کے مسئلے کیوں نمایاں کرتا ہے۔ اس ’’گلوبل طاقت‘‘ نے کشمیر، فلسطین، عراق، بحرین، یمن اور العوامیہ جیسے المیوں کو گلوبل کیوں نہیں بنایا۔ ان مسائل کے لیے ہر طرف چیخیں کیوں سنائی نہیں دیں۔ ہم جانتے ہیں کہ روہنگیا کے مسلمان سفاک فوجیوں اور مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ایک المیے سے گزررہے ہیں لیکن ہم دنیا میں اس سے بھی بڑے المیوں کی خبر رکھتے ہیں اور یہ بھی خبر رکھتے ہیں کہ جنھوں نے دنیا کو ’’گلوبل ویلیج‘‘بنایاہے وہ اس گاؤں میں اپنی مرضی کی فلمیں ریلیز کریں گے اور اپنی مرضی کے ڈرامے دکھائیں گے۔ دنیا کے بڑے بڑے اداروں اور شخصیات نے جس انداز سے روہنگیا کے حوالے سے سچی جھوٹی تصویریں اور فلمیں بے دھڑک اور اندھا دھند نشر کی ہیں اس سے اس ’’عالمی گاؤں‘‘ میں رائج قانون کی حکم فرمائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
آئیے آپ کی خدمت میں صرف’’یمن‘‘ کے حوالے سے چند حقائق پیش کرتے ہیں۔
26مارچ 2015 کو سعودی عرب کی قیادت میں 9ممالک نے یمن کے خلاف یک طرفہ جارحیت شروع کی۔ اس اتحاد کا کہنا تھا کہ صنعاء میں برسراقتدار آنے والی حکومت قانونی نہیں۔ یہ دنیا میں پہلی اور ابھی تک واحد مثال ہے کہ کسی ملک میں داخلی تبدیلی کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر کسی مسلمہ عالمی فورم کی قانونی تائید یا توثیق کے بغیر ہی 9ممالک نے یک طرفہ طور پر کسی ملک پر چڑھائی کردی ہو۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اسی سعودی عرب اور اس کے متعدد جارح اتحادیوں نے مصر میں ڈاکٹر مرسی کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرنے والے جنرل سیسی کی حکومت کو اربوں ڈالرامداد فراہم کی۔ گویا یمن میں باقاعدہ مستعفی ہونے والے صدر کی حکومت قانونی رہی اور مصر کے منتخب صدر کی حکومت غیر قانونی ہو گئی۔ بہرحال ہمارا اصل موضوع یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ یمن میں اس وحشت ناک جارحیت نے جو غم ناک انسانی المیہ جنم دیا اس کی طرف دنیا نے ہرگز کوئی توجہ نہیں کی اور ایسا لگتا ہے کہ سب نے اس سے منہ موڑ رکھا ہے۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ صنعا کے ایک قانونی ادارے نے جارحیت کے 800 دنوں میں یمن میں پھیلنے والی ہمہ گیر تباہی کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس ادارے کا نام Legal Center for Rights and Development(المرکز القانونی بالحقوق والتنمیہ)ہے۔ اس کی مکمل تفصیل کے لیے ہم اس کی ایک تصویر پیش نظر مضمون میں شامل کر رہے ہیں۔ اردو قارئین کے لیے اس کا مفہوم بھی پیش خدمت ہے:
جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد: 2689
جاں بحق ہونے والی عورتوں کی تعداد: 1942
جاں بحق ہونے والے مردوں کی تعداد: 7943
کل ہلاکتیں: 12,574
زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد: 2541
زخمی ہونے والی عورتوں کی تعداد: 2115
زخمی ہونے والے مردوں کی تعداد: 16164
کل زخمی 20,820
کل زخمی اور جاں بحق ہونے والے شہری: 33395
تباہ ہونے والی مسجدیں 746، سکول اور تعلیمی ادارے775، سیاحتی سہولیات 230، کھیلوں کی سہولیات 103، یونیورسٹیوں کے مقامات 114، میڈیا کی سہولیات 26، اناج کے ذخائر 676، اناج کے ٹینکرز 528، ایئرپورٹس15، بندرگاہیں 14، گرڈ اور پاور اسٹیشن 162، پانی کے مراکز368، مواصلاتی مراکز 353، صحت کی سہولیات 294، پولٹری فارم 221، تباہ شدہ مکانات 404,485،سرکاری دفاتر و مراکز 1633، پل اور شاہراہیں 1733، گاڑیاں 2762، کمرشل مراکز 5769، زرعی مراکز 1784، بڑی مارکیٹیں اور مالز 552، فیکٹریاں 289، پٹرول پمپ 318، آئل ٹینکر 242۔

یہ 2جون 2017تک کا ایک تخمینہ ہے ۔ دیگرکئی ایک عالمی اداروں نے بھی اس سے ملتے جلتے اعداد و شمار مہیا کیے ہیں ۔ آج تقریباً 100دن مزید گزر چکے ہیں خدا جانے کیامزید ہولناکیاںیمن کی مظلوم سرزمین پر گزر چکی ہوں گی۔یہ اس یمن کی غم ناک کہانی ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے اس نئے قصۂ ظلم سے پہلے کہا تھا کہ وہاں کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہی ہے۔
کیا واقعی اب بھی یمن میں کچھ بچا ہے، کیا سعودی اور اس کے اتحادیوں کے طیاروں کو اب بھی تباہی کے لیے یمن میں کچھ مل جاتا ہے؟
سینہ پھٹتا ہے ان سب اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اور حیرت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف نہ کوئی رائے عامہ میں بیداری دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی حرکت۔ہمارے انسانی حقوق کے علمبردار ادارے بھی ٹک ٹک دیدم و دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں، مذہبی وڈیرے بھی ان کی طرف آنکھ بھر دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں کیونکہ گلوبل ویلیج مالک ومختار نہیں چاہتے کہ ہم اس پر لب کشائی کریں۔ کچھ قراردادیں ہیں، کچھ دبی دبی سی مذمتیں ہیں لیکن اس طرح سے کہ کہیں کوئی سن نہ لے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...