پاک روس تعلقات اور خطے کا مستقبل

1,168

عالمی سیاسی حلقوں اور تزویراتی موضوع پر قائم تھنک ٹینکس میں آج کل پاکستان اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تزویراتی تعلقات کا موضوع خاصا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ 21اگست 2017کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر افغانستان کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کو جس انداز سے بیان کیا اور اس میں پاکستان کے حوالے سے جو دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا گیا اس کے بعد پاکستان نے زیادہ واضح طورپر علاقائی طاقتوں سے روابط کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ علاقے کے دو بڑے ممالک چین اور روس نے اس سلسلے میں کھلے لفظوں میں پاکستان کی حمایت کی اور مسٹر ٹرمپ کی دھمکیوں کو نامناسب قرار دیا۔ ایران کی طرف سے بھی ایسا ہی ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔کچھ عرصے سے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکا کی نئی حکمت عملی کا عندیہ دیا جارہا تھا۔ اس سلسلے میں جو نکات سامنے آئے تھے ان کے پیش نظر پاکستانی حکام کو یہ توقع توتھی کہ امریکا کی نئی افغان پالیسی کا نشانہ پاکستان ہوگا لیکن انھیں یہ توقع نہ تھی کہ تمام تر دھمکیوں کا نشانہ بھی صرف پاکستان ہوگا۔

21اگست کی امریکی صدر کی تقریر کے بعد چین اور روس ان ممالک میں پیش پیش تھے جنھوں نے اس نئی امریکی افغان پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور علانیہ پاکستان کی مدد کو پہنچے۔ ماسکو نے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ پاکستان پر دباﺅ ڈالنے سے خطہ شدید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کے بیان کے دو دن کے اندر اندر روسی صدر کے افغانستان کے لیے نمائندہ ضمیر کابلوف نے اپنے ایک بیان میں افغانستان کے حوالے سے کہاکہ پاکستان علاقے کا ایک بنیادی کھلاڑی ہے جس سے بات چیت کرنا ہوگی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بیک چینل سے روس سے درخواست کی تھی کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں ردعمل کا اظہار کریں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات اب اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ پاکستان پس پردہ روس سے اس درجے کی درخواست کر سکتا ہے اور روس بھی ایسی درخواست پر ایک ٹھوس موقف پاکستان کی حمایت میں اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان کی تشویش کو سمجھنے کے لیے امریکی صدر کی 21اگست کی تقریر میں موجود ان نکات کو سامنے رکھنا ہوگا:

امریکی صدر نے کہا کہ 20غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کررہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انہی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔

امریکا اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اگر پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا تو اسے بہت نقصان ہوگا۔

افغانستان کی ترقی میں انڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور انڈیا کو افغانستان کی اقتصادی اورمالی امداد جاری رکھنا چاہیے۔

امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر تب تک کام کرے گا جب تک ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو جائے۔ ہم اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بار ے میں گفتگو نہیں کریں گے۔

امریکی حکام نے پاکستان کے نان ناٹو اتحادی کا سٹیٹس بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مالی امداد کا سلسلہ امریکی انتظامیہ پہلے ہی بند کر چکی ہے۔ ان دھمکیوں اور ایسے امریکی اقدامات کے بعد پاکستان کے لیے علاقائی طاقتوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ تیز رفتار روابط قائم کرنا نہایت ضروری ہو گیا تھا۔ چنانچہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے امریکا کے دورے کو ملتوی کردیا اور چین،ایران اور ترکی کا دورہ کرکے امریکا کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے لیے چین اور بعض دیگر ممالک کی طرف سے حمایت اہمیت رکھتی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ روس کی طرف سے دست تعاون بڑھایا جانا پاکستان کے لیے ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک انہونی قرار دیا جاسکتاہے۔ پاکستان جو اپنی ابتدائی چھ دہائیوں میں امریکا کا اتحادی رہا ہے اور آخر کار امریکا کا اتحادی بن کر اس نے سوویت یونین کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، آج اگر روس کا اتحادی بننے جا رہا ہے تو بلاشبہ اسے ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

2000کی دہائی میں پاکستان اور روس کے مابین آہستہ آہستہ نئے تعلقات کی بنیاد رکھی گئی جو 2016میں زیادہ واضح طور پر سامنے آئے جب پاکستان اور روس کے مابین تاریخ میں پہلی مرتبہ مشترکہ فوجی مشقوں کا پاکستان میں اہتمام کیا گیا۔ ان فوجی مشقوں کو فرینڈشپ 2016کا نام دیا گیا۔ بھارت نے ان مشقوں پر اعتراض کیا تھا لیکن روس نے اس اعتراض کو اہمیت نہیں دی بلکہ روس کے صدارتی نمائندے ضمیر کابلوف نے پاک روس تعلقات کے حوالے سے بھارت کو جو جواب دیا وہ بہت معنی خیز ہے۔انھوں نے کہا کہ ماسکو نے امریکا بھارت تعاون پر کوئی اعتراض نہیں کیا لہٰذا بھارت کو اس سے کہیں کم درجے کے پاک روس تعاون پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت کا روس کے حوالے سے اعتراض اس لحاظ سے تو معنی رکھتاہے کہ ماضی میں دونوں ملکوں کے بہت گہرے، وسیع اور تزویراتی روابط رہے ہیں لیکن اب جب کہ امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک بہت بڑا ابھار آ گیا ہے اور امریکا نے ہندوستان کو اپنا میجر ڈیفنس پارٹنر قرار دے دیا ہے۔ نیز عملی طور پر امریکا نے بھارت کو دنیا کی چھٹی قانونی جوہری ریاست کا درجہ بھی دے دیا ہے تو پھر روس کے لیے بھارت میں پہلے کی سی دلچسپی کا باقی رہنا ممکن نہیں رہا۔ علاوہ ازیں امریکا بھارت کو افغانستان میں جو کردار سونپ رہا ہے چین اور روس اسے بھی کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

روس نے سی پیک میں بھی دلچسپی کا اظہار کیاہے جب کہ سی پیک امریکا اور بھارت دونوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ کہا جاتا ہے روس کی فیڈرل سیکورٹی کے سربراہ لیگزنڈر باگڈونوف نے گوادر کا دورہ کیا تھا۔ دسمبر2016میں روسی نمائندے الیکسی وائی ڈیڈوف نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک پاک چائنہ اکنامک کاری ڈور کا حصہ بن سکتا ہے اور وہ اپنے یوروایشین اکنامک یونین پراجیکٹ کو اس کے ساتھ لنک کر سکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو جس نے روس، چین اور پاکستان کو ایک دوسرے سے زیادہ قریب کر دیا ہے اور مستقبل میں وہ مشترکہ طور پر کوئی ایسا اقدام بھی کر سکتے ہیں جو دنیا کو مزیدحیران کردے، وہ  ہے افغانستان میں داعش کا بڑھتا ہوا خطرہ۔ اس سلسلے میں گذشتہ برس 27دسمبر کو تینوں ممالک کی ماسکو میں ایک بیٹھک بھی منعقد ہو چکی ہے جس کا موضوع افغانستان ہی تھا۔ اس اجلاس کے بعد روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخروف نے کہا تھا کہ تینوں ممالک نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ تینوں ممالک نے بعض طالبان راہنماﺅں پر سے پابندیاں ہٹانے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ کابل اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔ اگر امریکا کی افغانستان کے اندر دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی کو دیکھا جائے تو اس کی زیادہ توجہ طالبان ہی کی طرف ہے اور وہ افغانستان کے شمال اور مغرب میں بڑھتے ہوئے داعش کے اثر ورسوخ کو زیادہ توجہ نہیں دے رہا جب کہ روس اور ایران جنھیں ایک حد تک چین کی بھی حمایت حاصل ہے، مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف عملی طور پر نبردآزما ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ داعش مستقبل میں افغانستان کو اپنا ٹھکانا بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ خطرہ تینوں ممالک کے مشترکہ فوجی اقدام اور مزید قریبی تعاون کا باعث بن جائے۔

یہ نئے جیو پولیٹکل حقائق بھارت کی افغانستان میں موجودگی پر اثر انداز ہوں گے کیونکہ تینوں ممالک کے اتحاد سے امریکی کردار افغانستان میں رفتہ رفتہ غیر موثر ہوتا چلا جائے گا، اس کی مثال امریکا کے شام میں تنزل یافتہ رول سے دی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد بھارت کی افغانستان میں موجودگی یا فعالیت کی گنجائش نہیں رہ جائے گی۔ خطے کے تمام اہم ممالک ان حوالوں سے یکساں موقف اختیار کرلیں گے اور امریکا کو بھارت سے سی پیک کو روکنے کے لیے جس طرح کے اقدامات کی توقع ہے وہ شاید پوری نہ ہو سکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...