ثقافتی تاریخ کے تراشے

958

کینوس گیلری کراچی میں منعقدہ ”بکھرے اوراق“ کے نام سے معنون نائلہ محمود کے متنوع ڈیجیٹل اور نقاشی فن پاروں کی حالیہ نمائش ایک مختلف طرز کی مصوری کا مظہر ہے۔کسی معروف تصویری اظہاریے کی بجائے’ بکھرے اوراق‘ ایک غیر معمولی مصورانہ نمائش ہے جس میں سامراج زمانے کے منحنی خطوط اور شاعری پر مشتمل نقاشی کے نمونے ، بوسیدہ،گردآلود اور خستہ حال تحریروں کے ٹکڑے ،بکھرے ہوئے اوراق اور موسمیاتی تغیر کا مقابلہ کرتے نسخوں کی ترجمانی کرتے فن پارے جمع کئے گئے ہیں۔یہ فن پارے دیکھنے سے زیادہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے اندر پوشیدہ معلومات کے سبب دیکھنے والوں کو تفریح ِطبع اور آگہی بخشنے کے ساتھ ساتھ ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے۔ یہ نمائش نو آبادیاتی یادگاروں کو جمع کرنے کا شوق رکھنے والے افراد، سماجی ماہرین اورکتاب پسندوں کیلئے خصوصی دلچسپی کا باعث ہونی چاہئے۔

یہ نائلہ محمود کا تاریخ سے غیر معمولی لگاﺅ ہے جس نے انہیں اس جداگانہ اور بدیہی منظر کشی پر مائل کیا۔ اس نمائش کا خوش کن پہلو تاریخ کے کوڑے دان سے بطور ثبوت مسلم گھرانوں کے رسوم و رواج اوربرطانوی ثقا فت کے زیرِ اثرپنپنے والے رویوں کو تفصیلاًبیان کرنے والے بوسیدہ صفحات، گوند سے باہم جڑے ہوئے اوراق اور خستہ حال کتابوں کی سخن طرازی او رحالتِ طبعی کوبازیافت کرنا ہے۔ ان متفرقات کو ایک جمال آرا ءنمائش میں اس قدر محبت اور عمدگی سے پیش کرکے نائلہ محمود نے ناظرین کوسامراج کے تحت چلنے والے نو آبادیاتی نظام کے بارے میں تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بالکل بنیادی اور ابتدائی سطح کی عکاسی کرتی منظرنگاری کے باعث اس میں پنہاں پیغام کے ذریعے اس نمائش کو برِصغیر میں انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کی مادری زبان اردو کے اندازِبیاں، اسلوبِ تحریر اورطرزِ قرات کی ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ مصنفین کی طرف سے گھرداری پر مبنی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کی تصاویر زیادہ صریح  اورواضح ہیں جیسا کہ محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ کی کتاب جو قاری کو زنان خانے کے اندرونی منظر سے آگاہی فراہم کرتی ہے۔Queen Victoria’s favourite Soup کا ترجمہ ’ملکہ معظمہ کا پسندیدہ شوربا ‘ مضحکہ خیز ہے مگر نعمل خانہ (Kitchen) تحریر النساء (Self Help) جیسے عنوانات اردو زبان کے رسمی اور شائستہ استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج کی انگریزی زدہ عامیانہ اردو زبان کے مقابلے میں ایسا اندازہمیں کافی عجیب اور فرسودہ لگتا ہے۔ مصنفین کی جانب سےکُکری بُک، مشرقی مغربی کھانے ،  چِیز سُواس ، بلیسنگ فرام دی کپ بورڈ، اور دی برائڈ جیسے عنوانات کی حامل گھریلو تراکیب کیلئے راہنما کتابوں کے فنی شہہ پاروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی ادب و آداب نے کس طرح مسلمان گھرانوں کے باورچی خانوں میں سرایت کرنا شروع کیا۔روایتی دسترخوان سے مروجہ کھانے کی میز تک کا سفرصر ف ایک عام معاشرتی بدلاﺅ نہیں ہے۔

 اگر غور و خوص کیا جائے تو کوئی بھی شخص اس نمائش سے یہ اخذ کر سکتا ہے کہ سامراجی نظام کے زیرِ سایہ رہنے والے لوگوں کوکس طرح غیر محسوس طریقے سے ثقافتی تغیر کے مدوجزرکا سامنا رہا۔گرِڈ آئرن( آہنی آتش دان)، سکریو پین (پیچدارتوّا)، سٹوو (چولھا)، لیڈل (ڈونی) اور چَرن(مٹکا)جیسے کھانا بنانے کے مخصوص برطانوی آلات کی اردو تفصیلات اور برطانوی پکوانوں کے ناموں اور اوقاتِ کار بیان کرنے والے کتابچے ،دی آرمی بریک فاسٹ کا فن پارہ بیرونی اثرا ت کی تقلید اور پسندیدگی کی شروعات کی عمدہ وضاحت کرتا ہے۔سلسلہ وار’ظالم‘ ، ’قاتل ماں‘ ، ’خنجرِ عشق‘ ، ’ظالم پھوپھی‘جیسی کہانیوں کے پراگندہ سرورق کا مجموعہ مختصر افسانہ نگاری اور ناولٹ جیسی ادبی اصناف سے تعلق رکھتاہے۔ ان کا مواد اور ظاہری حالت اردو مجلات میں اب تک ملنے والی سب سے قدیم مختصر افسانہ نگاری کے طور پر ان کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ گھوڑوں کی بنیادی مصوری پر مبنی ”کیور دی ہارس الی الفیل 1869ء“ (Cure The Horse Ila Al feil 1896) کے نام سے موجود کتاب کے کھلے ہوئے دو صفحات ایک ایسے زمانے کی طرف راہنمائی کرتی ہے جب موٹر گاڑیاں عمومی ذرائع نقل وحمل کا حصہ نہیں تھیں۔بوسیدہ کپڑے کی جلد والی قدیم کتابوں کی تصویریں، جن کے دیمک زدہ پیلے اوراق ابھی بھی دستی بُنّتکاری کی نشاندہی کرتے ہیں ایک ایسے دور کی طرف اشارہ دیتے ہیں جس میں روایتی دستکاری سے کتابوں کی جلد بندی کا کام لیا جاتا تھا۔

موجودہ زمانے میں ہم ٹیکنالوجی کا احترام کرتے ہیں اورکاغذ سے آزاد برقی کتب بینی ہماری زندگیوںمیں داخل ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل تو اسے زندگی کا جزوِ لازم سمجھنے لگی ہے مگر عمر رسیدہ افراد ابھی بھی کتاب کے قلمی نسخوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم ماضی سے لگاﺅ رکھتے ہیں مگر آخر کار ہمیں وقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ نائلہ محمود کیلئے ’بکھرے اوراق ‘ ایک’ ’فنائیت اور ماند پڑ جانے کے عمل کی توثیق “ ہے۔مگر نو آبادیاتی توقعات، روایتی مسلم ثقافت اور جدیدیت کے مابین کشمکش کو آشکار کرتے رسوم ورواج کا اظہاراور روز مرّہ زندگی کاعکس ثقافتی تاریخ کے ان تراشوں کودلچسپ بناتاہے۔

بکھرے اوراق‘ کینوس گیلری کراچی میں15 تا24 اگست2017ءکو منعقد ہوئی۔

ترجمہ: حزیفہ مسعود، بشکریہ روزنامہ ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...