این اے 120میں شدت پسند عناصرکی کارکردگی

919

اس خبرنے بے چینی کی لہردوڑا دی ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں تیسری قوت کے طورپر اسلامی شدت پسند  تنظیمیں سامنے آئی ہیں جن کے دو امیدواروں نے کل ملاکرڈالے گئے ووٹوں میں سے 11فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عمومی  تاثر یہی ہے کہ یہ مذہبی تنظیمیں “اسٹبلشمنٹ” کی پشت پناہی سے مسلم لیگ ن کے ووٹ کاٹنے کیلئے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اس امرکوتقویت اس خیال سے دی جاتی ہے کہ یہ تنظیمیں 2013کے انتخابات میں موجود ہی نہیں تھیں اورحال ہی میں سامنے آئی ہیں۔ اس میں سے ایک ملی مسلم لیگ ہے جو جماعۃ الدعوہ کے حافظ سعید سے منسلک ہے۔ جہاں مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں پہلے کی  نسبت سات فی صدکمی واقع ہوئی وہیں مذہبی تنظیموں کوملنے والے گیارہ فی صد ووٹ کومسلم لیگ ن کے نقصان کے طورپردیکھاجارہا ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن پرسپاہ صحابہ کے ساتھ درپردہ معاہدے کی باتیں عام رہی ہیں تاہم اس الیکشن میں سپاہ صحابہ کاکوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حلقہ این اے 120سے پیپلزپارٹی کے امیدواربھی کھڑے تھےمگریہ خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھاسکےاورحیرت انگیزطورپرمسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی کے بعد تیسری پوزیشن آزاد امیدوار اظہرحسین رضوی کوملی جس کی پشت پناہی” لبیک یا رسول اللہ” نامی شدت پسند جماعت کررہی تھی۔ اظہر حسین رضوی سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں پھانسی پانے والےممتازقادری کے پوسٹراورنعرے کے ساتھ الیکشن میں سرگرم تھے اور6فی صد ووٹ حاصل کرسکے۔ روزنامہ ڈان کے مطابق یعقوب  نے 5 فیصد ووٹ حاصل کیے ۔ یاد رہے کہ یعقوب شیخ کا تعلق جماعۃ الدعوہ سے ہے جسے  امریکہ نے دہشت گرد قراردیا ہوا ہے۔

کلثوم نواز،ڈاکٹر یاسمین راشداورباقی ماندہ امیداواروں کے ووٹوں کے درمیان بہت ہی زیادہ فرق ہے۔ کلثوم نوازنے 61745اوریاشمین راشد نے 47099ووٹ لئے جبکہ مذہیی تنظیموں کے امیدواراظہرحسین رضوی نے 7130اوریعقوب شیخ 5822ووٹ لئے لیکن انہوں نے پورے ملک میں لبرل عناصرکی توجہ حاصل کرلی ہے۔ روزنامہ ڈان نے تواس کواس قدراہم گرداناکہ مورخہ 20ستمبرکااداریہ ہی اس موضوع پرلکھ ڈالا اوراس رحجان کوریاست اورمعاشرے دونوں کے لئے فکرمندی سے تعبیرکیا۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ شدت پسندی سے کیسے نمٹاجائے جبکہ 2002سے پاکستانی افواج پاکستان کے طول وعرض میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف شدیدترین فوجی آپریشن میں مصروف رہی ہیں۔ افغانستان میں بھی امریکہ اوراس کے اتحادی شورش پسندوں کوہتھیارپھینک کر مرکزی دھارے کی سیاست کاحصہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ طالبان سے اسی حوالے سے بات چیت ہورہی ہے اورحزب اسلامی کے کمانڈر گلبدین حکمت یارجہادی سرگرمیوں کوخیرباد کہہ کراور ہتھیارپھینک کرایک معاہدے کے بعد سیاسی میدان میں سرگرم ہوگئےہیں اورشنید ہے کہ اگلے صدارتی الیکشن میں شاید امیدوارکے طورپربھی سامنےآئیں۔ اسی طرح پاکستانی ریاست بھی چاہتی ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کا زورتوڑنے کیلئے ان سے معاہدے کئے جائیں اوران کومین اسٹریم سیاست میں لایاجائے۔ حال ہی پاکستانی فوج نے طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے ساتھ درپردہ معاہدہ کیاتو اس کے خلاف بہت آوازیں بلند ہوئیں اورسپریم کورٹ میں اس کے خلاف رٹ  بھی ڈائر کی گئی۔ چین اورامریکہ نے پاکستان پردباوڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ریاستی سطح پرشدت پسند اسلامی تنظیموں سے سختی سے نمٹاجائے۔ اس سے پہلے امریکہ نے کولیشن فنڈزکے سلسلے میں پاکستانی فوج کوملنے والی امدادبندکی اورجوجائزہ رپورٹ شائع ہوئی اس میں دیگرامورکے ساتھ اس بات پرتشویش کااظہارکیاگیاتھا کہ لشکرطیبہ جیسی تنظیمیں کھل کرسرگرمیاں کرتی ہیں۔ اب الیکشن کے نتائج نے اسی وجہ سے بے چینی میں اضافہ کیاہے۔ اس طرح پاکستان کی صورتحال دوطرفہ طورپرپریشان کن یوں ہے کہ جب شدت پسند اسلامی تنظیموں کے ساتھ معاہدے کیے جاتے ہیں اوران کومین اسٹریم سیاست میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تواس پرشوربرپاہوتاہےاورتحفظات کااظہارکیاجاتاہے۔ دوسری طرف ان تنظیموں کے خلاف جاری کارروائیاں اب تک خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں لاسکیں۔ لبرلز اورکچھ سیکولرسیاسی جماعتیں اس کوپاکستانی اسٹبلشمنٹ کی نیم دلانہ کوششوں اورادھوری کاروائیوں سے جوڑتی ہیں۔

پاکستانی فوج سنجیدگی سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہیں لڑتی اورادھورے آپریشن سے نتائج سامنےنہیں لائے جاسکتے۔ جبکہ امریکہ کاکہناہے کہ پاکستان کے اندردہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ کو خاطرخواہ کامیابی  ملی ہے لیکن  افغانستان میں ملوث عناصرکی سرکوبی پوری طرح سےاس لئے نہیں ہوپائی کہ پاکستان کے ریاستی ادارے ہی ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

پاکستان کے لئے لشکرطیبہ کے حامی امیدوارکی کارکردگی شاید اس قدرپریشاں کن نہ ہو کیونکہ وہ کشمیرکے جہاد میں ملوث ہے لیکن ممتازقادری کی مقبولیت ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ ممتازقادری نے گورنرپنجاب کوقتل کیا،اسے ریاست نے پھانسی دی۔ اس پرتقریباتمام ہی سیاسی پارٹیاں یوں بھی متفق تھیں کہ یہ واقعہ  بہت خطرناک رحجان کی نمائندگی کررہا تھا۔ اگر ریاستی عہدیداراپنے ہی گارڈزکے ہاتھوں مارے جانے لگے توحکمرانوں کی حفاظت ایک مسئلہ بن جائےگا۔ لیکن اس کے برعکس کچھ لوگ ممتازقادری کوعوام  میں پذیرائی دلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سے  اس  خدشہ کو تقویت ملتی ہے کہ بریلوی مکتبہ فکر شدت پسندی کی طرف جارہا ہے اور علامہ خادم حسین رضوی اس خدشہ کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جوکہ ایک خطرناک رحجان ہے۔ لبرل و سیکولرعناصر ملک میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں جیسے جماعت اسلامی اورجے یوآئی پربھی شدت پسند اسلامی تنظیموں کے ساتھ روابط اوربعض اوقات سرپرستی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ایک خیال یہی ہے کہ افغان جہادمیں یہی جماعتیں سرگرم رہی ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان سیاسی تنظیموں کے سیاسی اورعسکری ونگ بھی ہیں لیکن ابھی تک انفرادی واقعات کے علاوہ جماعت اسلامی اورجے یوآئی کے عسکری تنظیموں سے باقاعدہ تعلق کو ظاہرنہیں کیا جاسکا۔ یہ ضرورہے کہ جماعت اسلامی کے اراکین کے گھروں سے القاعدہ کے افرادبرآمد کئے گئے اوراس کے کچھ اراکین اورطلبہ تنطیم کے نوجوان طالبا، القاعدہ اور داعش سے مل گئے لیکن بطورتنظیم جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے اور ریاست پاکستان کے ساتھ ٹکراو سے گریزاں رہی ہے۔ جے یوآئی کے کئی رہنماقبائلی علاقوں میں طالبان سے قریب رہے لیکن اس کی وجہ ان کے مدرسے ہیں جوان علاقوں میں واقع ہیں۔جے یوآئی بھی مین اسٹریم سیاست  کرتی ہےاور ہتھیاربند جدوجہد سے بہت دورہے۔

لبرلز تقاضہ کرتےہیں کہ مین اسٹریم سیاست میں انہی کواجازت دی جائے جوایک طرف دہشت گردی کی کھل کرمخالف کریں اوردوسری طرف جمہوری روایات کے دائرے میں کام کرتے ہوئے جمہوری رویہ اپنائیں۔ ان کااستدلال ہے کہ کہ ملک کے جمہوری وآئینی عمل کوشدت پسند تنظیموں کے مرکزی دھارے میں شمولیت کے نام  پر تختہ مشق  بنایاجائےگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...