خطرات میں گھرا سماجی ارتقاء
عشرہ محرم میں سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات تو ہماری روایات کا جزو بن چکے ہیں لیکن اس بار حفاظتی اقدامات کے ساتھ وسیع پیمانے پہ سماجی رہنماؤں کو متحرک کرنے کی مساعی کسی نئے رجحان کی غمازی کرتی ہے،کیا یہی معاشرتی فعالیت دیرپاء امن کے قیام کا وسیلہ بنے گی اور ہمارا معاشرہ ناشائستہ بنا دینے والی اس کشمکش کی پراسراریت سے نکل کر عقل کی ہمہ گیری کی طرف بڑھ جائے گا؟بلاشبہ مذہبی تشدد اور عالمی دہشتگردی کے مہیب اثرات نے ہمارے سماجی ارتقاء کو متاثر کر کے اجتماعی حیات کے فطری نظم کو منتشر کیا اور یہی اس جدلیات کا سب سے خطرناک پہلو تھا جسے ہم نظرانداز کرتے رہے۔صوبائی حکومت نے مغربی سرحدات سے ملحقہ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت پشاور،پاڑاچنار اور ہنگو جیسے اضلاع کو حساس ترین قرار دیکر ایسے شدید حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں جو ریاستی اداروں کی بے ثباتی کا پتہ دیتے ہیں۔خیبر پختون خواہ کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیاکہ اس وقت ہم اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے دوچار ہیں لیکن پولیس قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ موثر کوارڈینیشن کے ذریعے عاشورہ محرم کے ماتمی جلوسوں کی فول پروف سیکورٹی یقینی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حفاظتی انتظامات کی شدت اور عوام کی سماجی آزادیوں کے تحفظ میں توازن پیدا کر کے عام شہری کو مشکلات سے بچانے کی مقدور بھرکوشش کریں گے لیکن خوفزدہ اہلکاروں کی ذہنی کفیت عملاً ایسا ہونے نہیں دیتی،اندھی طاقت کے حامل حفاظتی اقدامات شہری حقوق کو گہری زک پہنچا رہے ہیں،آئی جی پی نے یہ بھی کہا کہ پولیس فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں کرے گی لیکن مختلف مسالک کے پیروکاروں کے مابین مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا فروغ ہی دیر پا امن کے قیام کا محرک بن سکتا ہے۔انہوں نے شیعہ،سنی اکابرین،امن کمیٹی کے ممبران اور انجمن تاجران کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے قیام امن کیلئے سماجی رہنماوں کی مضمحل مساعی کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ انہیں عشرہ محرم کے دوران پولیس فورس سے تعاون جاری رکھنے کی اپیل بھی کی۔حیران کن امر یہ ہے کہ اس بار پولیس فورس نے زیادہ بیباکی کے ساتھ پبلک موبائلزیشن اور سماجی رابطوں کو استوار کرنے کے علاوہ انتظامی اتھارٹی کو اپنے ہاتھ میں لیکردوسروں کو ایک قدم مزید پیچھے دھکیل دیا اور یہی نئے خیبر پختون خوا کی وہ بنیادی تبدیلی ہے جو یہاں مستقبل کے ریاستی کلچر کا تعین کرے گی۔
سماجی تنظیموں کو پہلی بار مذہبی رواداری کے فروغ کی خاطر “حسین سب کا”کے موضوع پر سمینار زاور مذاکرے کرانے کی اجازت ضرور دی گئی ہےجس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب الرائے افراد نے شرکت کر کے مذہبی ہم آہنگی بڑھانے کی خاطر تہواری خطبات پیش کئے مگر افسوس کے ہماری منتخب قیادت بالخصوص مولانا برداران ایسی صحت مند سرگرمیوں کی سرپرستی سے گریزاں رہےجس کے ذریعے ہم تشدد اور تعصب سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔حسب روایت پولیس نے عاشورہ محرم کے پہلے دن ہی اسلحہ کی تمام دکانیں سیل کر کے قدیم سٹی میں داخل ہونے والے روایتی دروازے اور غیر روایتی گلیوں کے ناکوں پر پولیس اور فوج کی نفری تعینات کر کے شہرکو سیل کردیاجس سے لامحالہ شہری آبادیوں کو گوناں گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ضلع بھر کی ناکہ بندیاں مزید سخت کرنے سے شہر میں داخل ہونے والی شاہراہوں پہ پولیس اور آرمی کی مشترکہ چیک پوسٹوں پر دن بھر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں جن میں ہسپتالوں کو جانے والے بیمار،ڈلیوری کی حامل خواتین اور ضرورمند لوگ گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں،اندرون شہر کے گنجان آباد علاقوں میں پولیس سرشام اشیاء ضروریہ کی دکانیں،میڈیکل سٹورز اور کلینک بند کر کے اجتماعی زندگی کی سانس بند کر دیتی ہے۔لیکن اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران پولیس غیر معمولی اختیارات اور لامحدود مراعات حاصل کرنے کے باوجود سیکورٹی کا کوئی ایسا میکانزم بنانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکی جس کے ذریعے وہ سماجی زندگی کے بہتے دھارے کو روکے بغیر امن کا قیام ممکن بنا سکتی؟
بلاشبہ اتنے بڑے پیمانے پہ پبلک موبائلزیشن سے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مابین باہمی رابطوں کو فروغ ملا،سول سوسائٹی اور انتظامی اداروں کے درمیان فاصلے کم ہونے سے پرامن و منظم معاشرتی اصلاحات کی راہ ہموار ہوئی ،اگر انہی صحت مند سرگرمیوں کو دوام بخشا گیا تو ہمارا معاشرہ بہت جلد نفرتوں کے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اس مساعی کا دردناک پہلو یہ ہے کہ نئے خیبر پختون خوا میں عشرہ محرم کے انتظامی امور چلانے کے ذمہ دار کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت ضلعی انتظامیہ کے سول افسران کہیں نظر نہیں آتے،شہر میں صفائی ستھرائی، لائٹنگ،میونسپل سروسیز کی فراہمی ٹی ایم اے والوں کے ذمہ ہے اور انتظامی اتھارٹی پولیس اور فورسیز نے جذب کر لی،اس لئے نئے منظر نامہ میں سول اتھارٹی کی جگہ محدود ہو گی۔
فیس بک پر تبصرے