مشکل وقت سر پر ہے

1,180

جنوبی ایشیا اور افغانستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کے تناظر میں  اگر امریکا نے پاکستان کے خلاف اپنے موقف میں سختی لانے کا فیصلہ کرلیا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) آنے والے انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔اس فوری صورتِ حال میں خدشہ ہے کہ پاکستان امریکا کی جانب سے 1.7 ارب ڈالر کی امداد جو کو لیشن سپورٹ فنڈ(سی ایس ایف) کے تحت ملنا تھی ،سے محروم رہ جائے گا۔ سی ایس ایف کے تحت ملنے والی امداد میں پہلے ہی چالیس فیصد کٹوتی ہو چکی ہے جس سے پاکستانی معیشت کو گہرا زخم لگا ہےاس زخم کوبھرنے کیلئے دوسرے خارجی ذرائع سےمعاشی مرہم کی ضرورت ہو گی۔

 سی ایس ایف در حقیقت ان اخراجات کا معاوضہ ہے جو پاکستان نے امریکہ کی خاطراس علاقے میں اپنی جیب سے بھرے ہیں۔ پاکستان کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کی صورت میں، ممکنہ طور پر اسلام آباد کو تقریباً.51 بلین ڈالرز کی فوجی اور معاشی امداد سے محرومی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح حکام کو خدشہ ہےکہ تجارتی پابندیوں کی صورت میں، پاکستان ساڑھے تین ارب ڈالرز کی سالانہ برامدات کی مارکیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ پاکستان امریکہ کو سب سے زیادہ ٹیکسٹا ئل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اگرچہ چین پاکستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے بہرحال امریکا سب سے زیادہ تعداد میں پاکستانی ٹیکسٹا ئل اور دیگر مصنوعات درآمد کرتا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ورلڈ بینک اور آیئ ایم ایف کے فورمز میں امریکا کے پاس اکثریتی ووٹنگ کے حقوق موجود ہیں اس لیے امریکہ ان فورمز پر اثر انداز ہو سکتا ہے جس کی نتیجے میں قرضہ لیتے وقت پاکستان کو نئی شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرضہ دینے والا بین الاقوامی بینک برائے ترقی و تعمیرِ نو (آئی بی آر ڈی) جو ورلڈ بینک کا اہم جزو ہے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے گھٹتے ہوئے ذخائر پر پہلے ہی اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ بینک نے اپنی قرضہ کی شرائط میں واضح کیا ہے کہ ادارہ قرض صرف اس صورت میں دے گا جب کم از کم پانچ ہفتوں کیلیے ضروری برآمدات کی خاطرمتعینہ زرِ مبادلہ کی شرح برقرار رکھی جائے گی۔

پاکستان پہلے ہی آئی بی آر ڈی کی اعانت کیلیے نااہل ثابت ہو رہا ہے اور اگر اسلام آباد نے کسی بیل آوٹ قرضے کیلیے آئی ایم ایف کا رخ کیا تو صورتحال مزید گھمبیر اور دشوار تر ہو جائے گی اور جونہی امریکا پابندیاں لگائے گا وہ مبینہ طور پر آئی ایم ایف پر بھی زور ڈالے گا کہ کسی بھی قرض کو روپے کی قدر میں20 فیصد کمی سے مشروط کیا جائے جس سے موجودہ سولہ فیصد سیلز ٹیکس بڑھ کر 20 فیصد ہو جائے گا اور بجلی اور گیس کے نرخ بھی بڑھ جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جب امریکا آئی ایم ایف کو گرین سگنل دے گا تو آئی ایم ایف چا ئنا پاکستان کو ریڈور (سی پیک) کے پروجیکٹس پر فیا ضانہ طور پر دی گئی آزادانہ ضمانتوں پر بھی اعتراض اٹھانا شروع کر دے گا۔ اس حوالے سے وہ حکام بھی زیرِ عتاب آ سکتے ہیں جنہوں نے ان آزادانہ ضمانتوں کا دائرہِ کار چینی سرمایہ کاروں تک پھیلا دیا جبکہ پاکستان کے پاس  ذرِ مبادلہ کے ذخائر کی مطلوبہ اور محفوظ شرح بھی مو جود نہیں ۔

بعینہ آئی ایم ایف حکام سی پیک پروجیکٹس پر عمل درآمد کی سست رفتاری پر بھی اعتراضات اٹھا سکتے ہیں چونکہ سی پیک پروجیکٹ امریکی حکومت کی انکھ میں کھٹک رہا ہے اس لئے امریکا پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی قرضہ جاتی اداروں کےذریعے سزا دینا چاہتا ہے۔ جب گزراہ زیادہ مشکل ہونے لگے گا تو ٹرمپ انتظامیہ یوروپین  یو نئین کے ذریعے بھی اثر انداز ہو کر پاکستان کے خلاف معاندانہ معاشی اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ قبل ازیں موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے فوری بعد اسلام آباد کو ایک ارب ڈالرز تک کی اضافی مارکیٹ تک رسائی دی گئی تھی۔

واقفانِ حال نے خبردار کیا ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران سٹا ک مارکیٹ میں کی گئی 6 سے 7 ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری بھی امریکی ایما ءپر واپس ہو سکتی ہے اورپھرآئی ایم ایف کا پائوں بھی امریکا کے پائوں میں ہو گا اور اسی طرح بین ا لاقوامی بینکس اور سرمایہ دارانہ کمپنیوں سمیت  دوسرے مہاجن بھی گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیں گے۔  یہ اقدامات ہماری نمو پزیر مارکیٹ پر منفی طور پر اثر انداز ہوں گے جسے تباہ کرنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

ساری داستان کا لبِ لباب یہ ہے کہ جب ذخائر مزید گھٹ جائیں گے،  جاری کھاتے پھیلتے ہی جائیں گے،  برآمدات میں کوئی ا ضافہ نہ ہو گا اور تجارتی خسارہ موجودہ 52 ارب ڈالرز کی سطح سے بھی نیچے گرتا جائے گا تو آئی ایم ایف کی امداد کو مزید سنگین شرائط سے منسلک کر دیا جائے گا۔

 ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ پیرس کلب کی طرف سے مشرف حکومت کو دیے گئے 20 ارب ڈالرز کی ری شیڈیولنگ  2016 –  2017میں اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے جس کے باعث ادائیگیوں کیلئے دباو میں شدت بڑھ چکی ہے۔

  یہ ایک سربستہ راز ہے کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور سعودی ولی عہدنے گزشتہ ہفتے سعودیہ میں اپنی ملاقات کے دوران کیا باتیں کیں مگر افواہ ہے کہ وزیراعظم نے سعودی عرب سے سیاسی، سفارتی اور معاشی مدد کی درخواست کی۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ سعودیہ جس نے2013 میں پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز بطورِ تحفہ دینے کی پیشکش کی تھی، اب اپنے بڑھتے ہوئے مالی خسارے کے پیشِ نظر یہ تحفہ دینے میں تامل کا شکار ہے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں مندی کا رجحان کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اعلی سطحی ملاقات کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم مالی مدد کی خاطر کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ مشہور معیشت دان اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حافظ پاشا کا کہنا ہے کہ صورتحال 2013 میں قدرے مستحکم تھی جب پاکستان بہتر پوزیشن میں تھا اور امریکی حمایت بھی حاصل تھی جس کی بدولت پاکستان کو تین سالہ آئی ایم ایف پروگرام (ای ایف پی) کی سہولت حاصل ہو سکی۔ اب اگر گورنمنٹ نے معیشت کی بہتری کے حوالے سے اہم فیصلے نہ کیے توصدر ٹرمپ کی خطے میں نئی پالیسی کے تناظر میں صورتحال مزید پیچیدہ  ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اندرونی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی کئی مسائل کا سر چشمہ ہے۔ اس ناکامی کا تقاضا تھا کہ مستقل بنیادوں پر معیشت کی بہتری کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں،تیزی سے سکڑتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر مجھے بہت تشویش ہے۔ صرف جولائی کے مہینے میں دو بلین ڈالرز کے ذخائر کم ہوئے ہیں جبکہ اصل قرضے کی شرح محض تین کروڑ ڈالرز تک محدود رہی۔ ڈاکٹر حافظ پاشا نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر تحصیلِ زر میں کمی کے باعث ادائیگیوں میں دشواری کا سامنا ہے۔ وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے حکام کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔ ڈاکٹر پاشا نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داخلی حالات کے پیشِ نظر اپنی ملکی مفاد پر مبنی معاشی پالیسی نہ تشکیل دینے اور اس پر عمل در آمدنہ کرنے کے نتیجے میں اب ہر چیز قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ مالی خسارہ ہو، زرمبادلہ کے ذخائر ہوں یا جاری کھاتوں میں خسارہ ہو ،ہر طرف انحطاط کا عا لم ہے حتی کہ کافی سالوں میں پہلی بار بیرونِ ملک سے بھیجی گئی رقوم میں بھی ایک ارب ڈالرز کی ریکارڈ تنزلی سامنے آئی ہے۔ یہ سوچنے اور کچھ کر گزرنے کا وقت ہے،محض باتیں بنانے کا نہیں۔

ایک اور ممتاز ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی خطے میں ابھرتی صورتِ احوال کے حوالے سے با لکل بھی پر امید نہیں اور کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتطامیہ بآسانی معاشی اور مالی نظام کو مفلوج بنا سکتی ہے، بس اسے بین ا لاقوامی بڑی ایجنسیوں اور عالمی بینکوں سے اتنا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو امداد دینے کے عمل کو شرائط کے ماتحت کر دیں۔شوکت عزیز اور اسحاق ڈار نے ہماری معیشت کو قرضے دینے والی ایجنسیوں کے ہاتھ گروی رکھوا دیا ہے اور خطے میں نئی امریکی پالیسی کے باعث اگر کڑا وقت آیا تو مجھے ڈ ر ہے کے ہمارے پاس سہارے اور بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سیاسی اور معا شی خودمختاری پر پہلےس ہی سمجھوتہ کر رکھا ہے۔

اس صورت  حال میں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر ٹرمپ انتطامیہ ہمارے خلاف پابندیاں لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو ہمارے پاس سوائے سرِ تسلیم خم کرنے اور رحم کی اپیل کرنے کے ، اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلیے کوئی قلیل مدت کی حکمتِ عملی موجود نہیں کیونکہ ملک کے بڑے ملک کو اس اقتصادی بحران سے باہر نکالنے کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم اتنے آزاد نہیں ہیں کہ خود مختار انداز میں اپنے فیصلے خود کر پائیں اس لیے میں کہہ نہیں سکتا کہ ہم امریکیوں کی پیدا کردہ اس نئی صورتحال سے کیسے نمٹ سکیں گے۔

 ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ پاکستان فوجی اور اقتصادی امداد کیلئے ہمیشہ امریکہ کا دست نگر رہا ہے اس لیے پابندیوں کی روزافزوں دھمکیوں کے سامنے بے بس ہے۔ اپنے پیشروؤں کی طرح ڈونلڈٹرمپ نے بھی پاکستان کو ڈو مور کا کہا ہے جس کے جواب میں حکومت کو نو مورکہنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔ان نا مسا عد حالات میں چین پاکستان کو تمام ضروری اعانت اور مدد فراہم کر رہا ہے۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت چینی وزارتِ خارجہ کی طرف سے فوری ردِ عمل ہے جس کے مطابق چین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شاندار قربانیوں کو سراہاہے۔چین خطے میں بغیر کسی مزاحمت کے ترقی کرتا جا رہا ہے اور نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم ہونے سے امریکا پاکستان کو چین کے مزید قریب دھکیل دے گاجبکہ یہ دو آزمودہ اور دیرینہ دوست پہلے ہی اپنے دو طرفہ فوجی تعاون کو برابر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ جنوبی ایشیا اور افغانستان میں امریکی صدر کی نئی پالیسی حقیقت میں کچھ نئی بھی نہیں ہے اور اسکا مقصد پاکستان کو دباو میں لا کر مجبور کرنا ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو نام نہاد محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے سے باز آ جائےمگر ان گروہوں کو پاکستان میں پناہ گاہوں کی ضرورت ہی کیوں ہونے لگی جب وہ پہلے ہی افغانستان کے پچاس فیصد سے زیادہ علاقوں پر قابض ہیں۔اسی پس منظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نئے امریکی اقدامات بے فائدہ بلکہ تباہ کن ثابت ہونگے کیونکہ پاکستان کے بغیر افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور اسی لیئے امریکہ جلد ہی اپنے موقف میں نرمی لائے گا بالخصوص ایسے وقت میں جب وہ مزید فوجی افغان سر زمین پر اتاررہا ہے کیونکہ اس کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہیں جو اس معرکے کو منطقی انجام تک لے جا سکے۔امریکا کااسلحہ اور دیگر سازوسامان وسطی ایشیا کے راستے بھجوانے کا سابقہ تجربہ کافی مہنگا اور تکلیف دہ ثابت ہواہے۔آخرِ کار انڈیا نہیں بلکہ  پاکستان ہی امریکیوں کی جان چھڑانے میں مدد کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی ایک خبرمیں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ امریکہ کو پاکستان کے بغیر مسائل کا سا منا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان کے علاوہ کوئی ملک اتنا اہم نہیں ہے جوجنگ سے تباہ حال افغانستان کے قضیے میں موثر معاونت کر سکے۔

نئی امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی نما یاں ہے اور وہ ہے قوم سازی کی بجائے دہشت گردوں اور مجرموں کی صفائی پر توجہ۔ اپنے خطاب میں، ٹرمپ نے افغانستان میں جمہوریت کے فروغ اور قوم سازی جیسی باتوں کا بے رحمی سے مذاق اڑایا ہے اور کہا ہے کے افغان حکومت کو کرپشن کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اپنے داخلی معاملات سلجھانا ہوں گے اور یہ کہ امریکہ سے مزید فیاضی کی توقع نہ رکھی جائے۔ بلکہ ٹرمپ نے انڈیا سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں پیسہ خرچ کرے کیونکہ انڈیا امریکا سے تجارت کے میدان میں بھرپور فوائد حاصل کر رہا ہے۔ چین پرجو سی پیک پر 54 ارب ڈالرز خرچ کر رہا ہے اس وقت اپنی معیشت کے حوالے سے کڑا وقت آن پڑا ہے۔ گزشتہ سال چین نے چار ارب ڈالرز کے تجارتی قرضے جاری کیے مگر اس سال 2017-18 میں دو ارب ڈالرز سے زائد کے قرضے نہیں دیے جائیں گے۔ تاہم ہماری وزراتِ خارجہ کے حکام ابھی بھی پر امید ہیں کہ چین ہماری معاشی داد رسی کو آگے آئے گا با لخصوص اگر امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ۔

چین بظاہر افغانستان میں سب سے بڑھ کر کامیاب دکھائی دیتا ہے اورامن عمل میں معاون کا کردار ادا کرنے کیساتھ ساتھ روس، ایران اور پاکستان کی بھرپور حمایت سے اپنی حکمتِ عملی پر بھی عمل پیرا ہے مگر کیا چین امریکا کی جگہ لے سکے گا؟ باا لخصوص ایک بڑے قرض دہندہ کے طور پر اور اسلحے کے سپلائر کے طور پر؟ 

 یہ وہ سوال ہے جو اس وقت حکومتی اور غیر حکومتی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ مستزاد یہ کہ چین کی اپنی معاشی اور اقتصادی حدود بھی ہیں اور چین ادائیگیوں کے توازن میں کسی بھی ملک کو غیر معمولی مدد نہ دینے کی بھی تاریخی شہرت رکھتا ہے۔

ترجمہ:  زاہد کلیم     ( بشکریہ دی نیوز)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...