ایک ستمبرجو ستمگر نہیں رہا

1,164

پاکستان میں عام طور پر ستمبر کے مہینے کو ستمگر سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ گزشتہ کئی سالوں سےاس مہینے میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات ہیں۔بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کے لیے خاص طور پر یہ مہینہ بدشگون ثابت ہو سکتا ہے۔ماضی کی طرح اس ستمبر کی آغوش میں بھی سیاسی اور سفارتی ہیجان کی کئی تہیں دیکھنے میں آئیں،پانامہ کا ہنگامہ ابھی ختم نہیں ہوا، این اے ۱۲۰ کے ضمنی الیکشن سے ٹی وی سکرینوں پر سیاسی گفتگو کی گرما گرمی جاری ہے،بریکس اعلامیے نے داخلی و خارجی سلامتی کی بحث کو ازسرنو زندہ کر دیا ہے ،اس سب کے باوجود اس سال کا ستمبر نارمل دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی مندوبین کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسکراتے چہروں سے کسی قسم کا دباؤ عیاں نہیں تھا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس وقت خاصے پراعتماد دکھائی دیے جب انہوں نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ پاکستان اس بات کے لیے تیار نہیں ہےکہ وہ افغان جنگ اپنی سر زمین پر لڑے اور یہ کہ وہ کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا جواب نہ دے۔

گزشتہ سال ستمبر میں بھارت کے اڑی فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پاکستان پر شدید سفارتی دباؤڈالا گیا تھا۔سول اور فوجی قیادت بھارتی سفارتی جبر کا مقابلہ کرنے اور اسےمؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے جدوجہد میں مصروف تھی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی یو این جنرل اسمبلی میں تقریر بھارت کی پاکستان کے خلاف کامیاب مہم کی وجہ سے کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکی تھی۔ اڑی حملہ سے قبل بھارت کو کشمیرمیں انسانی حقوق پامال کرنے کی وجہ سے شدید عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن اس دہشتگردانہ حملے نے صورتحال کو یکسر بھارت کے حق میں تبدیل کر دیا۔
پاکستان میں خارجی عنصر پوری طرح متحرک تھا اور حکمت عملی یہ تھی کہ کسی بھی کمزوری کو بے نقاب کیے بغیر اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کیا جائے لیکن داخلی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے کوئی کوشش نہیں ہو رہی تھی۔ اس لیے جو حکمت عملی خارجی بحرانوں سے نہیں نمٹ سکتی تھی اس کا چلنا ناممکن تھاجس نے بالاخر ہمارے سفارتی موقف کو کمزور بنا دیا۔اسٹیبلشمنٹ نے سول انتظامیہ اور سفارتی عملے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔یوں ایک مرتبہ پھر ایسے مواقع کی تلاش میں رہنے والے غیر ریاستی کرداروں کو اس کا فائدہ پہنچا۔ گزشتہ سال ستمبر میں سول ملٹری تعلقات بالکل بگڑنے کے قریب تھے اور اکتوبر میں ڈان لیکس کے بعد مزید ابتری کا شکار ہوئے۔نومبر میں نئی فوجی قیادت نے کمان سنبھالی جس سے ذرا ٹھہراؤآیا۔

چین اور روس کے کردار کے باوجود افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں ریاست مخالف اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی کارروائی سے بھی بین الاقوامی سفارتی دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملی۔ تاہم پاکستان کی سفارتی کشیدگی کی وجہ سے بعض روایتی عسکریت پسند گروہوں کے روایتی نقطہ نظر کا جائزہ لینے کے موقع کا مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ یہ اپنے آپ کو اور بین الاقوامی برادری کو بتانے کا وقت تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسائل پیچیدہ ہیں اور جدید اور غیر روایتی حکمت عملی کے متقاضی ہیں، معاصر طریقے شاید پاکستان کے تناظر میں مکمل طور پر سودمند ثابت نہ ہو سکیں۔روایتی عسکریت پسند گروپوں کو غیرمسلح کرنے اور ان کی واپسی کا آئیڈیا ہمارے بین الاقوامی شراکت داروں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے پاکستان نے عارضی امداد کو کامیابی سمجھا جس نے نہ صرف داخلی عسکریت پسندی پھیلی بلکہ خارجی وہم بھی گہرا ہوا۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خارجی حکمت عملی اپنانے کے اہم وکیل تھے وہ اپنے آپ کو یہ موقع فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

جب ریاست نےکام نہیں کیا تو پھر غیرریاستی ادارے آگے بڑھے اورعسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی سوچ کا استحصال سیاسی جماعتیں بنا کر کیا گیا جو کہ دنیا کو مزید پریشان کر رہا ہے۔ہمیں اتنا بھی بھولا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دوستوں اور دشمنوں کی جانب سے پاکستان پر دباؤ کیوں بڑھایا جا رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر اور بریکس اعلامیہ کی ٹون اور تعبیر میں اگرچہ تفاوت تھا لیکن دونوں کا پیغام یکساں تھا۔

اگرچہ اندرونی حرکیات زیادہ تبدیل نہیں ہوئیں ،وزیراعظم اور ان کے وزیر داخلہ و خارجہ کی جانب سے یہ ایک حقیقت پسندانہ اقدام اٹھایا گیا کہ گھر میں مسئلے کے حل کی بات نے انہیں اعتماد دیا کہ وہ عالمی قیادت کے ساتھ مزید صراحت کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔یوم دفاع کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے اس بیان کہ جنگ(جہاد) کرنا صرف ریاست کا حق ہے میں ان کے لیے واضح پیغام تھا جو ریاست کے سٹریٹیجک بیانیے کے پیچھے چھپتے ہیں۔
عسکریت پسندی کے مسئلے کے بعد افغانستان، پاکستان کے لئے ایک اور اہم سفارتی چیلنج ہے جس کی خواہش ہے کہ اسے افغانستان کی عینک سےنہ دیکھا جائے اس مقصد کے لیے کابل اور افغان عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے اعتماد بحال کرنے کے عمل کو دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے جسے اس وقت منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔افغان صدر اشرف غنی نے اقوام متحدہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سے مذاکرات کے لئے اپیل کی۔ اسی طرح پاکستان کی فوجی قیادت اور افغان نمائندوں کے درمیان حالیہ بات چیت بھی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ چین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لئے پہلے سے ہی اس کی مدد کی ہے۔سول ملٹرل تعلقات کے ساختیاتی معاملہ پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،گزشتہ سال اکتوبر میں جاری ہونے والی ڈان رپورٹ کے مطابق غیر ریاستی ادارے بھی یہاں پریشان کن ہیں۔اس مسئلے کو باہمی رضامندی سے بیرونی مدد کے بغیر حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس مسئلے کے ادارتی مفادات سے لے کر پالیسی بنانے میں بالادستی تک کئی پہلو ہیں۔یہ بھی ایک فکری چیلنج ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ کمزور پالیسی کے دور کا خاتمہ ہو۔

ایک مضبوط پارلیمان کا کردار زیر بحث آنا چاہیے،پارلیمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو سپریم باڈی کے طور پر سامنے لائے اور تمام اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل اور چیلنجز پر بحث و مباحثہ کی قیادت اور رہنمائی کرے۔ایوان بالا بحث شروع کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے لیکن اسے ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں سے بھی سپورٹ کی ضرورت ہے۔سول اور عسکری قیادت کو داخلی اور علاقائی معاملات پر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے،پارلیمنٹ کو پالیسی سازی میں اپنی بالاستی کو بحال کرنا ہو گا،دانشوروں اور رائے سازوں کو نئے آئیڈیاز کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔صرف یہی راستہ ہے جس سے ستمبر،اکتوبر اور سال کے دیگر مہینوں کو تبدیل کر کے نارمل بنایا جاسکتا ہے۔
(ترجمہ :عاطف ہاشمی ، بشکریہ ڈان)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...