حلقہ این اے 120 ۔۔۔۔۔۔چند دلچسپ سیاسی، فکری انکشافات

978

حلقہ این اے 120 لاہور کا وہ حلقہ ہے جہاں سے میاں محمد نواز شریف کئی بار منتخب ہوئے ،پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ملک کے وزیراعظم بھی بنے ۔کہنے کو یہ مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے لیکن ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حلقہ مسائل کا گڑھ ہے ۔ یہاں ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا مسلم لیگ(ن) قیادت کا اس حلقے کے لوگوں پہ حد سے زیادہ اعتماد کا اظہار ہے ورنہ ہارنے کے خوف سے وہ ضرور اس حلقے کی حالت زار کو بہتر کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے کے لوگ بھی اپنی حالتِ زار پہ مطمئن اور خوش ہیں ۔ اندرونِ سندھ میں ووٹ ’’بھٹو‘‘ کا ہے تو اس حلقے میں ووٹ ’’نواز شریف‘‘ کا ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے لاہور میں برف پگھل رہی ہے۔ ماضی قریب میں،مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف کا امیدوار زیادہ فرق سے نہیں ہارا، سردار ایاز صادق اورعبدالعلیم خان کے ضمنی الیکشن میں مقابلہ اسکی مثال ہے۔ جس میں

سردارایاز صادق اُتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائے جتنا خیال کیا جا رہا تھا۔
2013ء کے الیکشن میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52,354 ووٹ لیئے اورمیاں نواز شریف نے 91,683ووٹ لیئے۔ اگر موجودہ ضمنی الیکشن میں ڈاکٹر صاحبہ کامیاب نہیں ہوتیں اورصرف نواز شریف کے ووٹرزکم کر دیتی ہیں تو یہ بھی تحریک انصاف کی جیت اور مسلم لیگ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔ مصدّقہ اطلاعات کے مطابق ،مسلم لیگ(ن) اس حلقے سے ووٹ لینے کے لئے ’’محبت اور جنگ میں سب جائز ‘‘ کے مطابق اُن حدود کو بھی پار کر رہی ہے جن کے لئے میاں نواز شریف نے جی ٹی روڈ مشن کا آغاز کیاتھا ۔اگر اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہئے تو سیاستدانوں کے لئے بھی الیکشن لڑنے کا کوئی ضابطہ اخلاق ہو گا یاعوام انہیں ’’مادرپدرآزادی‘‘کاحق دے کر پارلیمنٹ میں بھیجتی ہے ۔ حلقہ این اے 120 میں سیاستدانوں کی سرگرمیاں بتاتی ہیں کہ انہیں ’’حق اور اصول‘‘ تب یاد آتے ہیں جب ان پہ بُرا وقت آتا ہے ورنہ طاقت کے نشے میں وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کے نہ کرنے کی امید اپنے مخالف و مقابل سے کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد 32 ہے۔ نمایاں امیدوار کلثوم نواز شریف (مسلم لیگ ن)، ڈاکٹر یاسمین راشد(تحریک انصاف) ،فیصل میر (پاکستان پیپلز پارٹی)،ساجدہ میر(پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز گروپ) ضیاء الدین انصاری(جماعت اسلامی)،محمدیعقوب شیخ(ملی مسلم لیگ) اورشیخ محمد اظہر رضوی( تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان) ہیں۔

جماعت اسلامی کی مستقل مزاجی ہر الیکشن میں قابل دید ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں سے جماعت اسلامی الیکشن میں اپنا امیدوار ایسے اتارتی ہے جیسے وہ پہلا الیکشن لڑ رہی ہو۔ انسان جہاں دیکھتا ہے ’’حاصل وصول‘‘ کچھ نہیں وہاں وہ میدان چھوڑ دیتاہے ، اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلیتا ہے ، مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے یا پھر واپس اپنی اصل راہ پہ آجاتا ہے ۔ جماعت اسلامی نے ان میں سے کچھ بھی ایسا نہیں کیا۔ جماعت اپنی علمی وجاہت سے بڑا عرصہ ہوا محروم ہو چکی اب وہ اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی کھو چکی ہے۔

لشکر طیبہ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے حافظ سعید صاحب اول روز سے اپنے نظریات میں واضح ہیں ان کے نظریات میں ’’پہلے پاکستان‘‘ اور ریاستِ پاکستان کے وفادار ہونے کا ایجنڈا شامل ہے۔ اُن میں اور دیگر مذہبی جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے ’’جہاد کشمیر‘‘ سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اختتام ’’ملی مسلم لیگ‘‘ پہ کیا جب کہ دیگر مذہبی جماعتوں نے اپنے سفر کا آغاز ’’درس قرآن‘‘ سے کیا اوراُن کا اختتام سیاسی سرگرمیوں پہ ہوا۔ حافظ سعید صاحب کا فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے نام سے ایک فلاحی تنظیم بھی پاکستان میں کام کر رہی ہے جس نے زلزلوں، سیلاب اوردیگر آفات میں غریب عوام کی بہت مدد کی ہے ۔

تحریک لبیک یارسول اللہ ، تحریک لبیک پاکستان کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی ہے ، اس کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی ہیں ۔ چند سال پہلے آپ ایک جامعہ میں شیخ الحدیث اور ایک سرکاری مسجد کے خطیب تھے۔ آج کل تمام علمی سرگرمیاں معطل کر کے حضورﷺ کے دین کوتخت( اقتدار) پہ لانے کے لئے خود کو مصروف کر چکے ہیں۔ ہر دور میں مذہبی طبقے نے مختلف نعرے متعارف کروائے ہیں مثلاً نظامِ مصطفی، مصطفوئی نظام،اسلامی انقلاب اور اسلامی تحریک ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ اپنی فکر ، فرقہ اور فقہ کو پاکستان کی عوام پہ نافذ کرنا ہے۔مثبت پہلو یہ ہے کہ خادم حسین رضوی کی شعلہ بیانی کے باوجود ان کی جماعت نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان سے اُن کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کی’’ سیاسی حرکت‘‘ پہ جذباتی لوگ انہیں چھوڑ چکے ہیں ۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ رہے سہے لوگوں کی طاقت سیاست میں ہی خرچ ہو جائے گی۔خادم حسین صاحب کی تقاریر سے اندیشہ تھا کہ کوئی انتہا پسندگروپ وجود میں نہ آ جائے لیکن مولانا بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح لفظی تشدد کے ہی قائل ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ان لوگوں کے پاس اپنا غصہ نکالنے کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ’’الیکشن ۔۔۔‘‘۔

بدقسمتی سے اس حلقے میں اکثر امیدوار سیاسی کارکن نہیں ہیں۔ بیگم کلثوم نواز شریف ایک گھریلو خاتون ہیں۔ پرویز مشرف کے دورمیں، اُن کا سیاسی کردار سامنے آیا تھا اس کے بعد وہ دوبارہ روپوش ہو گئیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں ،ایک عددکلینک اوراین جی او چلاتی رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے پیشے سے انصاف کرتیں، اس بوڑھاپے میں نوجوان نسل کی بہترین تربیت کرتیں ۔ فیصل میر بھی عملی سیاست سے وابستہ اور سینئر صحافی حامد میر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ضیاء الدین انصاری بھی پیشے کے لحاظ سے ایڈووکیٹ ہیں اور ایک سیاسی کارکن ہیں اگرچہ غیر معروف ہیں۔ساجدہ میر بہت عرصے سے عملی سیاست سے وابستہ ہیں وہ واقعی ایک سیاسی کارکن ہے۔

سید احمد شہید کے جہادی وارث اور مولانا ابو الکلام آزاد کے سیاسی وارث دونوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ اب مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فکری وارث بھی سیاسی میدان میں اترے ہیں۔دُکھ کی بات یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔جمعیت علمائے پاکستان (نورانی ،نیازی گروپ)، نظامِ مصطفےٰ پارٹی ،سنی اتحاد کونسل، جماعت اہلسنت ،سنی تحریک اور پاکستان عوامی تحریک کے انجام سے اگر سبق سیکھا ہوتا تو اپنے علمی اور فکری میدان کوکبھی نہ چھوڑتے ۔ قال اللہ اورقال رسول اللہ ہی ہمارے اسلاف کی میراث تھی جس سے عام وخاص سب فیض یاب ہوتے اور اُن سے راہنمائی لیتے تھے۔ یہ وہی مقام تھاجہاں سے حکمران ، سیاستدان، تاجر ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ ، وکلاء، ججز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور عوام کو علم و عرفان نصیب ہوتاتھا۔ اگر وہ فریق بن جاتے تو یہ چشم ہائے فیض کب کے خشک ہو چکے ہوتے۔ علماء ومشائخ کے وارثوں کو زمانہ حال کی نہیں ،مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کہ آنے والا وقت کہیں اِن کی بداندیشی ،بے بصیرتی اورکوتاہ نظری پہ ماتم نہ کرے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...