عراق کی نئی تقسیم اور مشرق وسطی پر اس کے اثرات

959

عراق کے صوبہ کردستان میں آئندہ ہفتے ریفرینڈم ہونے جارہا ہے جس پر عراق سمیت  کرد آبادی والے تمام ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔عراق میں کردوں کی آبادی  بیس فیصد کے قریب ہے اور  ۲۵ ستمبر  کو آزاد کردستان  کا فیصلہ متوقع ہے۔

کرد قوم عراق،شام،ترکی،ایران اور آرمینیا کی حدود  پر پھیلی ہوئی ہے اور ان کی آبادی تیس سے چالیس ملین ہے۔یہ قوم مشرق وسطی کی چوتھی بڑی قوم سمجھی جاتی ہے لیکن  خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے مختلف ملکوں میں تقسیم ہے، پانچ ممالک میں بکھری ہوئی اس قوم کو ایک پلیٹ فارم  پر جمع کرنے والی چیز قومیت اور زبان ہے،اگرچہ ان کے اپنے اپنے لہجات ہیں اور یہ کرد کے علاوہ فارسی اور عربی زبان بھی بولتے ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز سے کرد عمائدین نے  آزاد مملکت کردستان کا خواب دیکھا تھا جسے عثمانی سلطنت کے سقوط کے بعد برطانیہ اور اس کے حلفاء نے سیفر  معاہدے کے تحت ۱۹۲۰ میں ایک دستاویز کی شکل دی تھی۔مگر آزاد کردستان کی امید اس کے تین سال بعد ہی دم توڑ گئی تھی جب  معاہدہ لوزان کے تحت حالیہ ترک حدود طے پائی تھیں جس میں کرد آبادی کا معتد بہ حصہ بھی شامل ہے۔

اس کے بعد سے اب تک کرد مختلف ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے بٹے ہوئے ہیں اور اس سو سال کے عرصہ میں کردوں نے بارہا الگ ریاست کے قیام کی کوششیں کیں جو کہ کامیاب نہ ہو سکیں۔اور آئندہ ہفتے عراق میں ہونے والے ریفرنڈم میں توقع ہے کہ کم از کم عراق کے کرد الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ بات صرف عراق تک محدود نہیں،اگر یہ تحریک عراق میں کامیاب ہو جاتی ہے جس کے قوی امکانات ہیں تو اس کے بعد دوسرے ممالک میں آباد کردوں کی تحریک کو بھی تقویت ملے گی اور وہ بھی کردستان کے ساتھ الحاق پر زور دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ اس ریفرنڈم کی وجہ سے ترکی،ایران اور شام بھی پریشان ہیں اور یہ ریفرنڈم رکوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ترکی میں کردوں کی آبادی پندرہ فیصد سے زائد ہے اور وہاں پر بھی کردستان کی تحریک زوروں پر ہے جس کی وجہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کردوں پر نافذ کی جانے والی بے جا سختیاں اور پابندیاں ہیں۔اتاترک نے عثمانی رسم الخط کے ساتھ ساتھ کردوں کی زبان،ثقافت اور حتی کہ کرد شناخت کا ہی انکار کر تے ہوئے کردوں کو پہاڑی ترک قرار دیا تھا۔۱۹۷۸ میں عبداللہ اگلان کردی نے کردوں کی ایک جماعت بنا کر پہلی دفعہ ترکی سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا جسے بغاوت قرار دے کر سختی سے کچلا گیا اور چالیس ہزار کرد اس تحریک کی نذر ہوگئے۔۲۰۱۲ میں ترک حکومت نے کردوں سے مذاکرات کر کے ایک سالہ معاہدہ کرلیا تھا جس میں کردوں کے محرومیوں کے ازالے اور مساوی حقوق کی فراہمی جیسے مطالبات مانے گئے تھے لیکن شاید ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

شام میں آباد کرد آٹھ سے دس فیصد ہیں ،شامی حکومت نے بھی کردوں پر مظالم ڈھائے اور انہیں اپنی زمینوں سے بےدخل کر کے عربوں کو آباد کیا،۲۰۱۴ میں شام نے النصرہ فرنٹ اور اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی افواج کرد علاقوں سے نکالی جس کے بعد  کردوں کو وہاں متحد ہونے کا موقع مل گیا تاہم کرد اتحاد کا کہنا ہے کہ ان کے منصوبے میں الگ ریاست کا قیام شامل نہیں ہے۔

امریکہ سمیت متعدد ممالک کی جانب سے کرد رہنما مسعود بارزانی سے ریفرنڈم ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جسے کرد رہنما نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریفرنڈم ہر حال میں اپنے مقررہ وقت پر ہو گا،جس کے بعد ترک وزیراعظم  بن یلدرم نے کہا ہے کہ یہ ریفرنڈم ہمارے لیے قومی چیلنج ہے اور اس سے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔

یلدرم کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس وقت مشرق وسطی پہلے  ہی بہت بڑ ی تباہی کا شکار ہے ایسے میں  خطے میں تقسیم یا آزادی کی کوئی بھی تحریک مزید خلفشار کا باعث  بنے گی،تاہم اب یہ معاملہ صرف بیانات کے ذریعہ سلجھنے والا نہیں ہے بلکہ جن ممالک میں کرد اقلیت آباد ہے ان کو کردوں کو اعتماد میں لینے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔سرکاری محکموں میں کر د  نوجوانوں کے کوٹے میں اضافہ،مساوی حقوق کی یقین دہانی اور  نفرت کا سبب بننے والی محرومیوں کے ازالے سے ہی اب علیحدگی کی تحریک کو روکا یا کم از کم موخر کیا جا سکتا ہے۔بصورت دیگر  قومیت کی بنیاد پر  ان اسلامی ممالک میں کوئی نئی تقسیم اگر سامنے آتی ہے تو اس سے دیگر ممالک سے اٹھنے والی علیحدگی کی نحیف آوازوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔ کردستان کی حد تک  تو پانی تو شاید سر سے گزر چکا لیکن کیا پاکستان سمیت دوسرے ممالک اس سے کچھ سبق سیکھیں گے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...