گلگت بلتستان ۔۔۔ قدرتی وسائل کا خزینہ مگر مسائل کے گرداب میں
گلگت بلتستان کا مخصوص جغرافیہ جہاں خوبصورتی کا باعث ہے وہیں بلند پہاڑوں کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں اور کوہ پیماوں کی توجہ کا مرکز بنے ہواہے ۔ گلگت بلتستان کے یہ پہاڑ انمول معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ایک مطالعے کے مطابق یہاں پائے جانے والے پتھر اور معدنیات دنیا بھر میں پائے جانے والے معدنیات کی نسبت زیادہ خالص اور قیمتی ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معدنیات کی دریافت اور اِنھیں محفوظ طریقے سے نکال کر مارکیٹینگ تک کے مراحل مناسب انداز میں طے کرنے کی سہولتیں یہاں بہم پہنچائی جائیں۔ بدقسمتی سے اس شعبے پر ابھی تک مناسب توجہ ہی نہیں دی گئی ہے بلکہ ابھی تک حکومت مِنرل پالیسی دینے اور پہلے سے موجود منِرل پالیسی پر عمل در آمد سے قاصرہے۔ قبل اس کے کہ گلگت بلتستان میں معدنیات کے شعبے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جائے ہم ذیل میں یہ جائزہ لیتے ہیں گلگت بلتستان میں کون کون سی معدنیات ہیں اور گلگت بلتستان میں کس کس مقام پر یہ پائے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بہت ہی اعلیٰ کوالٹی کا سونا پایا جاتا ہے اور اب تک کے مطالعے کے مطابق گلگت بلتستان میں ایک سو اڑسٹھ مقامات پر سونے کے ذخائر ، ایک سو چھ مقامات پر پلاٹینم ،چار سو ترانوئے مقامات پر کاپر لیڈ، دوسو اسی زنک، تین سو باون کوہالیٹ ،دوسو پچپن نیکل ،چار سو ستاسی بسمیتھ، سڑسٹھ مولیڈیم جبکہ آئرن کے ذخائر تین مقامات پر موجود ہیں ۔ اسی طرح قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے بھی وسیع ذخائر گلگت بلتستان میں موجود ہیں ۔ سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں روبی کے تین، ایمیرالڈ کے دو، سوامائر دو، سپائل دو ، ایکوامرین بارہ، ٹوپاز پندرہ، ٹورمالین چار، مون سٹون چار، زرقون تین، پارگیسایٹ چار اور گرنائٹ کے پندرہ ذخائر موجود ہیں۔ اتنی وسیع مقدار میں اعلی کوالٹی کے منرلز اور قیمتی پتھر کے ذخائر گلگت بلتستان میں موجود ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں ابھی تک منرل پالیسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے نہ ہی گلگت بلتستان میں اس شعبے میں کام کرنے والوں کو کوئی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔
گلگت بلتستان میں پہلی باقاعدہ منرل پالیسی ’’مائینگ کنسیشن رولز ‘‘ کے نام سے 2013 میں بنائی گئی۔ اس پالیسی کو گلگت بلتستان میں منِرل کے شعبے میں کام کرنے والے بہت ہی موزوں پالیسی قرار دیتے تھے۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اس پالیسی کے تحت محکمہ معدنیات گلگت بلتستان کے سیکریٹری درخواست دہندہ گان کوکام کرنے لئے لیز جاری کر سکتے تھے اور کسی قسم کی ناانصافی کی صورت میں گلگت بلتستان کا چیف سیکرٹیری اپیل سننے کا اختیار رکھتے تھے۔اس پالیسی کے تحت تمام معاملات صوبائی حکومت کے تحت انجام پاتے تھے۔اس پالیسی کے تحت گلگت بلتستان 19 مقامی افراد جبکہ ملک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے 6 افراد کو معدنیات کی دریافت اور پروسیسنگ کے لیز جاری کئے گئے تھے۔ اس پالیسی کے تحت لیز کے حصول کے لئےدرخواست دہندہ کے اکاونٹ میں کم سے کم بیلنس چار لاکھ روپے ہونا اور فرم کے ساتھ جیالوجسٹ کاموجود ہونا ضروری ہے جبکہ لیز کے حصول کے لئے ایک لاکھ روپے بطور فیس ناقابلِ واپسی سرکاری خزانے میں جمع کرانا ضروری ہے ۔اس پالیسی کے تحت دوقسم کے لیز دیے جاتے تھے ۔ ایک مایئنگ لیز جو کہ ایسکیویشن کے لئے ہوتا تھا ،اس لیز کے تحت ایک شخص دوسو پچاس مربع کلو میٹر کے احاطے میں کام کرنے کا مجاز تھا۔
لیز تین سال کے عرصے کے لئے جاری کیا جاتاتھا۔حکومت نے دسمبر2016 میں اس منرِل پالیسی کی جگہ نئی پالیسی کی منظوری دی ۔ اس پالیسی کی منظوری موجودہ گلگت بلتستان کونسل کی پہلی میٹنگ جو کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نوز شریف کی صدارت میں دسمبر 2016 میں ہوئی تھی ، دی گئی۔ عجلت میں منظور کئی گئی اس پالیسی سے متعلق عوامی حلقوں کے علاوہ وزرا ءاور گورنر گلگت بلتستان نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی واپسی کے لئے تحریک کا آغاز کیا۔ ترمیم شدہ اِس پالیسی کی خاص بات یہ تھی کہ معدنیات کا شعبہ جو کہ ملک کے تمام صوبوں اور آزاد کشمیر میں صوبائی سبجیکٹ ہے ،لیکن گلگت بلتستان میں اس شعبے کو صوبے سے اُٹھا کر وفاق کے حوالے کیا گیا تھا۔ ماضی کی پالیسی کے تحت لیز کا اجرا محکمے کا سکرٹری ڈائریکٹر کی سفارش پر کرتا تھا اور انکے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری کے پاس تھا۔لیکن اب یہ دونوں اختیارات اُٹھا کر وفاق کو تفویض کئے گئے تھے۔نئی پالیسی کے تحت لیز کے اجرا کا اختیار سیکرٹری وزارتِ اُمورِ کشمیر و گلگت بلتستان کواور اپیل سننے کا اختیاروفاقی وزیر اُمور کشمیر و گلگت بلتستان کو سونپ دیے گئے۔
یہ سلسلہ آئین میں آٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق سے زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں کو تفویض کرنے کے عمل کی بھی خلاف ورزی تھا ۔مقامی آبادی کا خیال تھا کہ گلگت بلتستان کی منرِل پالیسی میں تبدیلی مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے کی گئی تھی ۔اس مسئلے کے حوالے سے گورنر گلگت بلتستان نے ایک احتجاجی مراسلہ وزیر اعظم کے نام تحریر کیا تو اس حوالے سے مذید بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہوئی۔گورنر نے 28 جولائی 2016 کو وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں لکھا “گلگت بلتستان کونسل کے جس اجلاس میں اس پالیسی کی منظوری دی گئی، اُس اجلا س میں منرِل پالیسی کا معاملہ ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھااور یہ معاملہ ارکان کونسل اور گورنر کے علم میں اجلاس کے موقعے پرلایا گیا تھا ۔لہٰذا یہ پالیسی ارکانِ کونسل اور گورنر کو بھی لاعلم رکھ کر منظور کرائی گئی تھی ۔ نیز اس پالیسی سے بیشتر نکات گلگت بلتستان کے لوگوں کے اجتماعی مفادات کے منافی ہیں لہٰذا ماضی کی پالیسی میں کی گئی ترامیم واپس لے لی جائیں”۔
گلگت بلتستان منرِلز اینڈ جیمز ایسوسی ایشنز نے 29 اگست 2017 کووزیر اعظم اور گورنر گلگت بلتستان کے نام مراسلے میں کہا کہ “نئی مایئنگ رولز میں ایسے نکات شامل کئے گئے ہیں جو گلگت بلتستان کے لوگوں کے مفادات کے برعکس اور متصادم ہیں ۔ان رولز میں بیوروکریسی نے اپنی مرضی کے نکات اور کلاز شامل کئے ہیں تاکہ اپنے من پسند افرادکو لیزدے سکیں ۔اس اقدام کے باعث گلگت بلتستان میں مائینگ کی صنعت تباہ ہوئی ہے اور ہزاروں افراد بے روزگار ہو کر فاقوں کا شکار ہیں”۔
نئی منظور شدہ اس پالیسی کے حوالے سے گلگت بلتستان کے لوگوں میں تشویش کی وجوہات صرف اور صرف منرلز کی مائینگ اور دریافت کے لائسنس کے اجرا و اپیل کا اختیار گلگت سے اسلام آباد منتقل کرنے کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس پالیسی میں مزید ایسے نکات شامل ہیں جنہیں اس شعبے میں کام کرنے والے اپنے لئے معاشی قتل کے مترادف اور گلگت بلتستان میں منرِل اور معدنیات کی صنعت کی تباہی کا باعث قرار دیتے ہیں ۔نئی مائینگ پالیسی میں لیز کی فیس کی رقم میں کئی گُناہ اِضافہ کردیا گیا ہے جبکہ مائینگ کے لئے کام کرنے کی حدود میں کمی کردی گئی ہے۔ ماضی کی مائینگ پالیسی کے تحت ایک لیز پر ایک شخص 250 مربع کلو میٹر کے علاقے میں کام کرسکتا تھا لیکن موجودہ مائینگ پالیسی میں علاقے کی حدود مین واضح کمی کرتے ہو ئے ئے 250 کلو میٹر کو کم کرکے صرف 10 مربع کلو میٹر کردیا گیا ہے جبکہ لائسنس فیس بدستور ایک لاکھ روپے ہی ہیں۔اسی طرح ایکسپولیریشن لائسنس پر پرانی پالیسی کے تحت ایک ہزار مربع کلو میٹر کے علاقےمیں کام کرنے کی اجازت ہوتی تھی جبکہ اب کم کرکے صرف 20 مربع کلو میٹر کردیا گیا ہے جبکہ لائسنس فیس بدستور 25 ہزار روپے ہے۔اس پر ستم یہ ہے کہ اب نئی پالیسی کے تحت لیز کی درخواست کے ہمراہ 23 ہزار روپے کی رقم جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے ،
اگر چہ اس رقم کا مائینگ پالیسی میں کوئی تذکرہ موجود نہیں۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی نئی مائینگ پالیسی میں درخواست دھندہ کے بینک اکاونٹ میں یومیہ 40 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن اور ایکسپولیریشن کے لئے درخواست دینے والے کے اکاونٹ میں 15 لاکھ روپے یومیہ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کی گردنوں میں ان نکات کی صورت میں بھاری طوق ڈالنے کے باوجود بھی حکومت نئی پالیسی پر عمل درآمد سے خود ہی گریزاں ہے۔اگرچہ مائینگ پالیسی منظوری کے بعد 31 دسمبر 2016 کو زیر نمبرM-302/L.7646 گزٹ آف پاکستان میں شائع ہو چُکا ہے۔پالیسی میں موجود ان ساری مشکلات کے باوجود اس شعبے میں کام کرنے والے لیز کےحصول کے لئے کوشاں ہیں بلکہ وفاقی وزیر اُمور کشمیر و گلگت بلتستان جو اس معاملے میں اپیلٹ اتھارٹی بھی ہیں ان کےنام اپیل پر اپیل کیے جارہے ہیں لیکن انکی شنوائی نہیں ہو رہی جس پر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اس شعبے کے لوگوں نے انصاف کے حصول کے لئے گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ سے بھی رجوع کر رکھا ہے ساتھ ہی گورنر گلگت بلتستان نے اپنی چٹھی نمبر G.Sectt-PS-4(10)/2015 مورخہ 19 ستمبر کو سیکرٹری وزارتِ امور کشمیر و گلگت بلتستان کے نام مراسلہ میں ان مسائل کے حل کے لئے فوری توجہ دینے کا کہا ہے ۔مگر تادمِ تحریر اس شعبے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس شعبے میں کام کرنے کے خواہش مند افراد وسیع سرمایہ کاری کے باوجود در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
فیس بک پر تبصرے