عسکری تنظیمیں ۔۔۔بدامنی کا محرک
روس،چین اور انڈیا سمیت دنیا کے پانچ ممالک پہ مشتمل تنظیم ”بریکس” کے نویں اجلاس میں افغانستان میں برسرپیکار دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھوں افغان شہریوں کی ہلاکت کی مذمت اور خطہ میں تشدد کے فوری خاتمہ کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔کانفرنس میں افغانوں کی قیادت اور اونرشپ میں جاری مصالحتی عمل کی حمایت کا اعادہ کرنے کے علاوہ خطہ میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پہ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے داعش،القاعدہ،حقانی نیٹ ورک،لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب التحریر جیسے مسلح گروہوں کو جنوبی ایشیا میں جنگ و جدل کا بنیادی محرک قرار دیا گیا۔ژیامن کانفرنس کی قراردادوں پر بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ چین کے صدر نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کو 21 ویں صدی کی گلوبل گورننس کے مرکزی ستون کے طور پر تیار کر چکے ہیں۔بریکس اگرچہ مغربی دنیا کے روایتی اتحاد نیٹو کی مانند ایک یونیفائنگ پولیٹیکل فلاسفی کا حامل اتحاد نہیں لیکن اس میں ایک قسم کا متنوع توازن پایا جاتا ہے جو مشترکہ خطرات کے مقابلہ اور باہمی مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔بریکس برازیل،روس،انڈیا،چائنہ اور ساوتھ افریقہ جیسے پانچ ممالک پر مشتمل ایسی غیر روایتی تنظیم ہے جو پوری دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ان میں سے دو ممالک یعنی چین اور بھارت عالمی معاشی افزائش میں 45 فیصد حصہ ڈالتے ہیں،صرف انہی دو ممالک کی ڈومسٹک گروتھ 23 فی صد سے زیادہ ہے۔بریکس کا ایجنڈا”روشن مستقبل کے لئے مضبوط دوستی” ہے۔سن2008 میں قائم ہونے والی بریکس نے اپنی نویں اجلاس میں تنظیم کو مزید وسعت دینے کے علاوہ مغرب کے مالیاتی نظام کے برابر اپنا الگ معاشی سسٹم اور مالیاتی نظام کی ریٹنگ کرنے والی ایجنسیوں بالخصوص موڈی کے متبادل اپنی ریٹنگ ایجنسی کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے۔بریکس استحکام پذیر ترقی کی خاطر مشترکہ فوجی طاقت کے علاوہ ہائی پاور اکنامک جنریشن اور ورلڈ بنک کے متبادل اپنے الگ ڈیولیمنٹ بنک کا قیام کو بھی یقینی بنائے گی۔حالیہ اجلاس میں مصر،گونیا ، میکسیکو ، تاجکستان اور تھائی لینڈ کو بطور آبزرور شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔تنظیم کے علانیہ مقاصد میں معاشی اور دفاعی تعاون،سیاسی یکجہتی،ممبر ممالک کے عوام میں باہمی روابط بڑھانے اور بھارت و چین کے درمیان امکانی طور پر قابل تجدید انرجی کے شعبہ میں ہمہ گیر تعاون ممکن بنانا ہے۔
بریکس کی سب سے بڑی کامیابی، دنیا کے دو بڑی آبادی والے ممالک چین اور انڈیا کے درمیان تناو کم کرانا ہے۔جنوبی ایشیا بالخصوص افغانستان اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں کارفرما مسلح تنظیموں بارے ہماری اور مغرب کی اپروچ میں ایک قسم کا تفاوت تو پہلے ہی پایا جاتا تھا لیکن چین اور روس کی قیادت میں بریکس نے خطہ کی تزویری صورت حال پر ایک واضح پوزیشن لیکر جنوبی ایشیا میں دہشتگردی کے اصلی تناظر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔بریکس میں شامل روس اور چین نے حقانی نیٹ ورک،لشکر طیبہ،جیش محمد اور حزب التحریر جیسی مسلح تنظیموں کو افغانستان کی شورش کو بڑھاوا دینے اور انہیں خطہ میں جنگ و جدل کا بنیادی محرک قرار دیکر امریکہ اور پاکستان کے مابین جنگ دہشتگردی میں باہمی تعاون اور آویزیش کو مشکوک بنا دیا ہے،کم و بیش اکہتر شقوں پہ مشتمل بریکس کی قراراداد،جس میں عالمی اور علاقائی تنازعات کا احاطہ کیا گیا،میں چھپے مفاہیم کو مغرب نے درست طور پہ سمجھا ہو گا۔اسلئے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور یورپ نے بریکس قراردادوں پہ ردعمل دینے سے گریز کیا۔بریکس کی اس نئی پیش قدمی نے ہماری خارجہ پالیسی کے نادیدہ رجحانات کی کچھ پرتوں کو کھولنے کی جسارت کر کے خیر خواہی سے مزین ایک ایسی اپیل بھی دی جو مشکلات کی تاریکی میں ہمیں کوئی واضح راہ عمل اپنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
پاکستان کے اندر ہماری خارجہ پالیسی پر بحث کی جا سکتی ہے نہ بین الاقوامی تعلقات کو پارلیمنٹ میں زیر غور لانے کی روایت فروغ پا سکی،خاص کر ہمہ جہت نوعیت کے حامل افغان وکشمیر ایشوز پر لب کشائی کسی بھی پارلیمنٹیرین یا شہری کی حب الوطنی کو متنازعہ بنا سکتی ہے۔اسی لئے دنیا کے ساتھ مناسب برتاو کیلئے ہماری اجتماعی صلاحیتوں کا ارتقاء منجمد ہورہا اور شاید اسی لئے پچھلے ستر سالوں پر محیط خارجہ پالیسی مہیب جمود کا شکار بنکر ایک ایسی فرسودگی میں ڈھل گئی جسے وقت کی بے رحم گردشیں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہیں،شاید اسی لئے ہماری مملکت خطہ میں موجود چھوٹے بڑے جغرافیائی تنازعات میں الجھ کر ایک پنپتے ہوئے عالمی معاشرے میں باعزت مقام پانے کی تیاری نہیں کر سکی۔
معاشی بدحالی نے ہمیں ذہنی طور پر حریص ،سیاسی انتشار نے بے یقینی و مایوسی کا شکار اور سماجی ناانصافیوں نے باہمی اعتماد کے رشتوں کو مجروح کر کے ایک ابھرتے ہوئے توانا معاشرے کو فکری آزادیوں اور زندگی کے شراروں سے محروم کر دیا۔آج جب مغرب کا ستارہ ڈوبنے والا ہے اور مشرقی ممالک کا آفتاب طلوع ہونے کو بیتاب ہے تو ہمارے پاس معاشی وسائل ہیں نہ مضبوط سیاسی نظام۔ معاشرہ بے یقینی،بداعتمادی اور اخلاقی زوال کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ایک حیرت انگریز حقیقت یہ بھی ہے کہ اکیسویں صدی کا موضوع اور آج کی دنیا کا سب سے بڑا ریسورس خود انسان ہے اورمستقبل کی دنیا کا سرمایا اخلاقی کردار ہو گا۔شومئی قسمت کہ عہد نو کی دہلیز پہ قدم رکھتے وقت ہم انسانی ارتقاء کو منجمد کر بیٹھے ہیں،یہاں ہر شعبہ زندگی میں ترقی ہوئی لیکن خود یہاں کے انسان اپنی ذہنی ترقی اور اخلاقی رویہ بہتر نہیں بنا سکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب طاقت کا جھکاو مشرق کی طرف ہو رہا ہے۔مشرقی ممالک عقلی اتحاد کے رشتوں میں منسلک ہو رہے ہیں اور مغربی بلاک فزیکلی تحلیل ہونے لگے ہیں۔حالیہ انتخابات نے امریکہ میں سیاہ اور سفید فام میں تفریق بڑھائی اور یوروپی معاشروں میں رنگدار نسل کے شہر یوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی نے ایک بار پھر فرانسسی،جرمن اور برٹش معاشروں میں دراڑیں ڈال کر ذہنی تقسیم پیدا کر دی ہے۔
فیس بک پر تبصرے