P5+1کا جوہری معاہدہ اور ڈونلڈ ٹرمپ

986

 

 2015میں پانچ عالمی طاقتوں اورجرمنی نے مشترکہ طور پر ایران کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدہ کیا جسے بعدازاں 14جولائی 2015میں سلامتی کونسل نے منظور کرکے اسے ایک عالمی قانونی دستاویز بنا دیا۔ اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کہتے ہیں۔ پانچ عالمی طاقتیں امریکہ،روس، چین،برطانیہ اور فرانس ہیں جنھیں سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہے۔ اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے کئی برس کے طویل اور حوصلہ آزما مذاکرات سے گزرنا پڑا۔یہاں تک کہ اس معاہدے کومذاکرات کے نتائج کا معجزہ کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے ایران کے جوہری پروگرام پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں اور جواب میں اس پر عائد کئی ایک اہم اقتصادی اور دیگر پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو مطلوبہ سطح پر لانے کے لیے 6ماہ کی مہلت دی گئی اور عالمی توانائی ایجنسی کی تائیدی رپورٹ کے بعد16جنوری 2016 کومعاہدے پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔

 بعدازاں عالمی توانائی ایجنسی نے مسلسل مختلف وقفوں میں یہ رپورٹ دی کہ ایران معاہدے پر عملدرآمد کررہا ہے۔ اسی طرح امریکی اور یورپی انٹیلی جنس اداروں نے بھی اس کی تائید کی۔ سابقہ امریکی حکومت اس معاہدے کو اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتی رہی ہے اور صدر باراک اوباما صدر ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران میں معاہدے کی مخالفت کو عاقبت نا اندیشانہ قرار دیتے رہے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ نے بھی اس معاہدے سے نکلنے کے منفی نتائج سے صدر ٹرمپ کو متنبہ کیا۔ بہرحال امریکی قانون کے مطابق امریکی صدر کو ہر تین ماہ بعد کانگرس کو یہ یقین دہانی کروانا ہوتی ہے کہ ایران مذکورہ جوہری معاہدے پر عملدرآمد کررہا ہے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ دو مرتبہ یہ یقین دہانی پہلے ہی کروا چکے ہیں۔ اب پندرہ اکتوبر کو وہ تاریخ آ رہی ہے کہ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پھر ایک مرتبہ یہی یقین دہانی کروانا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو یہ بیان دے چکے ہیں کہ مشترکہ جامع حکمت عملی(JCPOA) امریکی تاریخ کا بدترین معاہدہ ہے اور یہ کہ وہ اب کانگرس میں اس امر کی تائید نہیں کریں گے کہ ایران اس پر عملدرآمد کررہاہے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایران معاہدے کی رو ح کے مطابق اس پر عمل نہیں کررہا ۔ اس کے لیے انھوں نے ایران کے میزائل پروگرام کو ہدف تنقید بنایا ہے جب کہ معاہدے کے دیگر شرکاءاور عالمی ادارے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایران کا میزائل پروگرام اس معاہدے کی حدود میں شامل نہیں ہے اور وہ اس کی زد میں نہیں آتا۔

اس وقت عالمی سطح پر یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اگر 15اکتوبر2017کو امریکی صدر نے کانگرس میں مثبت رپورٹ پیش نہ کی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اس وقت یورپی یونین اور خود بہت سے امریکی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے کہ امریکا کو حق پہنچتا ہو کہ وہ اس سے نکل جائے بلکہ یہ سلامتی کونسل کا منظور کردہ عالمی معاہدہ ہے جسے دنیا کی تمام ایٹمی طاقتوں نے جرمنی کے ساتھ مل کر تیار کیا اور ایرانی تائید کے بعد اسے ایک عالمی معاہدے کی شکل دی گئی لہٰذا امریکا کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایسی صورت حال میں جب کہ ایران اس پر پوری طرح عملدرآمد کررہا ہے، اس سے نکل جائے۔

ایسا ہوا تو امریکا کے بارے میں یہ رائے قائم ہو جائے گی کہ اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پراس وقت جب کہ شمالی کوریا کے ساتھ امریکا کے تعلقات اپنی پوری تاریخ میں خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور شمالی کوریا ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے سے حل کیا جائے۔ جب ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کا مسئلہ جو طویل مذاکرات کے بعد حل کیا گیا تھا، امریکا اس کے بارے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا تو پھر دنیا اور خاص طورپر شمالی کوریا کس طرح سے امریکا پر اعتبار کرکے مذاکرات کا آغاز کر سکتا ہے۔

یورپی یونین کی فارن پالیسی کی چیف فیڈریکا موغرینی پہلے ہی ایران کے ساتھ ہونے والے P5+1 کے معاہدے کا دفاع کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی توانائی ایجنسی مسلسل اس امر کو کنفرم کرتی آرہی ہے کہ ایران نے اس معاہدے پر پوری طرح سے عمل کیا ہے۔ روس اور چین بھی اس مسئلے میں ایران کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ روس اور یورپی یونین نے 6اکتوبر2017کو ایک دفعہ پھر امریکی صدر کے اس بیان پر کہ وہ اس تاریخی معاہدے کی تائید نہیں کریں گے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے منظور کیا ہے اور عالمی توانائی ایجنسی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس امر کی تائید کی ہے کہ ایران اس معاہدے پر عملدرآمد کررہا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے قازقستان میں 6اکتوبر کو اپنے دورہ کے موقع پر اس امید کا اظہار کیا کہ ٹرمپ اس معاہدے پر متوازن فیصلہ کریں گے کیونکہ ان کے بقول اس معاہدے کو محفوظ رکھنا بہت اہم ہے۔

یورپی یونین نے تو واضح طور پر یہ کہا ہے کہ اگر امریکی صدر نے اس معاہدے کی تائید نہ کی تو ہم اس کی پیروی نہیں کریں گے کیونکہ اس معاہدے کے بارے میں ہم اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تین یورپی ممالک نے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

امریکہ سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس وقت امریکی وزیرخارجہ اور وزیر دفاع بھی یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کیا جائے کہ وہ 15اکتوبر کو اپنی رپورٹ میں اس معاہدے کی تائید کریں۔ قبل ازیں امریکا کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی امریکی صدر کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو باقی رکھنا امریکا کے مفاد میں ہے بلکہ سی آئی ہے کے سابق سربراہ جان برینن نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ میرے خیال یہ حماقت کی انتہا ہوگی کہ اگر نئی انتظامیہ یہ معاہدہ ختم کردے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایسا کرنا تباہ کن ہوگا۔

دوسری طرف ایران نے بارہا واضح کیا ہے کہ اگر امریکا نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تو اس کے پاس کئی ایک متبادل راستے موجود ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتیں امریکی مخالفت کے باوجود اس معاہدے پر کاربند رہیں تو ایران اس معاہدے سے علیحدگی اختیار نہیں کرے گا اس سے ایران کے بارے میں عالمی تاثر اور بھی بہتر ہوگا۔

بہت سے یورپی ممالک نے اس معاہدے کے بعد ایران کے ساتھ جو تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ان تعلقات کو ختم کیا جائے البتہ اس راستے میں انھیں یہ مشکل درپیش ہے کہ جو کمپنیاں ایران کے ساتھ کاروبار کریں گی امریکا ان پر پابندیاں عائد نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی سفارت کار امریکی کانگرس کے اراکین کے ساتھ لابنگ کررہے ہیں کہ وہ امریکا کو اس معاہدے سے نکلنے سے روکیں۔

عملی طور پر شاید یورپ کے لیے اب یہ ممکن نہیں کہ وہ سو فیصد امریکی حکام اور فیصلوں کی پیروی کریں۔ شاید اب یہ موقع آ گیا ہے کہ یورپی یونین امریکا کے مقابلے میں جرات مندانہ موقف اختیار کرے۔اگر ایسا ہو گیا، جس کا امکان دکھائی دے رہا ہے تو اس جوہری معاہدے سے علیحدگی کا خمیازہ امریکا کو بھگتنا پڑے گا۔ اس معاہدے کی زیادہ تر مخالفت اسرائیل اور سعودی عرب کی طرف سے کی گئی تھی۔ اس موقع پر اگر امریکا نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تو اس امر کا امکان موجود ہے کہ اب امریکی پابندیاں خود امریکا کے خلاف نتائج پیداکریں گی۔ گویا تاریخ کا وہ سفر جو ایران کے خلاف پابندیوں سے شروع ہوا تھا اب واپس ہونا شروع ہوگا اور اس کا رخ امریکا کی طرف ہو جائے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...