سابق وزیراعظم کی پیشی اورریاست میں ریاست ہونے کا شور۔

1,029

پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پیر دو اکتوبر کو دوسری مرتبہ احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اُن پر فرد جرم تو عائد نہیں کی گئی لیکن نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کے علاوہ سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے اور اُنھیں نو اکتوبر کو گرفتار کرکےعدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیاہے۔

پیر کو ہونے والی سابق وزیر اعظم کی اس پیشی کے ساتھ یہ چرچا بھی رہا کہ رینجرز نے نواز شریف کے ساتھ آنے والے وفاقی وزیر داخلہ اور ان کے دیگر رفقاء بشمول وزیر مملکت برائے داخلہ کو رینجرز حکام نے عدالت میں جانے سے روک دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “کٹھ پتلی” وزیر داخلہ کے طور پر کام نہیں کر سکتا،فورس میرے ماتحت ہوتے ہوئے کسی اور کے احکامات پر کیوں عمل کررہی ہے۔یہ ریاست کے اندر ریاست ہے۔اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔
سوال یہ ہے کہ وزیر داخلہ کس سے جواب مانگ رہے تھے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت داخلہ کے دونوں وزراء کی اس بے بسی کا چرچا سوشل میڈیا پر ابھی تک جاری ہے اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کہیں یہ سب حکومت نے خود تو نہیں کروایا؟
اگر نہیں تو یہ سب احتساب عدالت کے باہر سب کچھ کس کے کہنے پر ہوا۔؟
حکومت کی عمل داری سے متعلق سوال اٹھنے سے ملک کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس صورت حال کا فائدہ کیا کسی ایک کو ہو گا یا سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا؟ تجزیات کے قارئین اس بارے میں اپنی آراء کا اظہار اس صفحے پر کر سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...