سی پیک اورگوادر
گزشتہ کچھ عرصے سے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے حوالے سے اس قدر اعلانات، دعوے، بیانات، تجزیے اور اقدامات سامنے آ چکے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے چائنا نہ سہی پاکستان کے ہر صوبے کے لوگوں کے دل و دماغ امیدوں ، توقعات اور خدشات سے لبریز ہیں ـ اگر یہ بات گوادر میں بیٹھ کر کی جائے تو یہاں امید اور خدشات کئی گنّا زیادہ ہونگے۔ کیونکہ گوادر ہی وہ مقام ہے جو اقتصادی راہداری کا ایک طرف سے نقطہ آغاز اور دوسری طرف سے نقطہ اختتام ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے ـ گوادر جس کے تینوں اطراف سے نیلگوں پانی ( سمندر) ھے لیکن گوادر والے آج بھی پانی کے بوند کو ترستے ھیں ، آج بھی گوادر کے شہریوں کو 20 دنوں کے بعد ایک گنھٹہ کے لیے پانی دیا جاتا ہے اور وہ بھی مضرِ صحت ـ آج بھی گوادر کی قدیم آبادی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ھے ـ آج بھی گوادر میں کوئی ایسا ھسپتال نہیں جہاں کسی مریض کا درست علاج ھو ـ گوادر میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں ـ اربوں ڈالر کھانے والے شہر میں کوئی صنعت نہیں جہاں کم از کم 10 افراد برسرِ روزگار ھوں ـ ھاں سی پیک کے ساتھ گوادر اور گوادر کے ساتھ سی پیک کا نام اس قدر لیا جا چکا ہے کہ اب دونوں کو الگ کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ دونوں الگ حقیقتیں ہیں اور دونوں کی حیثیت، ضروریات اور جذیات کا الگ الگ جائزہ لیکر اور جدگانہ مقام دے کر ہی ان کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی میگا منصوبے کے کچھ نہ کچھ نقصانات ضرور ھونگے ـ
مثال کے طور پر گوادر میں سی پیک منصوبے کی آمد سے قبل چوری، ڈاکہ، کلاشن کوف کلچر، قتل، تعصُب، اور دیگر بہت سے مسائل جو آج ہیں پہلے نہیں تھے۔ خوف و ڈر کا ماحول نہیں تھا، ماہیگیر اور دوسرے کاروباری حضرات پریشان نہ تھے، جہاں موجودہ ڈیپ سی پورٹ بنائی گئ ھے یہ جگہ ماھیگیروں کی شکارگاہ اور مچھلیوں کی افزائش نسل کی جگہ تھی جو گوادر کے ماہی گیروں نے بنا کوئی چون و چرا اس اُمید کے ساتھ حکومت کے حوالے کردی کہ سی پیک سے اُن کے اور اُن کی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل جائےگی۔ لیکن اِسکے بدلے میں گوادر والوں کو ابھی کچھ نہیں ملاـ میں ایک پروگرام میں شریک تھا جوکہ وفاق اور حکومتِ بلوچستان کے محکمہ پلاننگ اور ڈیولپمنٹ کے زیر اھتمام بعنوان “سی پیک گوادر، بلوچستان اور پاکستان ” رکھا گیا تھا جس میں گوادر کے علاقائی مسائل، انسانی بنیادی حقوق سمیت سی پیک کی اھمیت اور فوائد کے بارے میں منتخب عوامی نمائندوں، معززین شہر اور صحافیوں نے شرکت کرکے سیر حاصل بحث کی۔اسی پروگرام میں چائینہ اورسیز ھولڈنگ کمپنی کی ایک اھم شخصیت نے گوادر کے مسائل پانی، بجلی، شہر کی سڑکیں، سیوریج، تعلیم، صحت اور دیگر اھم مسائل و معاملات کے حوالے سے کہا کہ ھم ( یعنی چائینیز) ان تمام مسائل پر ذیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں مکمل قابو پالینگے ـ لیکن ( اُن کے بقول) ھمیں ان مسائل کے خاتمہ کی اجازت نہیں دی جارہی۔ سوال یہ ہے کہ کون ھیں وہ جو گوادر کے مسائل کا حل نہیں چاھتے؟
میرے خیال میں سی پیک ایک موقعے کا نام ہے ۔ جوکہ بین الاقوامی سطح پر یہ موقع 9/11 کے بعد کے عالمی حالات میں پیدا ھوا۔ علاقائی سطح پر یہ موقع پاکستان کی تیزی سے پیدا ہوتی ھوئی تنہائی اور اس کی مخصوص جیو اسٹریٹجک حالات کی وجہ سے ممکن ہوا اور ملکی سطح پر پاکستان کا جغرافیہ اور خاص طور پر دو ‘‘گ‘‘ یعنی شمال میں گلگت اور جنوب میں گوادر اس کے لئے اہم ثابت ہوئے۔ سی پیک کے ذریعے چائنا کو اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرنے، اپنے کم ترقی یافتہ مغربی خطے کو صنعتی طور پر آگے لانے اور اپنی مصنوعات کی برآمد اور تیل و گیس کی درآمد کو زیادہ آسان اور موثر بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے لئے مشرق وسطی اور افریقہ سمیت یورپ تک رسائی کے نئے امکانات اور کم خرچ کے ذریعے ممکن ہو رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے لئے بھی سی پیک نئے امکانات کی ایک قوس و قزح لے کر آئی ہے۔ سب سے پہلے یہ موجودہ حکومت کے لئے اگلا الیکشن محفوظ کرنے کی ضمانت ثابت ہواہے کیونکہ سی پیک کے نام پر آنے والی گرانٹ یا قرضہ سے ملک کے سب سے بڑے مسئلہ یعنی توانائی ( بجلی) کے مسئلے کا حل 2018 تک ( مستقل بنیادوں پر نہ سہی مگر اگلے الیکشن میں اپنی کارکردگی کا دعویٰ دکھانے کیلئے بے حد اھم ھوگا) ممکن ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
یہ سب مواقع پاکستان میں سی پیک کے بعد سامنے آئے ہیں۔
بلوچستان اور خاص گوادر کے لئے بھی سی پیک بہت سارے مواقع اور امکانات سے بھرپور ہے لیکن حکومت اور حکومتی اداروں کی نیک نیتّی یہاں کے عوام کیلئے شرط ھے ـ یہاں بھی تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار، ملازمت اور ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہونگے مگر حکومت کی سرپرستی، تعلیمی، اور ٹیکنیکل اداروں کی موجودگی شرط اور سرکار کی زمہ داری ھے جو آج تک گوادر میں ناپید ھیں ـ
بنیادی سوال یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے لوگ ان مواقع سے مستفید ہونے کے لئے کس قدر آمادہ ، تیار اور آزاد ہونگے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے سب سے اہم اور بنیادی وسیلہ انسانی وسیلہ ہے ۔ قدرتی وسائل اس وقت تک مدد گار اور کار آمد ثابت نہیں ہوتے جب تک ان کو استعمال میں لانے کے لئے انسانی وسائل موجود نہ ہوں۔ بدقسمتی سے انسانی وسائل کی دستیابی اور ترقی کے لحاظ سے بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہوتا ہےـ اس لحاظ سے ہماری ترجیحات ایک صوبہ یا ایک قوم کی حیثیت سے غیر واضح ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کا اہم ترین ذریعہ تعلیم و تربیت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں بلوچستان کی جو حالت ہے وہ کسی بھی حوالے سے قابلِ تعریف اور تسلی بخش نہیں ہے ۔
سی پیک سے پیدا ہونے والے خدشات کے خاتمے ، مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ظاہر و پوشیدہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی سطح پر بہتر منصوبہ بندی،سیاسی سطح پر زیادہ سے زیادہ دور اندیشی اور قوت ارادی اور عوامی سطح پر اعتماد و یکجہتی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لئے برداشت اور حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں کے لئے آنے والی نسل کی تیاری ایک قومی تحریک کی متقاضی ہے جس کا احساس سب سے پہلے ہمارے قومی اکابرین اور سیاسی جماعتوں کے دلوں میں پیدا ہونا ضروری ہے۔اسی طرح نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں ان کا مستقبل بھی محض نعروں، اعلانات یا تقاریر سے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ اس کے لئے ان کو علم و ہنر سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ ساتھ خود نوجوانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمیں یعنی نوجوانوں کو دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کی عادت ترک کرنا اور ہر حال میں اپنی تعلیمی قابلیت اور استعداد بڑھانے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
زندگی اور وقت ہر انسان اور قوم کے لئے مواقع لے کر آتی ھے مگر ان مواقعوں سے صرف وہی افراد یا اقوام فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کے لئے ہر طرح سے تیار ہوں
فیس بک پر تبصرے